’معجزات پر یقین نہیں تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کو فالو کرنا شروع کردیں‘
اگر آپ کو معجزات پر یقین نہیں تو کرکٹ اور خاص طور پر پاکستانی ٹیم کو فالو کرنا شروع کردیں۔ بس پھر چند ہفتے یا مہینے لگیں گے اور معجزات پر آپ کا پختہ یقین ہوجائے گا۔
کچھ عرصے پہلے ایک انٹرویو میں بھارتی کمنٹیٹر ہرش بھوگلے نے پاکستانی ٹیم کے بارے میں کہا تھا کہ ’جب آپ کو لگے کہ پاکستانی ٹیم فیورٹ ہے تو سمجھیں پاکستانی ٹیم ہار جائے گی اور جب پاکستانی کھلاڑیوں کو لگے کہ اب وہ دیوار سے لگ چکے ہیں، کوئی راستہ نہیں ہے تو اس وقت ان کا بہترین کھیل سامنے آجاتا ہے‘۔
کچھ ایسا ہی ناصر حسین نے 2017ء چیمپیئنز ٹرافی فائنل کے دوران کہا تھا اور پھر وہ بات زبان زدِ عام ہوگئی۔
کبھی ایسا لگتا ہے کہ مخالف ٹیم کے ساتھ ساتھ قدرت، باقی ساری ٹیمیں، آئی سی سی کے تمام قوانین اور امپائر تک پاکستانی ٹیم کے خلاف ہوچکے ہیں اور کبھی اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ کہاں وہ پاکستانی ٹیم جو بھارت کے خلاف آخری 3 اوور میں 48 رنز کا دفاع نہ کر پائی، زمبابوے کے خلاف ایک معمولی ہدف حاصل نہ کر پائی، بنگلہ دیش کی حمایت میں بارش کے نہ رکنے کی دعائیں کیں تو اچانک بارش رک گئی، نیدرلینڈز کو مشکل سے شکست دی اور پھر جب حالات بدلے تو جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کو آرام سے شکست دے دی۔ پھر جنوبی افریقہ کی مضبوط ٹیم نیدرلینڈز سے شکست کا شکار ہوگئی اور پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی۔
پاکستانی ٹیم سیمی فائنل میں تو پہنچ گئی لیکن اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی اوپننگ جوڑی نہ چل پائی۔ محمد رضوان نے 2 مرتبہ کچھ رنز تو بنائے مگر کسی بھی وقت مناسب فارم میں نظر نہیں آئے۔ دوسری جانب بابر اعظم کا اسکور ٹورنامنٹ کے 5ویں میچ میں پہلی بار 2 ہندسوں میں داخل ہوا، یہ اور بات ہے کہ اس بار بھی ٹائمنگ دُور دُور تک دکھائی نہیں دی۔
لیکن ان دونوں کھلاڑیوں کی خراب فارم کا اس بار یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ اور خاص طور پر دونوں اوپنرز کو یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ ان دونوں کے اسکور کے بغیر بھی پاکستانی ٹیم میچ جیت سکتی ہے۔ اب امید یہی ہے کہ یہ دونوں پورے 20 اوورز کھیلنے پر دھیان دینے کے بجائے اپنے اسٹرائیک ریٹ پر توجہ دیں گے۔
ان دونوں کھلاڑیوں کو خیال رکھنا ہوگا کہ پاور پلے کا فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔ بہت سی ایسی وکٹیں بھی سامنے آرہی ہیں جہاں جیسے جیسے گیند پرانا ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے تیزی سے رنز بنانا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسی وکٹوں پر مناسب اسکور بنانے کے لیے پاور پلے کا بہتر استعمال لازم ہے ورنہ جیت کی کوشش میں جہاں بیٹنگ آرڈر، باؤلنگ آرڈر اور ٹیم میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں تو اوپنر بدل کر دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
ٹیم منیجمنٹ پر ہم سب تنقید کرتے رہے ہیں لیکن یہاں ایک بات پر ان کی تعریف بھی کرنا چاہوں گا۔ یہ سچ ہے کہ خوشدل شاہ کو مسلسل کھلانا شاید ٹیم انتظامیہ کی غلطی تھی لیکن ایک اہم موقع پر اس غلطی کو سدھار لیا گیا۔ فخر زمان جب زخمی ہوکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوئے تو وہاں ریزرو میں سے محمد حارث کو کھلانا ایک رسک تھا۔ اگر اس میں ناکامی ہوتی تو قومی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوسکتی تھی اور ٹیم انتظامیہ پر شدید تنقید بھی ہوتی۔ لیکن حارث اس اعتماد پر پورا اترے اور شاید جنوبی افریقہ کے خلاف حارث کی اننگ ہی تھی جہاں سے پاکستانی ٹیم کا ٹیمپو بدل کر رہ گیا۔
بنگلہ دیش کے خلاف اس میچ کی اہم بات شاہین آفریدی کی 4 وکٹیں تھیں۔ شاہین آفریدی جو اس ٹورنامنٹ میں کافی عرصے بعد واپسی کر رہے تھے وہ شروع کے میچوں میں ردھم میں نظر نہیں آئے لیکن اب ان کا ردھم واپس آتا جا رہا ہے۔ شاہین کی اچھی باؤلنگ صرف اس ٹورنامنٹ کے لیے ہی نہیں، آگے کے لیے بھی ضروری ہے۔
پاکستانی باؤلنگ اس ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف آخری 3 اوور کے علاوہ بہت عمدہ رہی ہے۔ تمام باؤلر اپنا اپنا کردار بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ اب اگر بیٹسمین خاص طور پر اوپنرز اپنا بہترین کھیل پیش کریں اور ٹیم ایک یونٹ بن کر کھیلے تو ٹی20 ورلڈکپ کا فاتح بننا صرف 2 میچوں کی دُوری پر ہے۔
اگر معجزات کی اور انہونیوں کی بات ہو تو اس سلسلے میں جنوبی افریقہ کی ٹیم پاکستانی ٹیم سے کچھ آگے ہی ہے لیکن ان کی قسمت صحیح موڑ پر غلط رخ بدلتی رہی ہے۔ اگر پہلے پیراگراف میں کچھ نام بدلیں اور حالات و واقعات آگے پیچھے کریں تو کچھ ایسا ہی جنوبی افریقہ کے ساتھ بھی ہوا۔ کہاں یہ کہ جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے مضبوط ٹیم تصور کیا جارہا تھا مگر اچانک 2 مسلسل میچوں کی شکست نے جنوبی افریقہ کو بجائے سیمی فائنل، گھر کا راستہ دکھا دیا۔
جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی 1992ء میں ہوئی اور تب سے صرف ایک بار جنوبی افریقی کی ٹیم کی قسمت نے بھی ساتھ دیا اور جنوبی افریقہ کے کھلاڑی بھی اہم مواقع پر حوصلہ نہیں ہارے۔ یہ 1998ء میں ہونے والی آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی تھی جسے اس وقت آئی سی سی ناک آؤٹ ٹورنامنٹ کا نام دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کبھی جنوبی افریقہ کی ٹیم بارش کی وجہ سے رہ جاتی ہے اور کبھی اس کے کھلاڑی اچھا کھیلتے کھیلتے اچانک اہم میچوں میں ناکام ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اب تو جنوبی افریقہ کو ’چوکرز‘ کا خطاب ملے سالوں بیت گئے لیکن جنوبی افریقہ کی ٹیم اس ان چاہے خطاب کو خود سے دُور نہ کرسکی۔
یہ ٹھیک ہے کہ اس بار ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے زیادہ تر تجزیہ کاروں نے جنوبی افریقہ کو سیمی فائنل کی 4 متوقع ٹیموں میں شامل نہیں کیا تھا لیکن جب پاکستان کو بھارت اور زمبابوے کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جنوبی افریقہ نے بھارت کو شکست دی تو پھر اس ٹیم کو سیمی فائنل کے لیے فیورٹ قرار دیا جانے لگا تھا۔ مگر چوکرز کا خطاب ایک بار پھر اس ٹیم کے آڑے آگیا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہی ہوا۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔