نقطہ نظر

فیفا ڈائری (چوتھا دن): ’اب تک کسی فیفا ورلڈ کپ کی اتنی بہترین تقریب نہیں دیکھی‘

جس اسٹیڈیم میں تقریب منعقد ہوئی وہ باہر سے دیکھنے پر بڑا سا روایتی عرب خیمہ لگتا ہے جو قطر میں ثقافتی اہمیت بھی رکھتا ہے۔

اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


جس دن کا سب کو انتظار تھا وہ بلآخر آ ہی گیا تھا۔ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی بہت ہی زبردست افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا، اور میں نے اب تک کسی فیفا ورلڈ کپ کی اس قدر بہترین تقریب نہیں دیکھی۔ لیکن دن کا اختتام میزبان قطر کے لیے اچھا نہیں رہا کیونکہ پہلے ہی میچ میں قطر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

صبح ہم سب سے پہلے مرکزی میڈیا سینٹر پہنچے جہاں کچھ پریس کانفرنسیں کور کرنی تھیں۔ ان کی رپورٹ بناتے بناتے وقت کا خیال نہیں رہا اور اس کے بعد میچ کے لیے جانے کا ٹائم ہوگیا۔ فیفا صحافیوں کے لیے خاص میڈیا شٹل سروس چلاتا ہے جو صحافیوں کو مرکزی میڈیا سینٹر سے اسٹیڈیم تک لے جاتی ہیں۔

افتتاحی تقریب قطر کے مقامی وقت کے مطابق 5 بج کر 40 منٹ پر شروع ہونی تھی اور ہم میڈیا سینٹر سے ہی 4 بج کر 45 منٹ پر نکلے۔ خوش قسمتی سے ہمیں آخری بس مل گئی۔ میرے ساتھ کچھ بھارتی صحافی دوست بھی تھے۔ اسٹیڈیم پہنچتے ہی میں نے تو دوڑ لگادی کیونکہ تقریب شروع ہونے والی تھی اور میں نے اس پر خبر دینی تھی۔

قطر کا البیت اسٹیڈم جس میں افتتاحی تقریب منعقد ہوئی وہ واقعی بہت اچھا اور بہت بڑا تھا۔ باہر سے دیکھنے پر یہ بڑا سا روایتی عرب خیمہ لگتا ہے جو قطر میں ثقافتی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ اسٹیڈیم میں موجود شائقین کو کچھ سوینیئر بھی دیے گئے جن میں ایک ٹی شرٹ، ایک اسکارف، عطر اور کچھ دیگر اشیا شامل تھیں۔

افتتاحی تقریب کے بعد میچ کا آغاز ہوا۔ پہلے میچ میں عموماً کچھ مسائل ہو ہی جاتے ہیں۔ کل بھی ایسا ہی ہوا کہ پریس انکلوژر میں موجود وائے فائے میں خلل آرہا تھا۔ اس وجہ سے میں ہاف ٹائم پر اسٹیڈیم کے میڈیا سینٹر بھاگا اور وہاں سے کچھ خبریں دفتر بھیجیں اور پھر دوبارہ اپنی نشست کی جانب دوڑ لگا دی۔

پہلا میچ مزے کا تھا لیکن قطر نے ویسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا جسے امیدیں جگانے والی کارکردگی کہا جاسکے۔ فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ میں قطر وہ پہلا میزبان ملک بن چکا ہے جسے افتتاحی میچ میں شکست کا سامنا ہوا۔ شاید قطر کو یہ بات پسند نہ آئے کیونکہ قطری حکومت نے ورلڈ کپ یہاں لانے کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا ہے۔

البیت اسٹیڈیم دوحہ سے کچھ فاصلے پر ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ دوسرے شہر میں واقع ہے۔ میچ ختم ہونے کے بعد جب ہم اسٹیڈیم کے میڈیا سینٹر پہنچے تو وہاں کھانا ختم ہوچکا تھا۔ اس وجہ سے ہم پہلے رات 12 بجے مرکزی میڈیا سینٹر پہنچے اور پھر وہاں سے کھانے کی تلاش میں نکلے۔ اچھی بات یہ ہے کہ دوحہ میں رات کو 2، 3 بجے تک بھی کھانا مل جاتا ہے۔

دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر رات 2 بجے تک واپسی آئے اور اس وقت یاد آیا کہ ابھی کچھ مزید خبروں پر کام کرنا ہے۔ یوں سوتے سوتے 5 بج گئے۔

عمید وسیم

عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔