فیفا ڈائری (پہلا دن): میں نے قطر پہنچتے ہی کیا دیکھا؟
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
حسبِ روایت فیفا ورلڈ کپ 2022ء کور کرنے کی ذمہ داری ملی تو رخت سفر باندھا اور فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ کی فلائٹ پکڑی۔ بس اس مرتبہ سوچا کہ صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے تجربات بھی قلمبند کیے جائیں، تو یہ ڈائری حاظر ہے۔
میں 16 نومبر کی شب دوحہ پہنچا، ایئر پورٹ سے باہر نکلنے اور اپنی قیام گاہ تک کے پورے سفر کے دوران دوحہ میں ورلڈ کپ کی برینڈنگ تو خوب نظر آئی لیکن لوگوں میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا جو فیفا ورلڈ کپ کے دیگر میزبان ممالک میں نظر آتا تھا۔ ممکن ہے کہ جیسے جیسے ورلڈ کپ کا پہلا میچ نزدیک آتا جائے ویسے ویسے عوام میں جوش و خروش بھی بڑھتا جائے۔
دوحہ میں ابتدائی چند دن میرا قیام ایک دوست کے گھر پر ہے۔ ایئرپورٹ سے اس کے گھر پہنچا تو رات کا وقت تھا۔ بلند و بالا عمارت کی کھڑکی سے باہر دُور تک جگمگاتی روشنیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ اگلے روز سو کر اٹھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک اچھا خاصا گنجان آباد علاقہ ہے۔ دُور ایک اسٹیڈیم بھی نظر آرہا تھا۔ بہرحال اس دن کا پہلا کام فیفا ورلڈ کپ کے لیے تیار کیے گئے میڈیا سینٹر جاکر اپنے صحافتی دستاویزات وصول کرنے کا تھا۔
فیفا نے اس ورلڈ کپ کے لیے ایک مرکزی میڈیا حب تیار کیا ہے جہاں تمام براڈ کاسٹرز اور پریس کام کریں گے۔ یقین جانیے کہ میڈیا سینٹر کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس ورلڈ کپ پر ہونے والے اخراجات کا اندازہ اس میڈیا سینٹر کو دیکھ کر ہی ہوجاتا ہے۔
میڈیا سینٹر کے داخلی دروازے پر آپ کا استقبال ایک بہت بڑی سی مکڑی کرتی ہے۔ اس سے بچ کر آپ میڈیا سینٹر کے مرکزی ہال میں پہنچتے ہیں جہاں ڈھیروں میز کرسیاں لگی ہیں۔ ہال کی چھت بھی بہت خوبصورت انداز میں بنائی گئی ہے جہاں سے آنے والی قدرتی روشنی دن کے وقت ہال کو روشن رکھتی ہے۔ اس میڈیا سینٹر میں صحافیوں کے لیے ریسٹورینٹس اور اے ٹی ایم کی سہولت بھی موجود ہے۔ میڈیا سینٹر میں اس وقت معمول سے بہت ہی کم رش تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ میچ کے دنوں میں یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی۔
بہرحال اس پہلے دن کا مجموعی احساس تو یہی ہے کہ بلاشبہ قطر نے اس ورلڈ کپ کے لیے بے تحاشہ خرچہ کیا ہے لیکن پھر بھی اب تک وہ جوش خروش نظر نہیں آرہا جو فیفا ورلڈ کپ کی روایت ہے۔
میں نے اس سے پہلے بھی 2 فیفا ورلڈ کپ کور کیے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ورلڈ کپ بھی اتنا خشک نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قطر کی آبادی ویسے بھی بہت کم ہے تو ممکن ہے کہ اس وجہ سے بھی عوامی سطح پر اس طرح کا جوش و جذبہ اور رونق نظر نہیں آئی۔ لیکن وہی بات کہ یہ ابھی پہلا دن ہے اور ممکن ہے کہ جیسے جیسے میچ قریب آئیں ویسے ویسے یہاں کا ماحول بھی تبدیل ہوتا رہے۔
عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔