فضائی میزبان کی آپ بیتی: آتش گیر مادہ اور بارڈر لائن
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
جب میں فضائی میزبان بننے کے لیے پہلا انٹرویو دینے پہنچا تو مجھے اور میرے گھر والوں کے ساتھ ساتھ وہاں موجود دوسرے امیدواروں کو بھی مکمل یقین تھا کہ میرا انتخاب نہیں ہونا۔
میرا حافظہ ساتھ نہیں دے رہا اس لیے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں موجود چند لڑکوں نے مجھے دیکھ کر سکون کا سانس لیا تھا کہ چلو ایک بندہ تو کم ہوا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا کیونکہ دوسرے اور تیسرے انٹرویو میں وہاں موجود کافی لوگ میں نے نہیں دیکھے۔
میری توقعات کے برخلاف انٹرویو انتہائی آسان تھا۔ بس بہ زبان فرنگی تھا اس لیے استطاعت کے مطابق انگریزی میں جو تیر چلائے وہ میری قسمت کے اندھیروں کو چیرتے ہوئے خوش قسمتی کے اجالوں میں ایسے جا بیٹھے جیسے مہنگائی کے اس دور میں متوسط آدمی کا دل اپنی تنخواہ دیکھ کر بیٹھ جاتا ہے۔ مطلب بالکل فٹ بیٹھ گئے۔ قد کاٹھ اور وزن بھی کیا گیا تو وہ بھی بارڈر لائن پر ہی نکلا کیونکہ اس سے کم ہوتا تو شاید میری فائل کے اندر نسخہ ہائے ’قیمیہ‘ رکھ کر مجھے چلتا کردیا جاتا کہ میاں کچھ کھایا پیا کرو۔
قد اس لیے ماپا جاتا ہے کہ جہاز میں موجود ہنگامی آلات تک رسائی ممکن ہوسکے۔ کچھ آلات نشستوں کے پیچھے، جمپ سیٹ کے نیچے اور ایسی ہی زمینی سطح پر موجود ہوتے ہیں جن کو بوقتِ ضرورت استعمال میں لایا جاسکتا ہے اور کچھ آلات اونچے بنے ہوئے خانوں میں موجود ہوتے ہیں جن میں آگ بجھانے کے آلات کے علاوہ آکسیجن مہیا کرنے والے سلنڈر کے ساتھ ساتھ ہنگامی ٹرانس میٹر بھی موجود ہوتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے بارڈر لائن پر چلتے چلتے انتخاب ہوگیا اور تربیتی امتحانات بھی امتیازی نمبروں سے پاس کرلیے۔ شروع کے دنوں میں اپنی ’وضع‘ کی وجہ سے کافی ’قطع‘ نظری کا سامنا رہا۔ چونکہ تعلق قدرتی طور پر’قبیلہ عمر چوراں’ سے تھا اس لیے ساتھیوں کی طرف سے ’چائلڈ لیبر‘ کی اصطلاح عام سننے کو ملتی۔
ایک رات اندرونِ ملک پرواز سے واپس آیا۔ پرواز چھوٹی تھی لیکن کافی محنت طلب۔ نوکری کے شروع کے دن تھے۔ کہاں رات 9 بجے محترمہ عشرت فاطمہ ( پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر) کو دیکھتے ہی سو جانے والی روٹین تھی اور کہاں یہ روٹین کہ نہ دن کا پتا نہ رات کا۔ خیر صبح سویرے آرام کا وقت پورا ہوتے ہی آفس سے کال آئی کہ آپ نے برمنگھم جانا ہے، تیاری پکڑیں شاباش، عملہ کم تھا لہٰذا آپ کو اسٹینڈ بائے ہونے کی وجہ سے بلایا جا رہا ہے۔ بیگ تو تیار ہی ہوتا تھا بس فٹافٹ تیاری کے نام پر ایک جیکٹ پکڑی، گاڑی آئی اور ہوائی اڈے کی طرف چل پڑا۔
میں عین وقت پر پہنچا، معلوم ہوا کہ عملہ جہاز پر پہنچ چکا ہے بس میرا انتظار ہے۔ بھرتی کے وقت کاغذات میں میرا نام ’ایم خاور جے صدیقی‘ درج ہوچکا تھا جو کچھ عرصہ بعد میں نے مختصر کروا لیا تھا مگر اس وقت جہاز پر اسی نام کو لے کر میرا انتظار ہو رہا تھا۔ اس گرانڈیل نام کے عوض جب جہاز کے عملے نے میرا ’ڈیل‘ دیکھا (کیونکہ ڈول تو تھا کوئی نہیں) تو سب نے جبری مسکراہٹ سے میرا بھرپور استقبال کیا۔ میرا ’ڈیل‘ باقی عملے کو کافی ’گراں‘ گزرا تھا۔
کپتان صاحب کو معلوم ہوا کہ میں آگیا ہوں تو مجھے بلاوا بھیجا۔ کاک پٹ میں حاضر ہوا تو کپتان نے کہا یہ ہیری پورٹر کو کس نے بھیج دیا ہے۔ بس صاحبو اس دن سے یہ میرا ایک اور نام پڑگیا جو آج تک چل رہا ہے۔ میں نے سلام دعا کے بعد اپنی دی گئی پوزیشن پر رپورٹ کی اور پرواز کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
مسافر آنا شروع ہوئے۔ ایک خاتون چھوٹی بچی کے ساتھ جہاز کے اندر داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ’ذرا ایک کھانا تو نشست نمبر فلاں پر پہلے پہنچا دیں بڑی بھوک لگی ہے بچی کو‘۔
مجھے ایک دم ایسا لگا جیسے میں ہوائی جہاز کی بجائے کسی چائے پراٹھے والے کیفے میں کھڑا ہوں۔ خیر یہ بات نظر انداز کرکے سب بورڈنگ کروانے لگے۔ سب لوگ بیٹھ گئے تو ان خاتون نے ایک سینیئر ساتھی کو روک لیا اور پھر وہی بات کرنے لگیں۔ روانگی کا وقت تھا لہٰذا ان کو ایک سینڈوچ دے کر خلاصی کی گئی۔ شکر ہے جب سروس شروع ہوئی تو وہ دوبارہ عملے کی جانب آتے آتے رک گئیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کچھ لوگ بیت الخلا جانے کے لیے اور جہاز ہی میں کھانے کے لیے بالترتیب بھرے اور خالی پیٹ ہوائی اڈے کے انتظار گاہ میں کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔
’عجیب الطرفین‘ خاتون تھیں کہ جب پینے کے لیے آم یا سنگترے کے جوس کی پیشکش کی تو گاجر کے تازہ جوس کی فرمائش کرنے لگیں۔ معذرت کرکے آگے بڑھنے لگا تو میری جبری مسکراہٹ میں بے چارگی کا عنصر دیکھ کر سنگترے کا جوس لینے پر آمادہ ہوئیں۔ اضافی کمبل نہ ملنے پر سیخ پا ہوئیں اور جہاز کی آب و ہوا کو ملکہ کوہسار مری اور کاغان سے تشبیہ دی جس سے ہمیں دلی مسرت اور کامیابی کا احساس ہوا کہ اب ہمارے یہاں یہ سہولت بھی موجود ہے۔
غالباً 215ویں بار ایک مسافر کو پانی دے کر گیلی (galley) میں واپس آیا تو وہی خاتون جہاز کے دروازے کی طرف منہ کیے کھڑی تھیں۔ میں چپ چاپ اپنے کام میں لگا رہا۔ وہ بھی کھڑی رہیں۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ اتنی خاموش کیوں ہیں۔ آخر میں نے پوچھ لیا کہ آپ ایسے یہاں دروازے کے پاس کیوں کھڑی ہیں۔ نشست پر تشریف لے جائیے یا اگر کوئی خدمت ہے تو بتائیں۔
جہاز کے دروازے کی جانب اشارہ کرکے کہنے لگیں کہ ایک خاتون اندر ہیں وہ باہر نکلیں گی تو میں جاؤں گی۔ میں فوراً سمجھ گیا اور ان سے کہا کہ اگر کوئی خاتون اس راستے سے گئی ہیں تو پہلی بات یہ کہ وہ ’اندر‘ نہیں ’باہر‘ گئی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر وہ چلی ہی گئی ہیں تو واپس نہیں آسکتیں۔
وہ کنفیوز ہوگئیں، تو میں نے عرض کی کہ محترمہ یہ جہاز کا دروازہ ہے بیت الخلاء کا نہیں۔ جس دروازے کے لیے آپ یہاں کھڑی ہیں وہ زرا دائیں طرف کو ہے۔
بحث تو انہوں نے کرنی تھی چنانچہ کہنے لگیں، تو یہ ’اخراج‘ کی تختی اس دروازے کے اوپر لگوائیں، اور جھٹ سے اندر چلی گئیں جس کی وجہ سے میں پہلی بار ان کو جواب دینے سے بچ گیا۔
بس کسی بھی ناخوشگوار واقع کی بارڈر لائن پر چلتے ہوئے یہ پرواز اختتام کو پہنچی۔ اتنی سہولیات دینے کے باوجود ان خاتون نے واپسی پر شکریہ ادا کرنا تو درکنار عملے کی جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کیا۔ میں ان کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ شاید ان کے سامان پر ہی نام کی جگہ آتش گیر ’مادہ‘ لکھا ہو لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ ایسا نہیں تھا۔ خیر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ مادہ کی مزید آتش ’زدگیوں‘ سے بچت ہوئی اور پرواز ختم ہوئی۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔