فیفا ڈائری (18واں دن): ’اب گھر کی یاد آرہی ہے‘
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
کل میری صبح کا آغاز ہی فٹبال کے ذکر سے ہوا۔ فیفا کی تکنیکی اسٹڈی گروپ نے پریس کانفرنس کی جس میں گروپ مرحلے کے سنسنی خیز اور ڈرامائی میچوں کے نتائج کے حوالے سے صحافیوں کو آگاہ کیا گیا۔
جو لوگ فٹبال کا ذوق رکھتے ہیں ان کے لیے یہ پریس کانفرنس کافی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ اس میں کافی منفرد معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
اس گروپ کی پریس کانفرنس سُن کے آپ فٹبال کی سمت کے حوالے سے پیشنگوئی کرسکتے ہیں، ٹرینڈز سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں یا پھر یہ جان سکتے ہیں کہ فٹبال کا کھیل کس طرح ارتقا پا رہا ہے۔ ان تمام عناصر کا اندازہ آپ کو اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہوتا ہے۔ تو یہ گفتگو مجموعی طور پر کافی دلچسپ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ اس پریس کانفرنس میں ضرور شرکت کرتا ہوں۔
میں پریس کانفرنس کے عین شروع ہونے کے وقت وہاں پہنچا۔ ایک گھنٹے کی پریس کانفرنس کے بعد میں نے اپنا ناشتہ کیا اور میں نے ناشتے میں پی میکڈونلڈز کی کڑک چائے۔
چائے پینے کے بعد میں نے نیوز اسٹوری لکھی اور اسٹوری لکھنے کے بعد ہم فرانس اور پولینڈ کا میچ دیکھنے اسٹیڈیم روانہ ہوگئے۔ میچ بہت اچھا تھا۔ کیلن مباپے کا کھیل بہترین رہا اور ان کی رفتار بےمثال تھی۔
اگر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ اس عالمی کپ میں فرانسیسی ٹیم اتنی مضبوط نہیں ہے تو فرانس نے جو کل کھیل پیش کیا اس سے سب کو اندازہ ہوگیا کہ انہیں روکنا بہت مشکل ثابت ہوگا۔ فرانس کی ٹیم اپنے اگلے میچ میں انگلینڈ کے مدِمقابل آئے گی اور انگلینڈ فرانس کی ٹیم کو کس طرح روکے گی، یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا۔
میچ کے بعد میں ہمیشہ کی طرح مکسڈ زون میں گیا۔ مجھے امید تھی کہ اس بار ہمیں زیادہ سوالات کرنے کا موقع ملے گا لیکن جیسے ہی فرانسیسی کھلاڑی آئے، برطانوی صحافی جو انگلش پریمیئر لیگ کور کرتے ہیں، انہوں نے کھلاڑیوں پر پریمیئر لیگ کے حوالے سے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ چونکہ وقت کم ہوتا ہے اس لیے کھلاڑی زیادہ دیر رکتے بھی نہیں ہیں۔
مجھے اس بات پر بہت غصہ آتا ہے جب برطانوی صحافی سوالات کا رخ پریمیئر لیگ کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کیلن مباپے جیسا کھلاڑی انگلش پریمیئر لیگ کا حصہ ہوتا تو کیا صورتحال ہوتی؟
یعنی ہم اس مخصوص میچ سے متعلق سوال کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں مگر ان کا موضوع ہی الگ ہوتا ہے۔ لیکن ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے کیونکہ فرانسیسی ٹیم کے کھلاڑی لوریس اور اولیوئر جیروڈ انگلش پریمیئر لیگ میں کھیل چکے ہیں اس لیے شاید انہیں ایسے سوالات کی عادت بھی ہے۔
خیر میچ کے بعد ہم اسٹیڈیم سے مین میڈیا سینٹر آئے۔ جب تک ہم پہنچے تب تک انگلینڈ کو میچ میں 0-1 کی برتری حاصل تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے انگلینڈ کی برتری 0-3 ہوگئی۔
پھر میں اور میرے بھارتی صحافی دوست انشومن روئے، دھیمان سرکار اور امریکی صحافی دوست روئے جنکلووٹز، اپنے گھر کے پاس ایک ریسٹورنٹ چلے گئے۔ سدھارتھ سکسینا طبیعت کی خرابی کے باعث ہمارے ساتھ کھانا کھانے نہیں گئے۔
ہم نے رات میں باربی کیو چکن کھائی، بریانی کھائی اور چائے پی۔ یوں کل قطر تھوڑا تھوڑا کراچی جیسا لگ رہا تھا۔ محسوس ہورہا تھا جیسے میں اپنے گھر میں ہوں۔ ویسے اب گھر کی یاد زیادہ آرہی ہے۔ گروپ مرحلے میں جب میں مصروف تھا تو سوچ رہا ہوتا تھا کہ یہ آخر کب ختم ہوگا اور اب میں سوچ رہا ہوں کہ چونکہ دو میچ کور کرنے کی عادت ہوگئی ہے اس لیے صرف ایک میچ کور کرنے میں مزا نہیں آرہا۔
عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔