نقطہ نظر

ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: جہاز کے عملے کا میٹر کب گھومتا ہے؟

کچھ باتیں دنیا بھر کے فضائی میزبانوں کے دماغوں میں موجود برقی تسلسل کو بھڑکانے میں چقماق پتھر کا کام دیتی ہیں جن سے مسافروں کو اجتناب کرنا چاہیے۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


36 ہزار فٹ کی بلندی پر گھمسان کا رن پڑا تھا۔ کھانے کی سروس پوری آب و تاب سے جاری تھی۔ مسافروں کے کانٹے اور چھریاں بریانی کے چاولوں میں سے مرغ کی بوٹیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا قتال کرنے پر تلے تھے۔ ان کو اب مسافروں کے معدوں کے پاتال میں دفن ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ گیسی مشروبات کی بوتلوں کے ڈھکن لگاتار کھلنے سے جہاز کے کیبن کی فضا ’چھس چھس‘ کی آوازوں سے گونج اٹھی تھی۔ میرے یونیفارم کے جوتے اور کھانے کی ٹرالی کے پہیے جہاز کے قالین کو روندے جا رہے تھے۔

گردشِ ’طعام‘ کے اس بھنور میں گھومتے ہوئے جب میں نے ایک صاحب کو کھانے کی ٹرے پیش کی تو انہوں نے منع کردیا۔ اشارہ پاتے ہی میں دوسری قطار میں بیٹھے مسافروں کی طرف متوجہ ہوا تو آواز دی کہ ذرا بات سنیں۔ میں سمجھا کوئی مشروب چاہیے ہوگا مگر وہ پوچھنے لگے کہ پرواز اترنے میں اور کتنا وقت لگے گا؟ عرض کی جناب سامنے اسکرین پر وقت لکھا آرہا ہے۔ کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کو صحیح معلوم ہوگا ہے نا؟ وہاں سے میں نے آگے فلاں ایئرلائن کی فلاں پرواز پکڑنی ہے، کیا وہ مل جائے گی؟ اور کن اوقات میں اس ایئرلائن کی پروازیں چلتی ہیں؟ وہ لوگ سامان کتنا چھوڑ دیتے ہیں؟

مساموں کے تالے تو ٹوٹ چکے تھے لیکن ان کے ’فرحت کش‘ سوالات سن کر پسینے کے قطرے بہہ کر ان جگہوں سے نکلنے پر اصرار کرنے لگے جو صرف ملتان اور جیکب آباد کی گرمی میں ممکن ہوتا ہے۔ ان سوالات کے دوران میں دو قطار آگے نکل چکا تھا۔ عرض کی کہ سروس کے بعد آپ کو تفصیل بتاتا ہوں جوکہ صرف اور صرف معذرت پر مبنی تھی کیونکہ ظاہر ہے میں اس فلاں ایئرلائن کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اگر آپ نے مزید سفر جاری رکھنا ہے تو معلومات لے کر آئیے۔ فضائی عملہ ایک وقت میں صرف ایک ایئرلائن کی نوکری کرتا ہے۔

لوگ کہتے ہیں پیسے سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے لیکن محبت نہیں۔ میری رائے میں عام فہمی یعنی کامن سینس وہ واحد شے ہے جو پیسے سے بھی نہیں ملتی اور آپ اس رائے سے مکمل اختلاف کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے فضائی سفر کرنے والے بیشتر مسافروں میں یہ رجحان خطرناک حد تک پایا گیا ہے کہ وہ فضائی عملے کو ’سائے بورگ‘ سمجھتے ہیں۔ یعنی ایسے انسان جن میں کمپیوٹر چپ لگی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے کوئی علاج دستیاب نہیں چنانچہ اکثر عملے کو پرواز کے دوران ہی علاج کرنا پڑتا ہے۔

کچھ باتیں دنیا بھر کے فضائی میزبانوں کے دماغوں میں موجود برقی تسلسل کو بھڑکانے میں چقماق پتھر کا کام دیتی ہیں جن سے مسافروں کو اجتناب کرنا چاہیے۔ مثلاً سب سے پہلے جہاز کے اندر آتے ہی اگر مسافر کہے کہ یہ میرا سامان اوپر خانے میں رکھ دیں۔ اس وقت ایکتا کپور کے ڈرامے میں متواتر 3 بار بجنے والا باجا عملے کے کانوں میں بھی بجتا ہے اور عملے کا رکن اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ ابھی یہ حال ہے تو روز محشر یہ انسان اپنا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔ دیکھیں عملہ آپ کی رہنمائی کے لیے جہاز میں موجود ہوتا ہے، سامان ڈھونے کے لیے نہیں۔ اگر ہر مسافر یہی کہنا شروع ہو جائے تو سوچیں عملے کا پرواز سے پہلے ہی کیا حال ہو۔ لہٰذا جہاز کے اندر اتنا سامان لائیں جتنا آپ اٹھا کر بالائی خانے میں رکھ سکیں۔

اس معاملے میں مزید کردار کسی بھی ایئرلائن کے زمینی عملے کا ہوتا ہے جو کہ ’بروٹس‘ کے مشہور کردار سے کم نہیں ہوتا۔ کوئی مسافروں پر مشتمل گروپ یا فیملی اگر پرواز کے چلنے سے کچھ دیر پہلے ہی چیک ان ہوتے ہیں تو ان کو نشستیں ساتھ ساتھ نہیں ملتیں کیونکہ ان سے پہلے تمام نشستیں مختلف مسافروں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ جہاز کا عملہ آپ کو ساتھ بٹھا دے گا لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ دنیا کا کوئی بھی فضائی میزبان کسی مسافر کو اس کی مقرر کردہ نشست سے نہیں اٹھا سکتا۔ وہ صرف درخواست کر سکتا ہے جو کہ در حقیقت خود ان مسافروں کو کرنی چاہیے جو ساتھ ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وقت پر تشریف لائیں تاکہ تشریفات ساتھ ساتھ براجمان ہوسکیں۔

ایک جملہ فضائی میزبانوں کو بہت محظوظ کر جاتا ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ جب کوئی مسافر یہ کہے کہ ’میں آپ سے زیادہ فضائی سفر کرتا ہوں‘۔ مجھ سے جب کوئی یہ بات کرتا تھا تو میں ’ماشااللّٰہ بہت خوب‘ اور ’کیا بات ہے سر‘ کہہ کر بحث کے دلدلی علاقے سے لانگ جمپ مار کر نکل جاتا تھا۔ ایک فضائی میزبان ایک مہینے میں زیادہ سے زیادہ 100 فضائی گھنٹے مکمل کر سکتا ہے۔ چلیں کم از کم 70 گھنٹے تو کر ہی لیتا ہوگا۔ آپ نہیں کر سکتے اتنا سفر کیونکہ آپ کے لیے پھر یہ انگریزی والا ’Suffer‘ ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر بہت شوق ہے تو فضائی عملے میں بھرتی ہو جائیں۔

دورانِ پرواز ایک مرتبہ روس کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان خاتون نے مجھے بلا کر پوچھا کہ ہم کہاں سے گزر رہے ہیں۔ میں نے ان کے سامنے اسکرین پر چلتا ہوا نقشہ دیکھ کر بتایا کہ روس کے قریب باکو، آذر بائیجان۔ کہنے لگیں باکو کے اوپر کہاں سے گزر رہے ہیں۔ خدا جانے وہ امتحان میرے صبر کا لینا چاہتی تھیں یا جنرل نالج کا۔ تحمل کا دامن پھٹنے کے قریب تھا لیکن میں نے تحمل سے اپیل کی اور وہ مان گیا۔ میں نے اطمینان سے ان کو بتایا کہ اس وقت ہم کرامازوف گاؤں پر اڑ رہے ہیں۔ بہت خوش ہوئیں۔ حسین تھیں اور میرا شکریہ بھی ادا کیا تو بات آئی گئی کر دی میں نے۔ فضائی عملے کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اسکرین پر چلنے والا نقشہ بتا رہا ہوتا ہے۔ عملے کے کسی بھی رکن کو گوگل میپ سمجھنا بالکل غلط بات ہے۔

بس اگر آپ مندرجہ بالا اقوالِ زریں میں سے کسی ایک کے بھی مرتکب رہے ہیں تو عہد کریں کہ آئندہ ایک بدلے ہوئے مسافر کی مانند جہاز پر وارد ہوں گے۔ مجھے امید ہے پھر آپ کے جہاز پر موجود عملے کا سفر انتہائی خوشگوار اور آرام دہ گزرے گا۔ کسی بھی ایئرلائن سے پرواز کرنے کا شکریہ۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔