پاکستان

چیئرمین پی ٹی آئی کو تنہا کرنے کیلئے حکومتی مؤقف میں سختی، مذاکرات کا دروازہ پھر بھی کھلا

ایک مرتبہ پھر وہ انسانی حقوق کی پامالی کا جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا کر 9 مئی کے واقعات میں اپنے مجرمانہ کردار سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
|

حکومت نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف تمام توپوں کا رخ کرتے ہوئے ان پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بدنام کرنے سے لے کر 9 مئی کے واقعات کے بعد اپنے کارکنوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دینے سمیت ہر قسم کا الزام لگایا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک حکومتی وزیر نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بڑا خطرہ قرار دیا، جب کہ دوسرے نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر وہ واقعی حکومت سے مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو براہ راست وزیر اعظم شہباز شریف سے رجوع کریں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ٹوئٹر پر کہا کہ عمران خان 9 مئی کے المناک واقعات سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران نیازی کی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے بارے میں تضحیک آمیز مہم سے متعلق کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہیے، ایک مرتبہ پھر وہ انسانی حقوق کی پامالی کا جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا کر 9 مئی کے واقعات میں اپنے مجرمانہ کردار سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، مجھے ان کے ہتھکنڈوں پر کوئی حیرانی نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ جو شخص مسلسل ریاستی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرے، لوگوں کو تشدد پر اکسائے، ریاستی علامات اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرے اور شہدا کی یادگاروں کو گرائے، وہ کسی بھی حد تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دریں اثنا وزیر دفاع خواجہ آصف نے عمران خان کو ’اندرونی دشمن‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ بھارتی وزیراعظم سے زیادہ خطرناک ہیں۔

انہوں نے ’جیو نیوز‘ کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کے دوران کہا کہ ’لوگوں نے اب تک اندرونی دشمن (عمران خان) کو نہیں پہچانا جو آپ کے سامنے والے دشمن سے زیادہ خطرناک ہے، لوگ عمران خان کے اصل چہرے سے واقف نہیں ہیں‘۔

9 مئی کو جو کچھ ہوا اسے ’بغاوت‘ قرار دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اندرونی دشمن ملک کے اتحاد اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

اس کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو مشورہ دیا کہ اگر وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو براہ راست وزیر اعظم شہباز شریف سے رابطہ کریں۔

وائس آف امریکا کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس یقین دہانی کو بڑھایا کہ اگر عمران خان نے ایسی کوئی بات کی تو وزیر اعظم مثبت جواب دیں گے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ مذاکرات کے لیے مذاکراتی ٹیم تشکیل دیں گے لیکن وہ خود سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کا یہ وقت درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے شہدا کے خاندانوں کی جانب سے منفی ردعمل سامنے آسکتا ہے، جن کے جذبات 9 مئی کے واقعات سے مجروح ہوئے تھے۔

اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ مذاکرات کی جانب کسی بھی اقدام کا مثبت جواب دیا جائے گا۔

عمران خان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو ہونے والی پُرتشدد کارروائیاں ان کی ہدایات پر ہوئیں۔

وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کے دوران حساس معلومات پر مشتمل لیپ ٹاپ سمیت کچھ آلات یا تو چوری ہوگئے یا انہیں آگ لگا دی گئی جس سے اہم معلومات تباہ ہو گئیں، یہ سامان پاک فوج ہی برآمد کرے گی۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ چوری میں ملوث پائے جانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے تو عمران خان کے خلاف اسی قانون کے تحت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی ’کنگ پارٹی‘ الیکشن لڑنے کے لیے آزاد ہے، کیونکہ وہ اپنے ووٹ خود حاصل کرے گی اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو خراب نہیں کرے گی۔

وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بھی عممران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’بی بی سی‘ کا انٹرویو ’ایک دوغلے اور جھوٹے کردار کی سچی عکاسی ہے۔‘

انٹرویو میں عمران خان کے متضاد دعووں پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’ایک جملے میں انہوں نے کہا کہ اگر انہیں جیل بھیج دیا گیا تو ردعمل ہوگا، پھر اگلے ہی سانس میں انہوں نے 9 مئی کے واقعات کا ذمہ دار پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو ٹھہرادیا‘۔

پاکستان کا بی جے پی کے ’اکھنڈ بھارت‘ نظریے پر اظہار تشویش

پاکستانی فلم ’جوائے لینڈ‘ کی اداکارہ علینہ خان نے ’مِس ٹرانس پاکستان 2023‘ کا اعزاز اپنے نام کرلیا

تعطل کے شکار جائزوں کے بعد حکومت کی نظریں آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام پر