عمران خان کی گرفتاری: ’موجودہ صورتحال میں حکومت غیرمتعلق ہے‘
گزشتہ روز سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا اور القادر ٹرسٹ ریفرنس میں نیب کے حوالے کردیا گیا۔ اس سے قبل بھی لاہور میں زمان پارک سے انہیں گرفتار کرنے کی ایک سے زائد کوششیں کی گئی تھیں۔ اس دوران شدید ہنگامہ آرائی تو دیکھنے میں آئی لیکن عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
گزشتہ روز جب عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ جانے کے لیے لاہور سے روانے ہوئے تو انہوں نے روانگی سے قبل ایک ویڈیو پیغام دیا۔ اس پیغام اور گزشتہ روز کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ یہ گمان کرچکے تھے کہ شاید عمران خان کی گرفتاری اب ہونے کو ہے۔ غالباً خود عمران خان کو بھی اس کا یقین ہوچکا تھا، اور اس بات کا اندازہ گرفتاری کے وقت ریکارڈ ہونے والی ایک ویڈیو سے بھی ہوتا ہے جس میں ایک جانب رینجرز اہلکار کمرے کی کھڑکی توڑ کر اندر داخل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان بغیر کوئی تاثر دیے اپنی نشست پر بیٹھے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں عوامی ردعمل سامنے آیا۔ جہاں لوگوں نے روایتی انداز میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا وہیں احتجاج کے کچھ مناظر ایسے تھے جنہیں دیکھ کر شاید کسی کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ عمران خان صاحب جن اداروں کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بناتے تھے کل وہی ادارے عوام کے غم و غصے کا نشانہ بن رہے تھے۔
سوشل میڈیا پر ان مظاہروں کی ویڈوز اور تصاویر جنگل کی آگ کی طرح پھیلیں جس کے بعد حکومت نے ملک کے بڑے شہروں میں انٹرنیٹ سروس اور سوشل میڈیا ویب سائٹس بند کردیں۔ تاہم جو کچھ ہونا تھا وہ اس وقت تک ہوچکا تھا۔
عمران خان صاحب کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے ہم نے سینیئر صحافیوں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا اس گرفتاری کے بعد ہم یہ کہے سکتے ہیں کہ ریاست اب معاملات کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی؟ ہم نے ان سے یہ بھی معلوم کیا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت کی گرفتاری کی صورت میں جماعت کا مستقبل کیا ہوگا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مظاہرین کے جو جتھے سڑکوں پر موجود ہیں ان کی قیادت کون کرے گا اور یہ کہ بغیر کسی قیادت کے یہ جتھے کس قدر نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہم نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی یہ گرفتاری عمران خان صاحب کی مقبولیت پر کس طرح اثر انداز ہوگی اور یہ کہ اس پوری صورتحال کے بعد ملک میں انتخابات کے حوالے سے کیا کہا جاسکتا ہے اور کیا ملک میں ایمرجنسی لگنے کا بھی کوئی امکان ہے؟
مجاہد بریلوی
اگر ریاست کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو یہ ریاستی اداروں کے لیے زیادہ خطرناک ہوتا ہے خاص طور پر جب ریاست کے ساتھ ایک ایسی حکومت کھڑی ہو جو عمران خان سے روایتی طور پر دشمنی اور انتقام کی حد تک آگے بڑھ چکی ہو۔ اگر فوج کو صرف عمران خان کے بیانات سے نقصان پہنچ رہا ہو تو اس حد تک معاملہ ٹھیک ہے لیکن اس حوالے سے سب سے آگے بڑھ کر بولنے والی نواز اور زرداری حکومتوں کا اپنا ریکارڈ کیا ہے؟ کیا انہوں نے فوج، عدلیہ کو نشانہ نہیں بنایا؟ کیا انہوں نے سپریم کورٹ پر حملے نہیں کیے؟ کیا پیپلز پارٹی نے املاک کو نقصان نہیں پہنچایا؟ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر آدھا شہر جلا دیا گیا تھا۔ ایسے میں ریاستی اداروں کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ وہ ایک طرف نہ ہوں۔
پہلے کبھی فوج پر جانب داری کا الزام اتنا کھل کر نہیں لگتا تھا۔ اسی طرح کل جو ملک میں واقعات ہوئے ایسا آج تک پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ حساس اداروں پر حملے ہوں۔ یہ محض کورکمانڈر ہاؤس پر نہیں بلکہ اس ادارے پر حملہ تھا۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کا 3 دہائیوں سے جمہوریت، عدلیہ اور فوج کے لیے کردار سب کے سامنے ہے وہ ان کی ترجمان بن کر سامنے آرہی ہیں۔
سیاسی صورت حال میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جب پھانسی ہوئی تو لاڑکانہ میں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی تھی، کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ 1986ء میں جب بے نظیر پاکستان واپس آئیں تب اگر جنرل ضیاالحق کے جہاز کا حادثہ نہیں ہوتا تو وہ اقتدار میں مزید رہتے۔ وہ تو ان کے جانے کے سبب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور بے نظیر سامنے آئیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت جیل میں چلی جائے یا منظرِعام سے غائب بھی ہوجائیں لیکن اگر انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے تو اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اور زیادہ اشتعال اور غم و غصے کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
اسد عمر نے آج ذمہ دارانہ بیان دیا کہ ہمارا املاک کو جلانے والوں سے کوئی تعلق نہیں مگر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پھر ماضی میں ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی مذاکرات کی میز سجتی فوراً ہی ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی جس سے مزاکرات متاثر ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقتدر اداروں میں ایسا طبقہ موجود ہے جو نہیں چاہتا کہ سیاسی قوتوں میں مذاکرات اور مفاہمت ہو۔ یہ کیا بات ہوئی کہ عمران خان نے جیسے ہی مذاکرات کی توثیق کی تو اچانک ہی ملک میں یہ سب کچھ شروع ہوگیا۔
مقتدر حلقوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف مقامی میڈیا کور نہیں کررہا بلکہ پوری دنیا میں اس کی مذمت ہورہی ہے اور بیانات جاری ہورہے ہیں۔ مالی صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے آپ کو ایجنڈے تک میں شامل نہیں کیا۔ سب کو علم ہے کہ مغربی ممالک ان چیزوں کو بہت غور سے دیکھتے ہیں۔ عمران خان اگر سیاست میں نہیں بھی ہوتے تو وہ ایک مقبول آدمی ہیں بین الاقوامی میڈیا دیکھے گا کہ انہیں گھسیٹا جارہا ہے۔ وہ دیکھیں گے رینجرز ہائی کورٹ میں موجود تھی، عمران خان بھاگ نہیں رہے تھے بلکہ وہ مقدمات میں ضمانت لینے آئے تھے۔
ماضی میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) کہتے تھے کہ نیب جیسے غیرمنصفانہ ادارے کو ہم ختم کریں گے اور اب آپ اسی نیب کے مقدمے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان چور ہے۔
لگتا ہے کہ حکومت اور مقتدر ادارے الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔ اب دیکھیے کہ میاں شہباز شریف بھی اسی وقت لندن چلے گئے اور اپنے دورے میں توسیع کردی جب یہاں یہ سب کچھ ہورہا تھا، ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور وزیر اعظم ملک سے باہر ہیں۔ یہ فضا بنائی جارہی ہے کہ ملک میں ایمرجنسی لگ جائے اور ایمرجنسی کا مطلب یہ ہے کہ پھر میڈیا اور دیگر کو بھی پابند کیا جائے۔ اس کے جو بھی نتائج نکلیں گے وہ مثبت نہیں ہوں گے اور منفی ردِعمل سامنے آئے گا۔
نادیہ مرزا
دیکھیے جہاں تک ریاست کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہونے کی بات ہے تو کون سی ریاست کون سا پیمانہ؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاملے کی جڑ تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں۔ میرے لیے یہ بات انتہائی خوش آئند تھی جب چیف آف آرمی اسٹاف نے ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار یہ کہا کہ طاقت کا مرکز عوام کے پاس ہے۔ کہنے اور سننے کی حد تک تو یہ اچھا لگتا ہے لیکن اگر ہم عملی طور پر دیکھیں تو آپ کے اندر یہ احساس ہی پیدا نہیں ہورہا کہ عوام آپ سے آخر کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر آپ کو عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا۔
عوام بلاوجہ مشتعل نہیں ہوتے۔ میں ہرگز ملک میں جاری اشتعال انگیزی کا دفاع نہیں کررہی اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہوں لیکن اگر کہیں کوئی چیز غلط ہورہی ہے تو ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ ہم یہ جانے بغیر کہہ دیں کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے اور ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو یہ صبر کا پیمانہ ہی غلط ہے۔
جہاں تک بغیر قیادت کے تحریک کا تعلق کا ہے تو پی ٹی آئی نے یقیناً کوئی پلان اے یا بی بنایا ہوگا۔ لوگوں میں جوش اور جذبات ہوتے ہیں۔ یہ جذباتیت ایک دو دن چلے گی لیکن اگر قیادت نہیں ہوگی تو میرے خیال سے یہ زیادہ عرصے نہیں چل پائے گی۔ تو اس کے لیے اگر پی ٹی آئی نے کوئی حکمتِ عملی تیار کی ہے کہ ان کی دوسری اور تیسری سطح کی لیڈر شپ معاملات کو کیسے سنبھالیں گے اور اگر وہ سوشل میڈیا کو متاثر کُن انداز میں فعال رکھ سکے تو پھر یہ تحریک چل سکتی ہے۔
اگر پی ٹی آئی کی قیادت لمبے عرصے کے لیے جیل جائے گی تو پی ٹی آئی کا وہی حال ہوگا جو ایم کیو ایم کا ہوا۔ سیاسی جماعت پر اچھا برا وقت آتا ہے لیکن آپ انہیں ختم نہیں کرسکتے۔ آپ ان کو کچھ عرصے کے لیے دبا سکتے ہیں لیکن بلآخر بقول زرداری صاحب کے، آپ کو جانا ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کو رہنا ہوتا ہے۔
موجودہ صورت حال میں حکومت غیرمتعلق ہے۔ جتنے بھی لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں ان کے نعرے، چاہے وہ غلط تھے یا نہیں اور غم و غصہ فوج کے خلاف تھا۔ عمران خان نے ہر دفعہ ’ڈرٹی ہیری‘ کا ذکر کیا اور کھل کر اس شخصیت کا نام بھی لیا۔ چنانچہ اگر تحریک چلے گی تو فوج کے خلاف چلے گی کیونکہ حکومت اس وقت بالکل غیر متعلق ہے۔ حکومت چاہے جتنا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کرے، یہ کریڈٹ ان کو ملنے والا نہیں ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہےکہ عمران خان کی گرفتاری سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ جب بھی پی ٹی آئی کی عوامی حمایت کمزور پڑ رہی ہوتی ہے، تو ایسے موقع پیدا کردیے جاتے ہیں جس سے ان کے تھکے ہارے ووٹر دوبارہ چارج ہوجاتے ہیں۔ تو میں نہیں جانتی کہ آخر ان کو ایسے مشورے کون دیتا ہے۔ اب اس وقت ان کے اندر نئی روح پھونک دی گئی ہے تو اگلے 2 سے 3 ماہ یعنیٰ الیکشن تک یہ ماحول جاری رہے گا۔ یوں ماضی میں ان کی مقبولیت کم ہورہی تھی آپ نے بڑھا دی پھر کم ہورہی تھی آپ نے پھر بڑھا دی تو مجھے نہیں پتا کہ یہ کام کون کرتا ہے اور یہ پی ٹی آئی کے حق میں ہے یا نہیں۔
جہاں تک ملک میں ایمرجنسی کا تعلق ہے تو یہ انتہائی سنجیدہ سوال ہے۔ کل جو چیز مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے لیے تشویش ناک تھی وہ یہ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مشتعل عوام کو روک نہیں رہے تھے۔ اسی طرح جب عوام کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں داخل ہوئے تو کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ شاید فوج کی اس حوالے سے یہ حکمتِ عملی ہوسکتی ہے کہ عوام کا غصہ جب مکمل طور پر نکل جائے گا تو وہ مطمئن ہوجائیں گے۔ دوسری حکمتِ عملی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کو بےنقاب کیا جائے پھر ان کی اشتعال انگیزی کو جواز بنا کر اور تشدد پسند جماعت قرار دے کر اسے کالعدم قرار دے دیا جائے۔ تیسری حکمتِ عملی ایمرجنسی کے خطرے سے متعلق بھی ہوسکتی ہے۔ میں مارشل لا کو خطرہ نہیں سمجھتی کیونکہ اس کی ضرروت نہیں ہے۔ بغیر مارشل لا کے اگر آپ کے تمام اہداف باآسانی حاصل ہورہے ہوں تو فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
شاہ زیب جیلانی
دیکھیے بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ اب واقعی ریاست کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران عمران خان صاحب نے مسلسل عسکری قیادت کو نشانہ بنایا ہے اور ان کی تنقید صرف سیاسی نہیں بلکہ ذاتی نوعیت کی بھی تھی۔ انہیں کافی سمجھانے کی بھی کوشش کی جاتی رہی کہ آپ ایک لائن سے آگے نہ جائیں، لیکن وہ باز نہ آئے۔ ہم نے گزشتہ ہفتے کے دوران پھر دیکھا کہ انہوں نے عسکری حکام کا نام لیا اور ان اپنے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام لگایا۔ اس پر آئی ایس پی آر کا ردعمل آیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ اگلے ہی روز ان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔
پھر آپ دیکھیے کہ خود عمران خان اور ان کی جماعت کے دیگر لوگوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں سے نکلیں اور یہ کہ اب ایکشن کا وقت ہے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ جوڈیشل کمپلیکس اور زمان پارک میں بھی اس حوالے سے ناخوش گوار واقعات پیش آئے۔ ایسا ہی کچھ ہم نے کل بھی دیکھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ حکومت نے جوابی کارروائی شروع کردی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کو ہنگامہ آرائی کرتے اور حساس مقامات میں داخل ہوتے اور توڑ پھوڑ کرتے دیکھا ان کے حوالے سے پی ٹی آئی ذمہ داری لے گی یا ان سے لاتعلقی کا اظہار کرے گی؟
اگر تو پارٹی ان کی ذمہ داری لیتی ہے تو پھر پارٹی قیادت کے خلاف ہونے والی قانونی کارروائی بالکل جائز ہوگی لیکن اگر یہ سے ان لاتعلقی اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہوگا یہ افراد استعمال ہوگئے اور یہ ایک ایسے لیڈر کی آواز پر باہر نکلے جو اب ان کو اپنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے لیے ایک مشکل صورتحال ہے۔
اب ہماری ریاست نے بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس حد تک جلاؤ گھیراؤ کو برداشت کریں گے۔ بدقسمتی سے ہماری ریاست کا ریکارڈ یہ ہے کہ ہم خود ہی انتہا پسند گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے فعال کرتے ہیں۔ تو اب ریاست نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس صورتحال میں لوگوں کو اپنی بھڑاس نکالنے دے گی یا پھر سختی کرے گی۔ اگر سختی کی جائے گی تو کس حد تک اور اگر اس میں جانی نقصان ہوتا ہے تو ڈر ہے کہ معاملات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اس وقت ایسی محتاط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس سے جانی اور مالی نقصان بھی نہ ہو اور صورت حال بھی قابو میں آجائے۔ اور اگر آپ نے آگے بڑھنا ہے اور انتخابات کی جانب جانا ہے تو اس کے لیے یہ بہت اہم چیز ہے۔
ابصا کومل
یہ کہا جاسکتا ہے کہ ریاست کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ لیکن جس طریقے سے یہ گرفتاری ہوئی اس کے حوالے سے بہت سارے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ بہت آسان ہوتا ہے کہ ہمیں یہ تاثر مل رہا ہو کہ اصل معاملہ مختلف تھا اور گرفتاری کسی اور معاملے کے تحت ہوئی ہے اور یہ آسان رہتا ہے کہ سیاستدان اور سابق وزرائے اعظم کی گرفتاری کے سلسلے میں ایسے معاملات ہوں۔ یہ پاکستان میں پہلے کئی بار دیکھا جاچکا ہے اور کل ہم نے ایک بار پھر وہی دیکھا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ان کی گرفتاری القادر ٹرسٹ ریفرنس کے تحت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے کے جرم میں ہوئی ہے۔
عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد عوام میں مقبولیت حاصل کررہے تھے، اور یہ کافی غیرمتوقع تھا جس طرح سے انہوں نے تمام معاملات کو اپنے حق میں ایک بیانیے کی صورت میں کامیابی سے استعمال کیا۔ میرے خیال سے اس دوران عمران خان صاحب کچھ غلط کارڈ کھیل گئے۔ اسے غیرذمہ داری کہہ سکتے ہیں کہ وہ بات کرتے ہوئے ایک حساس ادارے کے حاضر سروس افسر کے خلاف الزامات لگا رہے تھے اس حوالے پارٹی میں اندرونی طور پر بھی کافی پریشانی پائی جاتی تھی جس کا اندازہ اب ہمیں خان صاحب کی گرفتاری کے بعد ان کے رہنماؤں کے بیانات سے ہورہا ہے۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ گرفتاری کوئی نئی بات نہیں ہے ہم نے یہ مناظر نواز شریف کی گرفتاری پر بھی دیکھے تھے۔ کارکنوں کا کچھ اسی طرح کا ردِعمل تھا لیکن قوانین ایسے تھے کہ اس وقت انہیں ٹی وی پر دکھایا نہیں گیا تھا۔ عمران خان کی گرفتاری اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرنے والے سیاستدان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن عمران خان کا مزید آگ بھڑکانے کا جو کردار تھا اس پر اگر نظرثانی ہوتی تو شاید ہم یہ دن نہ دیکھتے۔
راولپنڈی میں ہونے والا واقعہ ہم نے پہلی بار دیکھا اس سے قبل یہ منظر دہشت گردوں کے حملے کے دوران دیکھا گیا تھا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات سے کارکنوں میں اشتعال کم نہیں ہورہا۔ جماعت کی جانب سے ایسی کوئی واضح کوشش نہیں کی گئی کہ ان تنصیبات پر جاکر احتجاج نہ کیا جائے، تاکہ عالمی سطح پر اور بالخصوص بھارت میں جو شہ سرخیاں چل رہی ہیں وہ نہ چلتیں۔
دوسری طرف یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حملوں کو روکا بھی نہیں گیا ہے۔ تو کیا یہ طے کیا گیا ہے پی ٹی آئی کے خلاف جو سیاسی مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گرد جماعت ہے اور عمران خان اپنے کارکنوں کو بھڑکاتے ہیں کہ ان کے بغیر ریاست کا تصور نہیں ہے، اسے ثابت کیا جائے؟ بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ انہیں موقع دیا گیا کہ وہ اشتعال پھیلائیں جسے بعد میں استعمال کیا جاسکے۔ ایسی صورت حال کو قابو میں کیا جاسکتا تھا لیکن یقیناً اس معاملے کو ابھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کن لوگوں نے کارکنوں کو بھڑکایا کہ وہ ایسی تنصیبات پر حملہ کریں۔
قیادت کے بغیر احتجاج واقعی کافی خطرناک ہیں۔ اگر ریاست کے خلاف عوامی جذبات کا کچھ اظہار ہم نے دیکھا بھی تو وہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے وقت دیکھا تھا مگر پارٹی قیادت نے اسے فوری طور پر کنٹرول کرلیا تھا لیکن اس معاملے میں عمران خان کی پی ٹی آئی کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان کی پارٹی فردِ واحد کے حکم پر چلتی ہے اور پارٹی کے لیڈران بھی انہیں کی بات پر عمل کرتے ہیں۔ اب عمران خان تو موجود نہیں ہیں لیکن ان کی اعلیٰ قیادت جیسے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر صاحب جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرکے صورت حال کو قابو میں کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
چونکہ اب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں فوج کو طلب کرلیا گیا ہے تو میرے خیال میں یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوگی کہ کس طرح معاملات کو پرامن رکھا جائے۔ لیکن یہ بڑی بدقسمتی ہوگی کہ پی ٹی آئی کے عام سپورٹر جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، ان کا فوج سے آمنا سامنا ہوگا۔ یہ انتہائی حساس صورتحال ہوگی کہ قیادت کے بغیر جب عوامی احتجاج ہوگا تو کس طرح معاملات کو سنبھالا جائے گا کہ حالات بےقابو نہ ہوں۔
پی ٹی آئی عمران خان کی گرد گھومتی ہے۔ ان کی شخصیت، انداز کی وجہ سے پی ٹی آئی کا سپورٹر ان کی حمایت کرتا ہے۔ میرے خیال سے یہ وقت انتہائی اہم وقت شروع ہوچکا ہے، ان کی اہم قیادت جیل سے باہر بھی ہو تب بھی ان کی بات پر کارکنوں کو عمل کروانا انتہائی مشکل ہوگا۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئی نہ کوئی ایسے لوگ تھے جن کو ذمہ دار تصور کیا جاتا تھا اور ان کی بات پر کارکنان لبیک کہتے تھے۔
عمران خان صاحب حکومت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے بلکہ کارکنان کے سامنے وہ اپنا مقابل اسٹبلشمنٹ کو ٹھہراتے تھے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے پاس وزارتِ داخلہ ہے ان کا وزیراعظم ہے، عمران خان کے دور میں ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں ہیں لیکن جب آپ حکومت میں ہوتے ہیں تو آپ کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ باشعور افراد ان سے امید کرتے ہیں کہ وہ ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اس قسم کی صورتحال جہاں ایک سیاستدان اور سابق وزیرِاعظم کو گرفتار کیا جارہا ہو اگر وہ اپنے سیاسی اختلافات کو ایک جانب کرکے صرف قانونی نقطے پر بات کرتے تو بہتر ہوتا۔
کل جو رانا ثنااللہ صاحب نے پریس کانفرنس کی اس میں اگر وہ ری ہیب اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذکر نہ کرتے اور اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں سے اس کا موازنہ نہیں کرتے تو زیادہ بڑے پن کا مظاہرہ ہوتا۔ مجھے لگتا ہے پوری پی ڈی ایم کے پاس عمران خان کا مقابلہ کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔
دوسری جانب آپ دیکھیے کہ وزیر اعظم ملک میں موجود نہیں ہیں۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جان بوجھ کر خود کو اس تمام کارروائی سے دور رکھا گیا۔ ویسے بھی عمران خان صاحب کا نشانہ ایک فوجی افسر تھے اس وجہ سے بھی لگتا ہے کہ یہ جو ردعمل آیا ہے وہ حکومت کی طرف سے نہیں آیا۔
اگر انتخابات کی بات کی جائے تو میرے خیال میں انتخابات کا وقت شاید کچھ آگے بڑھ جائے۔ یہ معاملہ اب پس منظر میں چلاجائے گا اور ساری توجہ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن پر رہے گی۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہوگی کہ اب عدالتوں میں عمران خان صاحب کے معاملات کیسے چلیں گے۔
عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔