شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں گرفتار، ایف آئی اے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئ ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ دستاویز اس سے موصول ہوئی ہے اور اس سے شائع بھی کیا گیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم نے ان کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اس دستاویز کو عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔
ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیرقانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔
ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔
شاہ محمود کی گرفتاری
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پٌی ٹی آئی) نے کہا تھا کہ پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ’وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ایک بار پھر غیرقانی طور پر گرفتار ہوئے ہیں، انہیں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے پولیس کی بھاری نفری نے گرفتار کیا‘۔
بیان میں کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی کو ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز منتقل کیا جارہا ہے۔
نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے جیو نیوز کے پروگرام ’نیاپاکستان‘ میں شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرخارجہ کو سائفر سے متعلق معاملات کی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’شاہ محمود قریشی مقدمے میں نامزد تھے اور انہیں جلد ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا، ہمیں قانون نافذ کرنا ہے اور سائفر کیس میں نامزد تمام افراد کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے گا‘۔
شاہ محمود قریشی کی گرفتاری پریس کانفرنس اور غیرملکی سفرا کے ساتھ ملاقات کے بعد عمل میں لائے جانے سے متعلق تاثر کو انہوں نے مسترد کردیا۔
تاہم پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ شاہ محمود قریشی کو پریس کانفرنس کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے جہاں انہوں نے پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی نفی کی تھی اور اعلان کیا تھا کہ پارٹی عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گی۔
اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کے وکیل رہنما شعیب شاہین کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کیا تھا اور الیکشن میں تاخیر کے حوالے سے شدید تنقید کی تھی۔
شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شاہ محمود قریشی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صبح آسٹریلیا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کی اور اس موقع پر دیگر اہم ممالک کے سفیر بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ملاقات کے دوران ملک کی سیاسی صورت حال پر اپنا مؤقف پیش کیا اور سیکیورٹی کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ہماری اچھی گفتگو ہوئی اور اس کو میڈیا میں عمران خان کی رہائی کو بنیاد بنا کر پیش کیا گیا لیکن غیرملکی سفیروں کے سامنے پارٹی چیئرمین کی رہائی اور سفارتی سائفر کے معاملے پر تبادلہ خیال کرنے کا تاثر رد کیا۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین نے میڈیا کی ان رپورٹس کی بھی تردید کی، جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹی کی سینئر قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔
جیونیوز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی 5 اگست کو توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد پارٹی کی کور کمیٹی میں اندورونی لڑائی میں ایک اور دھڑا سامنے آگیا ہے جہاں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان کی جانب سے عمران خان کی جگہ لینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے دوران اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک میڈیا ہاؤس کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔
پارٹی کی کور کمیٹی اور قانونی ٹیم کی سربراہی ایک مشکل کام قرار دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اس طرح کی خبریں (پارٹی میں اختلافات) مس انفارمیشن، پارٹی کے اندر کنفیوژن پھیلانے اور ان کے اذہان پر اثر ڈالنے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان رپورٹس میں کوئی سچائی نہیں ہے اور یہ وقت آنے پر ختم ہوجائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمر ایوب خان اور ان کے درمیان پارٹی کی سربراہی کی کوششوں میں کوئی صداقت نہیں ہے، عمر ایوب خان نے فوری طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ان الزامات کا جواب دیا تھا اور نفی کردی تھی کہ کسی قسم کا کوئی اختلاف ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان ہمارے چیئرمین تھے، ہیں اور رہیں گے، ان کی ذات پر سب متفق ہیں اور اس حوالے سے کور کمیٹی نے ایک قرارداد منظور کرکے اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین نے عام انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حوالے سے پارٹی سپریم کورٹ جائے گی، جس کے لیے درخواست کی تیاری آخری مرحلے میں ہے۔
انہوں نے جمعیت علمائے اسلام، پاکستان پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو اس معاملے پر اپنا مؤقف پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس سے قبل پی ٹی آئی نے اندورنی اختلافات کے حوالے سے خبر کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے عمر ایوب خان کا وضاحتی بیان جاری کیا تھا۔
عمرایوب خان نے کہا تھا کہ پارٹی یا کور کمیٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے اتفاق رائے اور جس طرح عمران خان نے فریم ورک بنایا ہے اس کے مطابق بہت آسانی سے کیے جارہے ہیں اور مزید کہا کہ انہیں شاہ محمود قریشی کا انتہائی احترام ہے اور کور کمیٹی کے اجلاس کے دوران کوئی تلخ کلامی نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے رہنما ایڈووکیٹ شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کی کور کمیٹی اور عمران خان کی قانونی ٹیم کے اندر ’غدار‘ موجود ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے کور کمیٹی کے اجلاس کی ریکارڈنگ مخالفین اور یہاں تک کہ میڈیا کو بھی پہنچا دی ہے، اگر مجھے پارٹی کی متعلقہ شخصیات کی جانب سے اجازت دی گئی اور اگر میں زندہ رہا تو بہت جلد ان غداروں کے نام جاری کروں گا۔
شیرافضل مروت نے بعد میں مذکورہ پوسٹ ایکس سے ڈیلیٹ کردی تاہم انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پارٹی قیادت کی جانب سے پوسٹ ڈیلیٹ کرنے اور کمپرومائزڈ لوگوں کا معاملہ فیصلے کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی پر چھوڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی نے ان کی ابتدائی پوسٹ پر نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دعووں کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور شیرافضل مروت کو اپنے خیالات کا اظہار سوشل میڈیا کے بجائے پارٹی کے اندر کرنا چاہیے۔
مذمتی بیانات
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب خان نے گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو پریس کانفرنس سے واپسی کے بعد گھر پہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے اور پریس کانفرنس میں انہوں نے پارٹی سے علیحدگی کی رپورٹس مسترد کردی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا تھا کہ وہ عام انتخابات میں تاخیر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رہے ہیں۔
عمر ایوب نے شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کی فاشسٹ حکومت کے بعد لاقانونیت کا دورہ ختم ہونے کی امید تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ نگران حکومت اپنے پیش رو فاشسٹ حکومت کے ریکارڈز توڑنا چاہتی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے دعویٰ کیا کہ ’پارٹی مؤقف پریس کانفرنس میں بیان کرنے اور گزشتہ دنوں غیر ملکی سفرا کے ناشتے کی دعوت میں شرکت کی سزا میں وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ چاہتے ہیں جیسے تیسے بھی پارٹی لیڈر شپ کو پابند سلاسل کرکے تمام آوازوں کو خاموش کردیا جائے، پاکستان کے آئین میں دیا گیا شخصی آزادی کا تحفظ ختم کردیا گیا ہے اور آئین ایک طرح سے معطل ہو گیا ہے‘۔
خیبرپختونخوا کے سابق وزیرخزانہ تیمور جھگڑا نے مذمتی بیان میں کہا کہ ’کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شاہ محمود قریشی کو پریس کانفرنس کے بعد گرفتار کرلیا گیا ہے جس میں انہوں نے اپنی پارٹی کا درست مؤقف پیش کیا‘۔
انہوں نے مزید سوال کیا کہ ’کیا یہ اتفاق ہے کہ ایک روز قبل ہی جان بوجھ کر افواہیں پھیلائی جا رہی تھیں کہ شاہ محمود قریشی اور عمر ایوب کے درمیان اختلافات ہیں، کیا یہ ان کی ہر کوشش کے باوجود پی ٹی آئی نہ ٹوٹنے اور عمران خان کی سربراہی میں اپنے مؤقف پر ڈٹ کر کھڑے ہونے پر ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی تمام مقدمات میں عدالتی نظام اور تفتیشی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے تھے لہٰذا ان کو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔
تیمور جھگڑا نے کہا کہ ’قانون کا مذاق نہیں بنانا چاہیے‘۔
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما زلفی بخاری نے بھی شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ انہیں پریس کانفرنس کرنے اور تمام مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی کے مؤقف کی تائید کرنے اور اس وقت پاکستان میں جاری پری پول دھاندلی پر بات کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
بعد ازاں انہوں نے غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود کی گرفتاری سے متعلق وجوہات تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔
9 مئی کے بعد شاہ محمود کی گرفتاری اور رہائی
شاہ محمود قریشی کو 9 مئی کے واقعات کے بعد 10 مئی کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور بعد ازاں 6 جون کو انہیں اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو چیرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد ’پر تشدد مظاہروں کو ہوا دینے‘ کے الزام میں10 مئی کو رات گئے اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں ’امن و امان کو خراب کرنے کے لیے پوری منصوبہ بندی سے پر تشدد مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کو بڑھکانے کے الزام میں کی گئیں‘۔
پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ گرفتاریاں تمام تر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے کی گئی ہیں۔
18 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ محمود قریشی کی نظر بندی کے خلاف دائر درخواست پروکلا کے دلائل سننے کے بعد 3 ایم پی او کے تحت ان کی گرفتار کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں 23 مئی کو شاہ محمود قریشی کی رہائی کا حکم دیا گیا تھا تاہم اڈیالہ جیل کے باہر سے انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
دوبارہ گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کو پولیس نے بتایا تھا کہ وہ اس بات سے لاعلم ہے کہ پی ٹی آئی رہنما اس وقت کہاں ہیں تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ شاہ محمود قریشی ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے تھری ایم پی او کے تحت احکامات پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔
27 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی ایم پی او کے تحت گرفتاریاں غیر قانونی قرار دیا تھا تاہم وہ اس وقت بھی جیل میں تھے۔