نقطہ نظر

شاہراہ دستور پر احتجاج: پرانے کرداروں پر مشتمل نئی کہانی

یہ وہی شاہراہ ہے جس پر 2007ء میں یہی جماعتیں ایک غیر فعال چیف جسٹس کو بحال کرنےکے لیے احتجاج کرتی تھیں۔

یہ شاہراہ دستور ہے، آمرانہ دور میں خصوصی طور پر اس شاہراہ کو کئی احتجاجی مظاہروں کا پسینہ اور لہو مل چکا ہے۔ ہر قسم کے احتجاج اور جلسے کے لیے اسی شاہراہ کو استعمال کیا گیا ہے، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے کئی واقعات کی یہ شاہراہ گواہ ہے۔

فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک کا آغاز اسی شاہراہ سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کی بنائی گئی پارٹی مسلم لیگ قائداعظم کے جلسے بھی اسی شاہراہ پر ہوتے رہے، 12 مئی 2007ء کو جنرل مشرف نے مکے لہرا کر کراچی کو خون میں ڈوبتا دیکھ کر خوشی کا اظہار بھی اسی شاہراہ پر کیا تھا اور اس وقت کا ایک جملہ آج بھی یاد ہے کہ آپ جب کسی کی گھر میں گھس جاؤ گے تو یہ ردعمل ہوگا۔ یہ تبصرا بالکل عمران خان کے دو دن پہلے ادا کیے گئے جملے جیسا تھا کہ اگر مجھے اس انداز میں گرفتار کریں گے تو ردعمل بھی ایسا ہی آئے گا۔

وقت بدلا تو یہ شاہراہ دستور اور اب شاہراہ جمہوریت مشرف سرکار کے خلاف احتجاج کا مرکز بن گئی۔ 2007ء کے بعد 7 برسوں تک اس پر کوئی بڑے اجتماعات نہیں ہوئے لیکن 2014ء میں عمران خان اور ان کے سیاسی کزن طاہر القادری لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسی شاہراہ کے ڈی چوک پر دھرنہ دے کر بیٹھے۔ اسی دھرنے کے دوران پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ ہوا اور سپریم کورٹ پر گندے کپڑے لٹکائے گئے۔

گندے کپڑے سب کو یاد ہیں لیکن دھرنے کے دوران اس وقت کے سپریم کورٹ کے جج خود کو کتنا غیر محفوظ اور یرغمال محسوس کیا کرتے تھے وہ کس راستے سے سپریم کورٹ آتے اور کس راستے سے واپس جاتے تھے یہ معلوم نہیں لیکن اس حوالے سےکبھی شکایت نہیں ہوئی۔

یہ وہی شاہراہ دستور اور اس سے جڑی شاہراہ جمہوریت ہے جس پر آج بھی کنٹینر سجے ہیں، بڑے بڑے اسپیکرز سے گانوں، نغموں کی دھنیں اور نعروں کی گونج سنائی دی رہی تھی اور وہ آوازیں سپریم کورٹ کے ان ججوں کے کانوں کو بھی سنائی دے رہی تھیں جن کے خلاف یہ میلہ لگایا گیا تھا۔

اختیارات کی جنگ پاکستان کے لیے نئی بالکل نہیں یہ سالوں پر محیط جنگ ہے جس میں اب تک ایک ادارے نےتمام اداروں کے اختیارات کو چھین کر خود کو مالک بنایا ہوا تھا اب شاید اس ادارے کی تقسیم کے تاثر کی وجہ سے دوسرے ادارے نےتمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کا سوچ لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے اس احتجاج کا نشانہ وہ چیف جسٹس تھے جن پر جانبدار ہونے کا الزام حکومت ہی نہیں پارلیمنٹ بھی لگا رہی ہے۔ اب پارلیمنٹ اپنے اختیارات پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور سپریم کورٹ اپنے اختیارات اپنی منشا کے تحت استعمال کرنے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

15 مئی کی تاریخ اہم کیوں تھی؟

ویسے تو 15 مئی وہ تاریخ ہونی چاہیے تھی جس دن پنجاب میں عدالتی فیصلے کے مطابق انتخاب ہوجانے تھے اور اس دن پارٹی پوزیشن واضح ہونی تھی لیکن 4 اپریل کے اس عدالتی فیصلے پر کوئی عمل نہیں ہوا اور سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی اس نظرثانی درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں اور کئی باتوں کے ساتھ یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا یا شیڈول طے کرنا سپریم کورٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔

پہلے ہی اختیارات کی تقسیم پر اداروں کی لڑائی اوپر سے الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے اختیارات کو چھیڑ کر بقول چیف جسٹس ایک نیا پنڈورا باکس کھول کر رکھ دیا ہے۔ بظاہر تو یہ لگ رہا تھا کہ عدالت ایسی کسی درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کردے گی کہ ہم اپنا فیصلہ دے چکے اب کوئی نظرثانی نہیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور چیف جسٹس کو یہ کہتے سنا گیا کہ انتخابات وقت پر ہونے کی بات تب کریں جب کوئی نتائج قبول کرے۔

ایک طرف سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت کی تیاری ہو رہی تھی تو دوسری طرف پی ڈی ایم کارکنان ریڈ زون میں داخلے کے لیے دروازے پھلانگ رہے تھے۔ شاید چیف جسٹس کو ایسے مناظر کھٹکے بھی اس لیے انہوں نے سماعت کے دوران اس کا اظہار بھی کیا۔ یہ چیف جسٹس اور ان کے دو ساتھی ججوں پر مشتمل بینچ تھا جن کے ہاتھ میں تمام تر سیاسی مقدمات آتے ہیں اور ان پر وہ فیصلے آتے ہیں جن سے حکومت اور ان کے اتحادی نالاں ہوکر عدالت اور ان تین ججوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

پہلے آج کی سماعت کا مختصر احوال بیان کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ باہر ہونے والے واقعات اور پارلیمنٹ میں ہونے والی کارروائی اور قرادادوں کا ذکر بھی ضروری ہے کیوں کہ سب کے سب واقعات، سماعت، سیاسی احتجاج اور بحث مباحثہ ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت

ابھی سپریم کورٹ میں سماعت شروع نہیں ہوئی تھی کہ اس سے پہلے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل وزیراعظم صاحب کو اس بات پر بریفنگ دے رہے تھے کہ الیکشن کمیشن کی اس نظرثانی درخواست پر کیا ممکنہ فیصلہ ہوسکتا ہے اور اگر حکومت کو کوئی توہینِ عدالت کا نوٹس آتا ہے تو اس کا جواب کیسے دیا جائے؟ عین اسی وقت پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اس بات پر منانے کی کوششیں جاری تھیں کہ وہ اپنا احتجاج سپریم کورٹ کے سامنے کرنے کے بجائے ڈی چوک پر منتقل کردیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن اس پر راضی نہ ہوئے۔ ابھی یہ کوششیں جاری تھیں کی سیکڑوں کارکنان ریڈ زون میں داخل ہو چکے تھے۔

سپریم کورٹ میں اس وقت ابھی کچھ خاص کام نہیں ہو رہا تھا جج صاحبان صبح جلدی میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ چکے تھے۔سپریم کورٹ کی حفاظت کے لیے درجنوں پولیس اور ایف سے اہلکار مقرر کیے گیے تھے لیکن سوا 12 بجے ریڈ زون پہنچنے والے سیکڑوں سیاسی کارکنان نے سپریم کورٹ کی سیکیورٹی کے لیے تمام رکاوٹیں اور حصار توڑ دیے اور ججز گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج ریکارڈ کروانا شروع کردیا۔

جہاں سپریم کورٹ کے باہر ماحول بہت گرم تھا وہاں سپریم کورٹ کے ساتھ والی عمارت یعنی پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی عدالتی فیصلوں، خصوصی طور پر عمران خان کو رلیف دینے اور دلانے کے حوالے سے فیصلوں پر زوروں کی بحث جاری تھی۔ پارلیمنٹ میں کیا کچھ ہوا وہ آخر میں بیان کریں گے۔

چیف جسٹس صاحب اپنے ساتھی ججز کےساتھ جیسے عدالتی کمرے میں داخل ہوئے تو الیکشن کمیشن جو کہ درخواست گزار ہے انہوں نے اپنی بات شروع ہی کی تو سپریم کورٹ بار کے سیکریٹری نے چیف جسٹس کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا پھر الیکشن کمیشن کے وکیل نے چند گزارشات پیش کیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تو پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔

چیف جسٹس نے فرمایا کہ یہ نظرثانی درخواست وفاق کو دائر کرنی چاہیے تھی لیکن ان کی طرف سے ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل نے مرکزی مقدمے کی سماعت کے دوران 4 مرتبہ فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی، وفاق کو یہ ہی شکایت ہے کہ ہمیں فل کورٹ ہی نہ مل سکا انصاف کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔

4 اپریل کے فیصلے میں سخت قسم کے ریمارکس دینے والے دونوں معزز ججز اس بار بالکل خاموش تھے، چیف جسٹس ساری صورتحال سے خاصے واقف تھے اس لیے تحمل اور صبر سے اپنی آبزرویشن دے رہے تھے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی لیکن وہ استدعا ہی مسترد ہوگئی اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور وفاق کو نوٹس دے کر جواب طلب کرلیا گیا۔

باہر کی صورتحال کو سپریم کورٹ اس بار باریک بینی سے دیکھ رہی تھی اس لیے تحریک انصاف کے وکیل جب یہ استدعا کر رہے تھے کہ عدالت کا فیصلہ آچکا ہے اب عدالت نے فیصلے پر عمل کروانا ہے تو اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آئین پر عملدرآمد کروانا میرا فرض ہے لیکن باہر جاکر دیکھیں کہ کیا ماحول بنا ہوا ہے، آئین پر عمل تب جلدی کرواتے جب سمجھتے کہ انتخابات کا وقت آگیا ہے، معاشرہ اتنا تقسیم ہے کہ انتخابات ہو بھی گئے تو انتخابات کے نتائج کون تسلیم کرے گا۔

یہ چیف جسٹس کا بڑا جملہ تھا اور اس کی ضرورت تو شاید 4 اپریل کے فیصلے کے وقت تھی۔ سیاسی صورتحال اس وقت بھی یہ ہی تھی بس پھر اضافہ یہ ہوا کہ جی ایچ کیو کے دروازے اور جناح ہاؤس پر حملے اور پرتشدد واقعات ہوئے۔

لیکن تحریک انصاف کے وکیل 9 مئی کے واقعات پر کم اور عمران خان کی گرفتاری پر زیادہ بات کرتے رہے۔ اس پر اٹارنی جنرل اور بیریسٹر علی ظفر کا ایک دوسرے سے مکالمہ بھی ہوا۔ اٹارنی جنرل اور تحریک انصاف کے وکیل روسٹرم پر اس طرح آمنے سامنے ہوئے کہ ایک موقعے پر اٹارنی جنرل نے بیریسٹر علی ظفر کو کہا کہ آپ ایسا نہ کریں چیف جسٹس نے آپ سے پوچھا ہے کہ گزشتہ کچھ دنوں میں کیا کچھ ہوا ہے۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل کو عمران خان کی گرفتاری تو یاد تھی لیکن وہ پرتشدد واقعات کو بھول کر کہنے لگے کہ پچھلے دنوں میں یہ ہوا کہ عمران خان کو غیر قانونی انداز میں گرفتار کیا گیا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس گرفتاری کے بعد کیا ہوا؟ اس کے جواب میں خاموشی تھی۔

چیف جسٹس، اٹارنی جنرل اور تحریک انصاف کے وکیل کو بار بار مذاکرات کی ہدایات دے کر یہ بھی آبزرویشن دے رہے تھے کہ ہمیں سیاسی معاملات میں نہ جانا ہے نہ کچھ سننا چاہتے ہیں لیکن دوسرے لمحے انہوں نے تحریک انصاف کے گرفتار رہنماؤں یعنی مذاکرتی ٹیم کی رہائی کی بات کی اور اٹارنی جنرل کو کہا کہ گرفتار رہنماؤں کی رہائی کی کوشش کریں اور پھر سماعت نوٹس کے ساتھ 23 مئی تک ملتوی ہوئی۔

قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟

سپریم کورٹ کے ساتھ والی عمارت یعنی پارلیمنٹ ہاؤس میں بڑی شدید تقاریر ہوئیں۔ فقط تقاریر ہی نہیں بلکہ 3 مختلف قراردادیں منظور ہوئیں جن میں ایک قراداد تاریخی اعتبار سے انتہائی منفرد ہے، وہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بنانے کے لیے کمیٹی قائم کرنے کے حوالے سے تھی جس کی تجویز وزیر دفاع خواجہ آصف نے دی اور اس کی تائید تمام جماعتوں نے کی۔

خواجہ آصف کی تقریر دھواں دار تھی۔ انہوں نے عمران خان اور ان کے تمام سہولت کاروں پر بات کی لیکن چیف جسٹس اور ان کے ہم خیال ساتھیوں اور ان کے تمام فیصلوں کو بھی گنواکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح عدالت ایک سیاسی جماعت کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔ وزیر دفاع فرما رہے تھے کہ ’ہم 3 نہیں 4 ججوں کے فیصلے کو مانتے ہیں لیکن فردِ واحد تمام فیصلے ہم پر مسلط کر رہا ہے۔ ہم آئین کے ماننے والے ہیں اور آئین نے پارلیمنٹ کو بہت سے اختیارات دیے ہوئے ہیں، اگر پارلیمنٹ اپنے اختیارات آج استعمال نہیں کرے گی تو کبھی نہیں کرسکتی‘۔

خواجہ آصف نے تجویز دی کی پارلیمنٹ کی کمیٹی چیف جسٹس کے کنڈکٹ کا جائزہ لے، عدالت کی گرتی ساکھ اور عالمی انصاف کے انڈکس میں 11 پوائنٹس نیچے آنے کے ساتھ چار لاکھ کے قریب التوا میں پڑے مقدمات کے اسباب جاننے کا جائزہ لے۔ پارلیمنٹ میں یہ تجویز بھی آئی کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے استحقاق چیف جسٹس کو بلائے۔

آخر میں پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ ثوبیہ سومرو نے 5 ایم این ایز پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی قراداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کی روشنی میں یہ کمیٹی سپریم کورٹ کے جج یا ججز کے خلاف الزامات کا جائزہ لے کر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

پارلیمنٹ میں قرارداد منظور ہوئی، سپریم کورٹ کی سماعت مکمل ہوئی تب تک شاہراہ دستور پر ہزاروں سیاسی کارکن جمع ہوچکے تھے اور اپنی اپنی جماعتوں کے قائدین کا خطاب سن رہے تھے، یہ وہی شاہراہ ہے جس پر 2007ء میں یہی جماعتیں ایک غیر فعال چیف جسٹس کو بحال کرنےکے لیے روزانہ احتجاج کر رہی تھیں۔ آج 2023ء میں وہ تمام جماعتیں ایک چیف جسٹس کے استعفے کا مطالبہ لے کر ایک کنٹینر پر ساتھ ہیں۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔