ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: جہاز کا ایندھن اور زیتون کا تیل
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
بارسلونا جاتی ہوئی پرواز کے دوران ایک ساتھی زیتون کے تیل کے فوائد تواتر سے بتائے جارہا تھا کہ مجھے شک ہونے لگا کہ یہ کوئی ’زیتونی‘ ایجنٹ ہے جو بارسلونا حکومت سے کسی معاہدے کے تحت زیتون کے تیل کی بوتلوں پر کمیشن وصول کرتا ہے۔ بات چاہے کس بھی بارے میں ہورہی ہو وہ بیچ میں تیل گھسیٹ کر لے آتا۔
اس کا بس چلتا تو جہاز کو اڑانے کے لیے بھی زیتون کا تیل ہی تجویز کرتا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ زیتون کے کنوارے تیل (Virgin olive oil) سے ہر کام لیا جاسکتا ہے مگر شکر ہے کہ مٹی کا تیل بازی لے گیا۔ جی ہاں، مٹی کا تیل۔
جہاز میں جو ایندھن استعمال کیا جاتا ہے وہ انتہائی بہتر ین (Refined) مٹی کے تیل کا مرکب ہوتا ہے۔ اس تیل کو جلنے کے لیے 49 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت چاہیے ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ پیٹرول پر مبنی ایندھن کی نسبت اسے بھڑکنے کے لیے کافی زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ حفاظت کے لحاظ سے زیادہ موزوں ہے۔ چنانچہ ثابت یہ ہوا کہ زبان سے لگائی گئی آگ بھڑکنے میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے۔
جہاز کا ایندھن اس کے پروں میں ہوتا ہے اور یہ محاورہ جہاز پر پورا اترتا ہے کہ ’وہ اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا‘ کیونکہ پانی کو تو جہاز خاطر میں نہیں لاتا لیکن اگر پروں پر برف جم جائے تو جہاز اڑنے لائق نہیں رہتا بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں بہت سے دفاتر کے ملازمین سارا دن ’برف‘ لگا کر بیٹھے رہتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ انہیں پروں کے اندر جہاز کا ایندھن گردش کررہا ہوتا ہے کیونکہ پروں کے نیچے جہاز کے انجن نصب ہوتے ہیں۔
ایندھن کے ٹینک جہاز کے پروں کے اندر اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ٹیک آف کے دوران، خاص طور پر جب وہ مکمل بھرے ہوئے ہوتے ہیں تو انجن جہاز کو مستحکم رکھتے ہیں تاکہ جہاز کا وزن پرواز کے دوران ہر طرف سے یکساں رہے۔ ایک اور وجہ یہ کہ جہاز کا کیبن یعنی اندرونی حصہ جہاں مسافر بٹھائے جاتے ہیں اس کو بنانے کے لیے زیادہ جگہ میسر آجاتی ہے۔ حفاظتی لحاظ سے بھی یہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح ایندھن جہاز کی باڈی اور مسافروں سے دور ہوجاتا ہے اور مسافروں کے لیے پرواز کے دوران گواچی گاں ( The Lost Cow) کی طرح پھرنا آسان ہو جاتا ہے۔
جہاز کے ایندھن کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات، جس طرح ہم آلو اور ٹماٹر کلو کے حساب سے خریدتے ہیں بالکل اسی طرح ہوائی کمپنیاں جہاز میں ایندھن کلو کے حساب سے بھرواتی ہیں۔ ایک مرتبہ میں کاک پٹ میں بیٹھا ہوا تھا تو سامنے ایک اسکرین پر نظر پڑی جس میں ایندھن کی مقدار کلو کے حساب سے جگمگا رہی تھی۔ مجھے وہ سلیٹ یاد آگئی جو سبزی اور پھلوں کے دکانوں پر لٹکی ترک درویشوں کی طرح گھوم رہی ہوتی ہے۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ اڑان بھرنے کے لیے جہاز کا ایک مخصوص وزن ہونا چاہیے جوکہ کلوگرام کے پیمانے پر ناپا جاتا ہے۔ اگر ایندھن کو پاؤنڈ یا گیلن کے پیمانے پر بھرا جائے گا تو یہ ساقی کی غلطی ہوگی اور نواب صاحب یعنی کہ جہاز لڑکھڑا جائے گا اور اڑان بھرنے لائق نہیں رہے گا۔ لہٰذا تمام وزن کلوگرام میں تبدیل کردیا جاتا ہے تاکہ دورانِ پرواز جہاز مستحکم رہے۔
جہاز میں اتنا ایندھن بھرا جاتا ہے کہ اگر منزل مقصود پر پہنچنا ممکن نہ ہو تو کسی قریبی شہر کے ہوائی اڈے پر جہاز اتارا جاسکے۔ دنیا کے تمام مسافر بردار جہاز اتنا اضافی ایندھن ضرور لےکر پرواز کرتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں پہلے دستیاب ہوائی اڈے پر اتارا جاسکے۔
اس اضافی ایندھن کو Contingency Fuel یعنی ہنگامی ایندھن کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے پتا چلتا ہے ہنگامی ایندھن وہ ایندھن ہے جو غیر متوقع حالات جیسے کہ موسم کی تبدیلی یا ایئر ٹریفک کنٹرول کی رکاوٹوں کی وجہ سے راستے کی تبدیلی اور ہولڈنگ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اگر کوئی جہاز اپنے وقت پر روانہ نہ ہوسکے تو لینڈنگ کے انتظار میں دوسرے جہاز کو کچھ اضافی وقت محوِ پرواز رہنا پڑتا ہے۔ اس دوران وہ جہاز ہوائی اڈے کے چکر لگاتا رہتا ہے جس کے لیے ظاہر ہے اضافی ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو ’ہولڈ‘ کہا جاتا ہے۔
کسی اور ہوائی اڈے تک جانے کی نوبت عموماً موسم کی خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ ایسا ایک مرتبہ میرے ساتھ 2010ء میں ہوچکا ہے جب لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ کو شدید برفانی طوفان کی وجہ سے بند کردیا گیا تھا اور جہاز کو جرمنی کے شہر بون میں اتارنا پڑا۔ یہ اس اضافی ایندھن کی وجہ سے ممکن ہوا تھا جو لاہور سے چلتے وقت جہاز میں بھروا لیا گیا تھا۔
دھند کی وجہ سے بھی اکثر پروازوں میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ شہر کے مقابلے میں ہوائی اڈے کے رن وے پر دھند زیادہ ہوتی ہے۔ اکثر مسافروں کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ آپ کے گھر والے بھلے چھت پر صاف موسم میں پتنگیں اڑا رہے ہوں لیکن جہاز کو اترنے کے لیے ایک مخصوص حدِنگاہ چاہیے ہوتی ہے جو رن وے پر شہر کے مقابلے میں دیر سے میسر ہوتی ہے۔
واپس آجائیں بارسلونا سے لاہور۔ جو صاحب ’ماہر زیتونیات‘ بنے ہوئے تھے انہوں نے کسی کام سے اپنا سوٹ کیس کھولا تو اندر کا منظر دیکھ کر وہ شرمندگی سے تیل تیل ہوگئے۔ کنوارے زیتون کی ایک بوتل دلبرداشتہ ہوکر پھٹ چکی تھی۔ سر زمینِ حجاز کی مانند ان کے سوٹ کیس سے تیل نکل آیا تھا جو پیندے سے نکلتا ہوا ہوائی اڈے کی زمین کو سیراب کررہا تھا۔ بس ایک فائدہ ہوا کہ ان کے سوٹ کیس کے چھوٹے چھوٹے پہیوں کی چوں چوں بند ہوگئی کیونکہ وہ اتنا تیل پی چکے تھے کہ اب ساری زندگی زیتون کے تیل کا نام نہیں لیں گے، بالکل اپنے مالک کی طرح۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔