فیفا ڈائری (16واں دن): ورلڈ کپ کے دوران ہماری زندگی میڈیا سینٹر کے گرد ہی گھومتی ہے
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
کل صبح میں نسبتاً جلدی اٹھ گیا۔ اگرچہ میں رات دیر سے سویا تھا لیکن میں نے یہ طے کرلیا تھا کہ صبح جلدی ہی اٹھنا ہے۔ صبح کچھ کام بھی تھے۔ ان میں سے ایک اہم یہ تھا کہ میرے فون کا ڈیٹا پیکج ختم ہونے والا تھا اور اسے ری چارج کروانا تھا۔
کارڈ کے ذریعے ری چارج کرنے میں کچھ مسئلہ آرہا تھا اس وجہ سے اب بذریعہ کیش یہ کام کروانا تھا۔ میں یہاں ووڈا فون کی سِم استعمال کررہا ہوں اور ووڈا فون کا سینٹر مشیرب میں واقع ہے۔ مشیرب میری رہائش گاہ سے 3، 4 میٹرو اسٹاپ کے فاصلے پر ہے۔
لیکن پاکستانی ہونے کے ناطے میں نے شارٹ کٹ اختیار کیا اور ووڈا فون ٹاپ اپ اسٹور چلا گیا۔ وہاں مشکل یہ پیش آئی کہ انہوں نے ری چارج تو کردیا لیکن چونکہ میرے پاس موجود سِم حیا کارڈ [فیفا ورلڈ کپ کے لیے جاری کردہ خصوصی کارڈ] والی تھی اس وجہ سے ری چارج ہوا نہیں۔ چونکہ وہاں کافی وقت لگ گیا تھا اس وجہ سے اب یہ کام آج ہوگا۔
خیر ڈیٹا کا اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ میرے پاس ایک دوسرا فون بھی جو کل ٹوٹ گیا ہے۔ میں جلدی میں جارہا تھا کہ فون میرے ہاتھ سے گرگیا اور اس کی اسکرین ٹوٹ گئی۔ اگر آپ فون کی اسکرین کو چار حصوں میں تقسیم کریں تو سمجھیں کہ ایک حصے پر کچھ نظر نہیں آرہا۔ اسی لیے میں جب بھی فیفا ورلڈ کپ کور کرنے آتا ہوں تو اپنے ساتھ 2 فون لے کر آتا ہوں۔ بہرحال اس فون میں اووریڈو کی سم ہے اور اس میں ابھی کافی ڈیٹا موجود ہے۔ ویسے یہاں تقریباً ہر جگہ وائے فائے کی سہولت دستیاب ہے تو مجھے تقریباً ہر وقت انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
ورلڈ کپ کے دوران سمجھیں کہ ہماری زندگی میڈیا سینٹر سے ہی شروع ہوتی ہے اور میڈیا سینٹر پر ہی ختم ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب گروپ مرحلہ ختم ہوگیا ہے۔ یوں اب ایک وقت میں 2 میچوں کی جگہ ایک ہی میچ ہوگا جو ہم آرام سے کور کرسکتے ہیں۔
کل ارجنٹینا کی پریس کانفرنس تھی جس کے لیے میں پہلے میڈیا سینٹر پہنچا۔ پریس کانفرنس کور کرنے کے بعد ہم بس کے لیے بھاگے تاکہ جنوبی کوریا اور پرتگال کے میچ میں پہنچ سکیں۔ اسٹیڈیم پہنچے تو وہاں کمال کا ماحول تھا۔ میچ کے آخر میں جنوبی کوریا نے ایک شاندار جیت حاصل کی۔
اس جیت کی خبر لکھنے کا بھی ایک مزا تھا۔ میں نے گزشتہ تحریر میں لکھا تھا کہ دوسرے میچ تک لے جانے والی بس 8 بج کر 20 منٹ پر چلتی ہے۔ اچھا ویسے تو یہ میچ 7 بج کر 58 منٹ پر ختم ہوگیا لیکن ہم انتظار کررہے تھے کہ دوسرا میچ بھی ختم ہو تاکہ ہم خبر کو حتمی شکل دیں کیونکہ اُس میچ کے نتیجے کو اِس میچ پر اثر انداز ہونا تھا۔
میں اور ہندوستان ٹائمز کے میرے دوست دھیمان سرکار میچ کے دوران ساتھ ہی بیٹھے تھے اور میچ ختم ہونے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ اب چلیں۔ 8 بج کر 7 منٹ پر ہم اسٹیڈیم سے نکلے اور بس مال کی جانب بھاگے۔
خوش قسمتی سے ہمیں 8 بج کر 20 منٹ والی بس مل گئی۔ لیکن یہ خوش قسمتی جلد ختم ہونے والی تھی۔ قطر میں جو بس ڈرائیور ہیں وہ اسٹیڈیمز کے راستوں سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ برازیل کے میچ کے لیے ہمیں لُسیل اسٹیڈیم جانا تھا لیکن ڈرائیور صاحب راستہ ہی بھول گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم گھومتے گھماتے 9 بج کر 45 منٹ پر اسٹیڈیم پہنچے۔ یعنی میچ شروع ہونے سے 15 منٹ پہلے۔
میں نے صبح کے ناشتے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تھا اس وجہ سے سوچا کہ میچ کور سے قبل کھانا کھا لیتے ہیں۔ تو میں اور دھیمان کھانا کھا کر جب اوپر پہنچے تو میچ کو شروع ہوئے 5 منٹ گزر چکے تھے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس وقت تک کوئی گول نہیں ہوا تھا لیکن جب گول ہوا تو بہت مزے کا ہوا اور کیمرون برازیل کو شکست دینے والی پہلی افریقی ٹیم بن گئی۔
میں میچ ختم ہونے کے بعد گھر آیا تو خیال آیا کہ مجھے ناخن کاٹنے ہیں لیکن ایک مسئلہ تھا۔ میرا نیل کٹر میرے بیگ میں تھا اور اسٹیڈیم میں اس قسم کی چیزیں لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، تو مجھے شروع کے دنوں میں ہی اس کی قربانی دینی پڑگئی تھی۔
اس وجہ سے میں گھر سے تھوڑا دور ایک سپر اسٹور گیا جسے کیرالہ کے کچھ لوگ چلاتے ہیں۔ وہاں خوش قسمتی سے مجھے نیل کٹر مل گیا اور میں خوش ہوں کہ میں نے اپنے ناخن کاٹ لیے۔
عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔