نقطہ نظر

فیفا ڈائری (نواں دن): جب ہم میچ سے صرف 12 منٹ قبل اسٹیڈیم پہنچے

میں جب میٹرو کے ذریعے مین میڈیا سینٹر پہنچا تو 12 بج چکے تھے اور میچ تھا ایک بجے۔ مین میڈیا سینٹر پہنچ کر معلوم ہوا کہ آخری شٹل تو جاچکی ہے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کل میں نے آپ کو بتایا تھا کہ مجھے مکسڈ زون میں کچھ مزہ نہیں آیا اور میں جن کھلاڑیوں سے ملنا چاہتا تھا وہ نہیں ملے لیکن کل مکسڈ زون میں بہت اچھا تجربہ رہا۔

کل نیدرلینڈز اور ایکواڈور کا میچ تھا جوکہ ایک ایک سے برابر رہا۔ اس کے بعد مکسڈ زون میں دونوں ٹیموں کے کھلاڑی رکے اور انہوں نے بہت لمبی باتیں کیں۔

میں اس امید سے گیا تھا کہ نیدرلینڈ کی ٹیم میں انگریزی بولنے والے کافی کھلاڑی ہیں جن میں لیورپول کے کپتان ورجل وین ڈائک اور مینچسٹر سٹی کے نیتھن آرکے ہیں جوکہ کافی نامی گرامی کھلاڑی ہیں۔

تو کل اچھا کام یہ ہوا کہ مکسڈ زون میں ورجل وین ڈائک میرے اشارے پر رک گئے۔ میں نے ان سے سوالات کیے اور انہوں نے بہت اچھے جوابات دیے۔

میں جو اسٹوری کرنا چاہ رہا تھا اس کے لیے اگر آپ کو کھلاڑیوں کے جملے مل جائیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ بعد ازاں میں نے نیتھن آرکے سے بھی سوالات کیے۔ اس وجہ سے کل مکسڈ زون کا تجربہ بہت اچھا تھا۔

مکسڈ زون کے ساتھ ساتھ کل میچ کا تجربہ بھی اچھا رہا لیکن میچ کی بات کرنے سے پہلے یہ بات کرتے ہیں کہ ہم میچ میں پہنچے کیسے۔

قطر نے یہاں صحافیوں کے لیے مین میڈیا سینٹر سے شٹل کا انتظام کیا ہے۔ مین میڈیا سینٹر میری رہائش سے 3 میٹرو اسٹاپ دُور ہے۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مین میڈیا سینٹر سے آخری شٹل میچ سے ایک گھنٹہ قبل جاتی تھی۔ لیکن اب یہ وقت ڈیڑھ گھنٹہ ہوگیا تھا اور میں نے اس کا نوٹس نہیں دیکھا تھا۔

میں معمول کے مطابق اٹھا اور چونکہ جمعے کا دن تھا تو ساڑے 11 بجے اپنی رہائش کے قریب ہی جمعے کی نماز پڑھی اور حساب یہی تھا کہ میں 12 بجے تک مین میڈیا سینٹر پہنچ جاؤں گا۔ میں جب میٹرو کے ذریعے مین میڈیا سینٹر پہنچا تو 12 بج چکے تھے اور میچ تھا ایک بجے۔ مین میڈیا سینٹر پہنچ کر معلوم ہوا کہ آخری شٹل تو جاچکی ہے۔

یوں میں ایک طویل راستہ پیدل طے کرتا ہوا دوبارہ میٹرو تک پہنچا۔ میچ احمد بن علی اسٹیڈیم میں ہونا تھا جوکہ کافی فاصلے پر تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ جہاں سے صحرا شروع ہوتا ہے وہاں پر یہ اسٹیڈیم موجود ہے۔ اس وجہ سے میٹرو کا سفر بھی طویل تھا۔ مجھے میٹرو میں ایک آسٹریلین صحافی مل گئے تھے جو میری طرح کے ہی حالات سے دوچار تھے۔

ہم میٹرو سے اترے تو میڈیا کے لیے مختص داخلی دروازہ اسٹیڈیم کی دوسری جانب تھا۔ کسی طرح ایک طویل چکر کاٹ کر ہم میچ سے 12 منٹ قبل اسٹیڈیم پہنچ ہی گئے لیکن اس پورے ایڈونچر میں ٹانگوں کا جو حال ہوا وہ بیان سے باہر ہے۔

عمید وسیم

عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔