پاکستان

9 مئی کے واقعات میں ملوث عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کیلئے قانونی تقاضے تاحال ادھورے

فوج کا شعبہ قانون زیرحراست 102 افراد کے خلاف باضابطہ کارروائی شروع کرنے سے قبل تاحال قانونی تقاضے پورے کرنے کے مراحل میں ہے۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے، دوسری جانب فوج کا شعبہ قانون زیرحراست 102 افراد کے خلاف باضابطہ کارروائی شروع کرنے سے قبل تاحال قانونی تقاضے پورے کرنے کے مراحل میں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کے شعبہ قانون نے زیر حراست افراد کے خلاف شواہد اکٹھے کر لیے ہیں جبکہ مفرور افراد کے خلاف مقدمات بنائے جارہے ہیں۔

رواں ہفتے کے آغاز میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ فوج اس وقت تک اپنی تحویل میں موجود لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع نہیں کرے گی جب تک کہ عدالت فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کو نمٹا نہیں دے گی۔

تاہم اسی روز ترجمان پاک فوج نے 102 مشتبہ افراد زیرحراست ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(ون)(ڈی) اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3، 7 اور 9 کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہر قانون احمر بلال صوفی نے بتایا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کو قانونی حیثیت دینے کے لیے جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ کو کچھ تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ زیر حراست شہریوں کے خلاف مقدمات ابھی تفتیش کے مرحلے میں ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بینچ کو یقین دلایا کہ کسی بھی ملزم پر کسی ایسے جرم کا الزام عائد نہیں کیا جائے گا جس میں اسے سزائے موت یا طویل سزا کاٹنی پڑے۔

انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ پاکستان آرمی ایکٹ رولز 1954 میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کو استغاثہ کے شواہد کی کاپیاں فراہم کی جائیں گی اور انہیں جانچنے اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد وکیل کو شامل کرنے کا وقت دیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ چونکہ یہ مرحلہ ابھی تک نہیں آیا ہے، اس لیے اب تک کسی بھی زیرِحراست شہری کا کوئی فوجی ٹرائل شروع نہیں ہوا۔

سیکشنز کا اطلاق

جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) برانچ کو پہلے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سی سیکشنز کس مشتبہ شخص پر لاگو ہوں گی۔

ذرائع نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات کے دوران پرتشدد مظاہرین نے نہ صرف ممنوعہ علاقوں میں گھس کر حملہ کیا بلکہ یادگاروں کی بے حرمتی کے علاوہ فوجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا اور لوٹ مار کی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کارروائیوں کے تنیجے میں ان افراد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور اس کے نتیجے میں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور 3 اے ممنوعہ علاقوں کی تصاویر، خاکے وغیرہ کے خلاف پابندی سے متعلق ہیں، سیکشن 7 پولیس افسران یا افواج پاکستان کے اہلکاروں کے امور میں مداخلت کے بارے میں ہے جبکہ دفعہ 9 کا تعلق ان اقدماات یا اشتعال انگیزی وغیرہ سے متعلق ہے۔

خیال رہے کہ 1923 کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ فوج کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کا ٹرائل کرے۔

’سویلین عدالتوں میں اس قانون کے تحت کبھی مقدمات نہیں چلے‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا اصرار ہے کہ ماضی کی فوجی حکومتوں کے دوران اور حتیٰ کہ کچھ جمہوری حکومتوں کے دور میں بھی مخالفین کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ کئی حلقے یہ مقدمات سویلین عدالتوں میں چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سویلین عدالتوں نے اس قانون کے تحت کبھی بھی مقدمات نہیں چلائے کیونکہ ماضی میں ایسے کیسز فوجی عدالتوں کا خصوصی اختیار رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے کہا کہ سرکاری راز فاش کرنے پر کسی سویلین عدالت میں عام شہریوں پر کبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت سویلین عدالت میں کرنے کا طریقہ کار موجود ہے لیکن جہاں تک مجھے علم ہے حکومت نے اس طرح کا کوئی نوٹیفکیشن کبھی جاری نہیں کیا۔

فوجداری قانون کے ماہر ایڈووکیٹ راجا انعام امین منہاس نے بتایا کہ میں نے اپنی 3 دہائیوں کی قانونی پریکٹس کے دوران کبھی بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے پاس درج ہونے والے کیس کے بارے میں نہیں پڑھا، تاہم عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

26 جون کو پریس کانفرنس کے دوران میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ آرمی ایکٹ کئی دہائیوں سے قانونی فریم ورک کا حصہ رہا ہے اور اس قانون کے تحت سیکڑوں مقدمات کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِحکومت میں سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر کم از کم 25 شہریوں کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا لیکن یہ شفاف عمل نہیں تھا اور اِس کارروائی سے واقف وکیل کے مطابق اس میں مشتبہ افراد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔

ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل انعام الرحیم نے بتایا کہ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا اور خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا، ان میں سے 3 کو سزائے موت سنائی گئی۔

جج ایڈووکیٹ جنرل (جے اے جی) کے ایک سابق عہدیدار ایڈوکیٹ رحیم اس طرح کے ایک درجن سے زائد مقدمات میں بطور وکیل خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام کیسز میں آئین کے آرٹیکل 4، 9، 10 اور 10 اے کی خلاف ورزی کی گئی کیونکہ ملزمان کی گرفتاری اور ٹرائل کے بارے میں ان کے وکیل اور نہ ہی ان کے اہل خانہ کو آگاہ کیا گیا تھا۔

صحافی ادریس خٹک اور ریٹائرڈ ٹو اسٹار جنرل کے بیٹے حسن عسکری بھی ان مجرمان کی فہرست میں شامل تھے۔

ملک بھر میں عیدالاضحیٰ مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئی

پاکستانی اور بھارتی فنکاروں کے عیدالاضحیٰ پر مداحوں کے نام پیغامات

کینیڈا: حادثے کی شکار ٹائٹن آبدوز کے ملبے سے ممکنہ انسانی باقیات برآمد