قدرت کے نظام نے اس کا ساتھ دیا جس نے اچھا کھیلا!
ایک ایسی ٹیم جس کے اوپنرز کا اسٹرائیک ریٹ اتنا ہی بڑا مسئلہ تھا جتنا مڈل آرڈر بیٹسمینوں کی مسلسل ناکامی، پھر پہلے 2 میچوں میں آخری گیند پر شکست، پھر تیسرے میچ میں پاور پلے کے اختتام تک 4 وکٹوں کا گر جانا، ان حالات میں بھلا کسے خبر تھی کہ ایسی ٹیم کسی نہ کسی طرح ٹی20 ورلڈکپ کے فائنل تک پہنچ جائے گی۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے سبھی ثقلین مشتاق کی بات ’قدرت کا نظام‘ کے قائل ہوچکے تھے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ زمبابوے کے خلاف شکست کا شکار ہونے والی ٹیم جنوبی افریقہ سے جیت جائے، نیدرلینڈز کی ٹیم جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کو شکست دے دے اور ایک ایسی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ جائے، جس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات تقریباً ناممکن تھے۔ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ سیمی فائنل میں وہی ٹیم اس نیوزی لینڈ کو باآسانی 7 وکٹوں سے شکست دے دے جس نے ایونٹ کے پہلے ہی میچ میں مضبوط میزبان آسٹریلیا کو یکطرفہ مقابلے میں ہرا دیا تھا۔
لیکن فائنل میں یہی ’قدرت کا نظام‘ انگلینڈ اور خصوصاً بین اسٹوکس کے حق میں کام کرنا شروع ہوگیا ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ کھیلی گئی 48 گیندوں میں سے آدھی گیندوں پر بیٹ ہونے والا بیٹسمین اس میچ کا ہیرو بن کر سامنے آجائے۔
بین اسٹوکس نے ثابت کردیا کہ فارمیٹ کوئی بھی ہو، مخالف ٹیم اور میدان کوئی بھی ہو، انگلینڈ کے لیے نجات دہندہ صرف بین اسٹوکس ہی ہے۔ ہیڈنگلے ٹیسٹ ہو، لارڈز پر ون ڈے ورلڈکپ کا فائنل یا میلبرن پر ٹی20 ورلڈکپ کا فائنل، مخالف آسٹریلیا ہو نیوزی لینڈ یا پاکستان، انگلینڈ کا ترپ کا پتہ بین اسٹوکس ہی رہا ہے۔
انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر اور ایلیکس ہیلز اس ٹورنامنٹ میں انگلینڈ کے 2 ہی ایسے بیٹسمین تھے جو تسلسل سے رنز بنا رہے تھے جبکہ ہیری بروک کا پاکستان کے خلاف ٹی20 میں ریکارڈ شاندار تھا مگر اس کے باوجود میچ جتوانے کا سہرا ایک بار پھر بین اسٹوکس کے سر ہی سجا۔ اگر ہم یہ کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے سال متحدہ عرب امارات میں منعقدہ ورلڈ کپ میں انگلینڈ کی ٹیم اسی لیے فائنل تک نہیں پہنچ سکی تھی کیونکہ اس ایونٹ میں اسٹوکس ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔
پاکستانی ٹیم نہ 1992ء کی تاریخ دہرا سکی اور نہ 2009ء کی، مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ دہرانے کے قریب ضرور پہنچ چکے تھے۔ صرف 137 رنز کے دفاع میں جس طرح کی عمدہ کرکٹ ہم نے کھیلی ہے اس نے ٹیم کے چاہنے والوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔
یقیناً چیمپیئن بننے جیسا احساس اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک یہ اعزاز حاصل نہ کرلیا جائے مگر جب شائقین کو یہ یقین ہوجائے کہ ان کی ٹیم نے جیتنے کے لیے اپنی پوری کوشش کی ہو اور اپنا سارا زور لگا دیا ہو تو شائقین کے لیے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
میچ میں بہت سی باتیں پاکستان کے خلاف گئیں جیسے ٹاس۔ ویسے تو اس پورے ایونٹ میں ٹاس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہی تھی، مگر اس میچ میں صورتحال مختلف تھی۔
آج کے میچ میں پہلے بیٹنگ کرنا کسی بھی طور پر آسان نہیں تھا کیونکہ وکٹ میں باؤنس بھی تھا اور گیند سوئنگ بھی ہو رہی تھی۔ اگر پاکستان کو پہلے باؤلنگ کا موقع ملتا تو انگلینڈ کو شاید ہم سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔
مگر پاکستانی باؤلرز نے دوسری اننگ میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایسی عمدہ باؤلنگ کا مظاہرہ کیا کہ انگلینڈ کے بیٹسمینوں کے لیے وکٹ پر ٹھہرنا مشکل ترین کام بن گیا۔ اسٹوکس کے لیے تو نسیم شاہ، محمد وسیم اور حارث رؤف قہر بن کر نازل ہوئے مگر قدرت کی ساری نوازشات آج اسٹوکس کے لیے ہی تھیں ورنہ اتنے مواقعوں کا ملنا غیر معمولی ہے۔
اگر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان نتیجے کا کوئی فرق ہے تو وہ شاہین شاہ آفریدی کی انجری ہے۔ جس وقت وہ دوسرے اسپیل کے لیے باؤلنگ کرنے آئے اس وقت انگلینڈ کو جیت کے لیے 29 گیندوں پر 41 رنز درکار تھے مگر ان کی جگہ جیسے ہی افتخار احمد کو باؤلنگ دی گئی، اچانک ہی سارا دباؤ ختم ہوگیا اور پھر اگلی 7 گیندوں پر 21 رنز بن گئے اور میچ مکمل طور پر انگلینڈ کے ہاتھ میں چلا گیا۔
اگر شاہین اپنے 2 اوورز مکمل کر پاتے تو کہیں نہ کہیں امکان تھا کہ پاکستان میچ کو آخری اوور تک لے جاسکتا ہے اور آخری اوور میں پانسہ کبھی بھی پلٹ سکتا ہے۔
اگر پاکستانی بیٹنگ کا ذکر کریں تو انگلینڈ کی جانب سے بھی بہت اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور اس میں مزید بہتری بٹلر کی کپتانی کی وجہ سے آگئی۔
پاکستانی بیٹسمین اپنے طور پر رنز بنانے کی پوری کوشش کررہے تھے لیکن ان کی ہر کوشش بٹلر اور باؤلرز نے ناکام بنا دی۔ پاکستانی اوپنرز بعد میں بیٹنگ کرتے ہوئے تو کئی بار تیز آغاز فراہم کرتے رہے ہیں لیکن پہلے کھیلتے ہوئے ایسا کم ہی ہوا ہے۔ انگلش باؤلرز کو وکٹ اور حالات سے مدد تو مل ہی رہی تھی مگر کپتان کے بلے پر تو جیسے گیند آ ہی نہیں رہی تھی۔ رضوان تو شروع میں ہی آؤٹ ہوگئے تھے جبکہ تیز بیٹنگ کے لیے مشہور محمد حارث بھی صورتحال کو سمجھنے سے بالکل ہی قاصر رہے۔
لیکن اس سب کے باوجود 11ویں اوور کے اختتام پر ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستانی ٹیم باآسانی 160 رنز تک پہنچ سکتی ہے۔ 11ویں اوور میں بننے والے 16 رنز سے لگا کہ اب ہمارے بیٹسمین وکٹ کو ٹھیک سے سمجھ گئے ہیں اور اب رنز کی رفتار میں اضافہ ہوجائے گا لیکن اگلے ہی اوور میں بابر اعظم آؤٹ ہوگئے اور پھر کوئی بھی وکٹ پر دیر تک نہیں رک سکا۔
انگلینڈ کی جانب سے عادل رشید اور سیم کرن نے ایک بار پھر شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ جب ہم بٹلر کی اچھی کپتانی کی بات کرتے ہیں تو اسے سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ ہمارے کھلاڑی جہاں بھی شاٹ کھیلتے رہے وہاں فیلڈر کیچ پکڑنے کے لیے تیار کھڑے نظر آئے۔ یہ سمجھ نہیں آیا کہ ہمارے کھلاڑیوں کو فیلڈر نظر نہیں آرہے تھے یا وہ اچانک سے اس مقام تک پہنچ رہے تھے۔
ویسے ہمارے بیٹسمینوں سے ایک بڑی غلطی یہ بھی ہوئی کہ تقریباً تمام ہی کھلاڑی گیند کو باؤنڈری لائن سے باہر ہی پھینکنے کی کوشش میں آؤٹ ہوئے، حالانکہ اگر اس بڑے میدان پر گراؤنڈ شاٹس کھیل کر رنز بنانے کی کوشش کی جاتی تو بہتر تھا۔
فائنل سے کئی دن پہلے ہی بارش کی پیشگوئی شروع ہوچکی تھی۔ بارش بھی ایسی جو شاید لگاتار 2 دن تک چلے اور اسی وجہ سے یہ خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ شاید میچ ریزرو ڈے پر بھی ممکن نہ ہوسکے۔ لیکن قدرت کا کرنا دیکھیے کہ پہلے ہی دن میچ مکمل بھی ہوا اور نتیجہ بھی ہمارے سامنے آگیا، شاید ’قدرت کا نظام‘ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ ہر اس ٹیم کا ساتھ دیتا ہے جو اچھا اور بہتر کھیل پیش کرے۔
قومی ٹیم چمپیئن تو نہ بن سکی لیکن 2 میچوں میں شکست کے بعد جس طرح اس ٹیم نے واپسی کی اور مسلسل 4 میچ جیت کر فائنل تک پہنچی، وہ نہایت شاندار کارکردگی تھی۔ یہ پورا سفر ٹیم ورک کے نتیجے میں مکمل ہوسکا کیونکہ جب بھی جس کھلاڑی کی ضرورت پڑی اس نے اپنے کھیل سے جیت میں کردار ادا کیا۔
یہیں پاکستانی ٹیم کی سلیکشن پر ایک بار پھر چھوٹے چھوٹے سوال ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ پچھلے تقریباً 2 سالوں سے پاکستانی ٹیم کے فیوچر پلان کا حصہ رہنے والے خوشدل شاہ اور آصف علی پورے ایونٹ میں بینچ پر بیٹھے ہی نظر آئے۔ ان کے اندر ایسی کیا خاص بات تھی جو پہلے تو ٹیم منیجمنٹ کو نظر آتی رہی مگر عین موقع پر جب انہیں آزمانے کا وقت آیا تو انہیں نظر انداز کردیا گیا۔
اوپنرز کی کارکردگی پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور اوپنرز کا اسٹرائیک ریٹ بھی اہم موضوعات ہیں جن کا جواب حاصل کرنے کے لیے اب ٹیم انتظامیہ کے پاس کافی وقت ہے کیونکہ اگلا ٹی20 ورلڈکپ 2 سال بعد ہے۔ ٹی20 ورلڈکپ 2022ء میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی توقعات سے بہتر تھی اور امید ہے کہ اگلے سال ون ڈے ورلڈکپ میں اس سے بھی بہتر رہے گی۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔