’لڑکو! کچھ فائنل کے لیے بھی بچا کر رکھ لو۔۔۔ پلیز‘
سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کو ایک دو نہیں بلکہ کئی معجزے درکار تھے لیکن سیمی فائنل میں فتح صرف اچھے کھیل سے ہی ممکن تھی اور شاید پاکستانی ٹیم اچھے کھیل کے لیے اسی میچ کا انتظار کر رہی تھی۔
نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا توابتدائی 10 اوور بالکل خواب جیسے ہی تھے۔ شاہین آفریدی کی پہلے اوور میں وکٹ، شاداب کا بہترین رن آؤٹ، تمام کھلاڑیوں کی بہترین فیلڈنگ اور اچھی کپتانی، سبھی کچھ ایک ساتھ اتنا اچھا چل رہا تھا کہ دل سے آواز آئی کہ ’لڑکو کچھ فائنل کے لیے بھی بچا کر رکھ لو۔۔۔ پلیز‘۔
شاید لڑکوں نے وہ آواز قریب ہوکر سن لی۔ پانی کا وقفہ گزرا تو باؤلنگ تھوڑی اِدھر اُدھر ہونے لگی، فیلڈنگ میں بھی کچھ غلطیاں سامنے آئیں اور ڈیرل مچل ایک بار پھر پچھلے سال کی کہانی دہرانے لگے۔
پچھلے سال ٹی20 ورلڈکپ میں انگلینڈ کے خلاف ڈیرل مچل کی شاندار اننگ ہی تھی جس نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں فتح دلا دی تھی۔ لگ یہی رہا تھا کہ ایک بار پھر ڈیرل مچل ہار جیت میں فرق ثابت ہوسکتے ہیں۔ مچل نے شاندار ہٹنگ کا مظاہرہ کیا، کپتان کین ولیمسن نے مچل کا رنز بنانے میں ساتھ تو دیا لیکن اسٹرائیک ریٹ میں کچھ پیچھے رہ گئے۔ مچل نے ایک شاندار اننگ کھیلی لیکن ولیمسن کے بعد گلین فلپس اور جمی نیشم بھی وہ کھیل پیش نہیں کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔
ٹی20 ورلڈکپ 2022ء میں سیمی فائنل سے قبل سڈنی میں 6 میچ کھیلے جاچکے تھے اور 5 میں فتح پہلے کھیلنے والی ٹیموں کی ہوئی تھی۔ 5 مرتبہ پہلی والی ٹیمیں صرف جیتی ہی نہیں تھیں بلکہ بہت بڑے فرق سے جیتی تھیں۔ صرف ایک میچ میں ہدف کا تعاقب ممکن ہوا اور اس میں بھی سری لنکن اوپنرز کی اچھی کارکردگی کے بعد مڈل آرڈر مکمل فلاپ ہوا اور ٹیم صرف 141 رنز ہی بنا سکی۔ 142 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ جیسی بیٹنگ لائن اپ کو 6 وکٹیں کھونا پڑیں اور ہدف بھی آخری اوور میں ہی حاصل ہوا۔
یہ سب ذہن میں رکھتے ہوئے 153 کا ہدف ہرگز آسان نہیں تھا، لیکن پاکستانی ٹیم اعداد و شمار کو غلط اور تجزیوں کو بے کار ثابت کرتی رہی ہے اور اس بار بھی کچھ ایسا ہی کرنے کا ارادہ لے کر بابر اور رضوان میدان میں آئے تھے۔ دونوں پچھلے ڈیڑھ سال سے رنز بنا رہے تھے لیکن اس ٹورنامنٹ میں لگ رہا تھا کہ دونوں کھیلنا ہی بھول گئے ہیں۔
دونوں کھلاڑیوں پر ہر طرف سے تنقید ہوتی رہی اور اس کی وجہ ان کی کارکردگی ہی تھی۔ رنز نہ بنانا تو نقصان کا سبب تھا ہی مگر وکٹ پر رہ کر گیندوں کا ضیاع زیادہ پریشان کن تھا جو ٹیم کی فتح کا امکان کم کرتا تھا، اور ظاہر ہے اس پر صرف تنقید ہی کی جاسکتی تھی۔
مگر اس بار بابر اور رضوان کے ارادے کچھ اور تھے اور یہاں تھوڑا سا قسمت کا ساتھ بھی درکار تھا جو پہلے ہی اوور میں ملا جب ٹرینٹ بولٹ کی باہر جاتی گیند نے بابر اعظم کے بلے کا کنارہ لیا لیکن وکٹ کیپر ڈیون کونوے اسے دبوچنے میں نے ناکام رہے۔ اس کے بعد بابر اور رضوان خوب کھیلے اور پاور پلے کو ایسے ہی استعمال کیا جیسے اس کا حق تھا۔
ویسے آج تھوڑی سی غلطی شاید نیوزی لینڈ ٹیم منیجمنٹ سے بھی ہوئی۔ وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار تھی اور کچھ سست بھی تھی، مگر اس کے باوجود نیوزی لینڈ ٹیم منیجمنٹ کو لگا کہ اس وکٹ پر 2 اسپنر ہی کافی رہیں گے اور تیسرے اسپنر کی جگہ لوکی فرگوسن کو کھلایا گیا۔
یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ نیوزی لینڈ میں حال ہی میں کھیلی گئی ٹرائی سیریز میں پاکستان کے خلاف پاور پلے میں نیوزی لینڈ کے اسپنرز نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا تھا، خاص طور پر مائیکل بریسویل کی آف اسپن باؤلنگ کا تو پاکستانی بلے بازوں، خاص طور پر بابر اور رضوان کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ یعنی پاکستان کے خلاف آخری 2 میچوں میں بریسویل نے 4 وکٹیں حاصل کیں اور صرف 25 رنز دیے، مگر اس پورے ورلڈ کپ میں انہیں موقع نہیں ملا، لیکن اگر آج پاکستان کے خلاف انہیں موقع ملتا تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔
سیمی فائنل سے ایک دن قبل قومی ٹیم آرام کیا اور پریکٹس نہیں کی لیکن کپتان بابر اعظم بہت دیر تک بیٹنگ کنسلٹنٹ میتھیو ہیڈن کے ساتھ پریکٹس کرتے رہے۔ ہیڈن نے پریس کانفرنس میں بھی بابر پر اعتماد کا اظہار کیا اور بابر ان کے اس اعتماد پر پورے بھی اترے۔ اگرچہ آج بھی اسٹرائیک ریٹ 130 سے کم ہی رہا لیکن مطلوبہ ہدف اور دوسری جانب رضوان کے بہتر اسٹرائیک ریٹ کی وجہ سے مطلوبہ رن ریٹ کم ہوتا جا رہا تھا۔
ایک موقع پر ایسا بھی لگا جیسے پاکستان آج بھی 10 وکٹوں سے فتحیاب ہوجائے گی مگر پاکستان کے میچوں میں کم کم ہی اتنا پُرسکون اختتام ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف وکٹیں گریں بلکہ مطلوبہ رن ریٹ بھی بڑھنا شروع ہوا لیکن محمد حارث نے آج بھی جارحانہ کھیل پیش کیا اور یوں پاکستان نہ صرف یہ میچ جیت گیا بلکہ 13 سالوں بعد ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی پہنچ گیا۔
پاکستان کا مقابلہ فائنل میں انگلینڈ سے ہوگا یا انڈیا سے، یہ تو کل ہی پتا چل پائے گا لیکن آج کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو ٹیم بھی پہنچے گی اسے فائنل میں بہت سخت مقابلہ درپیش ہوگا۔
اگر باؤلنگ کی بات کی جائے تو شاہین آفریدی کی فارم مکمل طور پر بحال ہوچکی ہے اور وہ ایک بار پھر ابتدائی اوورز میں ٹیم کا اہم ہتھیار ثابت ہورہے ہیں۔ پہلے اوور میں وکٹ لینا شاہین آفریدی کی عادت سی بن چکی ہے اور اس سے مخالف ٹیم پہلے ہی اوور سے دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔
پھر نسیم شاہ شروع میں سوئنگ اور آخری اوورز میں سلو بالز سے مخالف بیٹسمین کو قابو کرنے میں مہارت حاصل کرتے جارہے ہیں جبکہ محمد وسیم کے یارکرز اور باؤنسر کسی بھی بیٹسمین کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہیں۔
درمیانے اوورز میں رنز روکنے ہوں یا وکٹیں حاصل کرنی ہوں، شاداب خان کو دونوں کاموں میں عبور حاصل ہے اور ان کا ساتھ دینے کے لیے محمد نواز اور افتخار احمد بھی موجود ہیں۔ حارث رؤف پچھلے 2 میچوں میں کچھ بجھے بجھے سے لگے لیکن کیا معلوم کہ وہ فائنل میں قومی ٹیم کا سب سے خطرناک ہتھیار ثابت ہوجائیں۔
ایک جانب جہاں اوپنرز کی فارم واپس آنا خوش آئند ہے وہیں مڈل آرڈر کا اچھا کھیل جیت کی ضمانت بن سکتا ہے۔ بس اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ٹیم بن کر فائنل میں بہترین کھیل پیش کیا جائے اور 13 سال بعد ایک بار پھر چیمپئن بن کر وطن واپس آئیں۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔