نقطہ نظر

بھیگی ہوئی کہانیاں

بوڑھے اللہ ڈنو نے انہیں دیکھ کر ساتھ بیٹھے اپنے ہم عمر کالے خاں کی طرف دیکھا، دونوں نم آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں مسکرا دیے۔

چھوٹی سی بات بڑھتے بڑھتے رنگ بدل گئی۔ رنگ بھی تعصب کا، کالا سیاہ، جسے سرخی میں ڈھلتے دیر نہیں لگتی۔ ہوا بس یہ تھا کہ جلال چانڈیو کا گیت گاتا اپنی دُھن میں مگن خمیسو سائیکل لہراتا چلا جارہا تھا کہ گلی کا موڑ مڑتا سعید اچانک سامنے آگیا۔ بچاتے بچاتے بھی ٹکراؤ ہوہی گیا۔ سعید کے کندھے پر رکھا آٹے کا تھیلا مدت سے کھڑے اور سڑتے پانی میں جاگرا۔ ٹکر سے جسم کو پہنچنے والی تکلیف سے کہیں زیادہ آٹا ضائع ہونے کا احساس سعید کے لیے کربناک تھا۔

خمیسو کے ہونٹوں سے معذرت کے الفاظ نکلتے نکلتے اور اس کے ہاتھ معافی کے لیے جڑتے جڑتے سعید کا تھپڑ اس کا گال سرخ کرچکا تھا۔ تھپڑ سے زیادہ سعید کی گالی نے خمیسو کے رخسار لال کردیے۔ مغلظات کا تبادلہ ہاتھا پائی میں بدلا، لوگ بیچ بچاؤ کے لیے آگے بڑھے، کچھ نے سعید کو تھاما، کچھ نے خمیسو کو جکڑا، ہاتھ رک گئے، مگر تپتے چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کو لعن طعن جاری رہی۔

‘تم باہر سے آئے لوگ ہم دھرتی واسیو’

خمیسو کے الفاظ نہیں تیر تھے، سیدھے دل میں پیوست ہوئے اور جواباً سعید نے ‘تم تھے کیا’ کے لفظوں کے ساتھ طعنوں کے کتنے ہی خنجر خمیسو کے سینے میں اتار دیے۔

ہاتھ اٹھاتے، مکے برساتے، گریبان پکڑے، غلیظ الفاظ کی گندگی اچھالتے ہوئے بھی سعید اور خمیسو ایک دوسرے کے لیے غیر نہیں لگ رہے تھے، لیکن ان طعنوں نے جانے کیا جادو کیا کہ وہ 2 اجنبیوں کی طرح الگ الگ راستوں پر چل دیے۔ بہت نڈھال، بڑے تھکے ہوئے۔

اس واقعے کے 2 دن بعد ہی سیلاب نے اس گاؤں کا رخ کرلیا۔ چیختا چنگھاڑتا پانی کھیتوں سے گزر کر گلیوں اور گھروں کو روندنے لگا۔ گاؤں کے باسی ایک دوسرے کی حالت سے بے خبر کچھ فاصلے پر سر اٹھائے کھڑی پہاڑی کی طرف رواں تھے، گھرانے بکھر چکے تھے، اپنے اپنوں سے بچھڑ چکے تھے۔ گاؤں اور پہاڑی کے بیچ کی زمین دریا بنی ہوئی تھی، جس میں تیر کر ہی زندگی بچانا ممکن تھا۔

صدمے اور تھکاوٹ سے بے حال گاؤں والوں نے پہاڑی پر پہنچ کر ایک دوسرے کی خبر لی تو پتا چلا، سب پہنچ چکے ہیں، بس سعید، اس کی ماں، خمیسو اور اس کے 2 بچے کہیں نظر نہیں آرہے۔

‘وہ کوئی آرہا ہے’

لہروں کو تکتے ایک بچے نے صدا لگائی۔

انہوں نے اترتے سویرے کی ملگجی روشنی میں پہاڑی سے نیچے لہریں مارتے پانی میں ایک وجود کو دیکھا جو دُور سے غیرانسانی سا لگ رہا تھا۔ کچھ دیر میں اس کے پیچھے ویسا ہی ایک اور وجود ابھرا۔ رفتہ رفتہ وہ پہاڑی کے دامن تک پہنچ گئے، کچھ دیر بعد وہ پہاڑی پر بے تابی سے اپنا انتظار کرتے لوگوں کے سامنے تھے۔

ایک خمیسو تھا جو سعید کی بوڑھی ماں کو کمر پر اٹھائے ہوئے تھا۔ دوسرا تھا سعید جو خمیسو کے ایک بچے کو کمر پر لادے اور دوسرے کو سینے سے لگائے ہوئے تھا۔

بوڑھے اللہ ڈنو نے انہیں دیکھ کر ساتھ بیٹھے اپنے ہم عمر کالے خاں کی طرف دیکھا، دونوں نم آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں مسکرا دیے۔

بڑا حیرت انگیز منظر تھا۔

آج مسجد میں عورتیں بھی تھیں اور صرف تھیں ہی نہیں بلکہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ کوئی لڑکی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی تو کوئی لیٹی ہوئی اپنی بوڑھی ہڈیوں کو آرام دے رہی تھی۔

گوٹھ کی اس اکلوتی مسجد کے امام مولوی اللہ بخش نے ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی تو غلام حسین کی 6 سالہ بیٹی زبیدہ کو ڈانٹ کر مسجد سے نکالا تھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتے کھیلتے مسجد کے صحن میں آگئی تھی۔ ‘اڑے مسجد میں مائی کا کیا کام؟’ مولوی صاحب نے بڑی نرمی سے کہا تھا مگر ان کی کراری آواز میں اتنا رعب تھا کہ بچی سہم کر گھر کی طرف دوڑ پڑی تھی اور آج زبیدہ منبر پر چڑھی بیٹھی تھی۔

لیکن ابھی حیرت کی انتہا ہونا باقی تھی۔

‘پتا نہیں امر لال کا کیا ہوگا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کہاں جائے گا انہیں لے کر’۔

دروازے کے قریب بیٹھے پریل نے پختہ ٹیلے پر بنی مسجد سے نیچے تالاب بنے اپنے گوٹھ کو دیکھتے ہوئے دوست محمد سے کہا۔

‘اللہ مالک ہے بابا، اب مسجد میں تو وہ نہیں آسکتا ناں، مولوی کیسے آنے دے گا، بابا دین کا معاملہ ہے’۔

‘اڑے مولوی صاحب ہے کدھر’، وضوخانے کے پاس سے اٹھ کر آنے والے رجب علی نے دوست محمد کی بات سن کر ادھر اُدھر دیکھا۔

ابھی اس کا جملہ ختم ہی ہوا تھا کہ مولوی اللہ بخش مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ وہ اکیلے نہیں تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں بڑی سی گٹھری تھی، دوسرے میں امر لال کا سانولا ہاتھ۔

‘آجا امّاں آجا’ مولوی اللہ بخش نے دروازے پر اپنے بچوں کے ساتھ جھجھکی کھڑی امر لال کی بیوی کو مخاطب کیا۔ وہ امر لال کا ہاتھ تھامے آگے بڑھے اور اسے بڑی شفقت سے مسجد کے برآمدے میں لا بٹھایا۔

‘سائیں رب نواز بریانی بانٹ رہا ہے، سب چلو’۔

اعلان سنتے ہی چادروں، اجرکوں اور رِلّیوں سے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے خیموں میں ہلچل مچ گئی۔ بھوک سے ہلکان اور نقاہت کا شکار لوگ جو سرکار اور وڈیروں سب سے مایوس ہوکر خیموں میں، باہر بچھی چارپائیوں پر اور زمین پر چپ چاپ پڑے تھے ان میں یکایک زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ برتن اور تھیلیاں لیے وڈیرے رب نواز کی حویلی کی طرف دوڑ پڑے۔

سیلاب سے گھر بار اور کھیتوں کے تباہ ہونے کے بعد وہ اپنے گاؤں کے قریب ایک کھلے میدان میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ کوہستانی علاقے کی یہ زمین پانی میں ڈوب جانے والے گاؤں سے اونچی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے محفوظ ٹھکانا تھی۔

پانی کے سفاک ریلوں سے خود کو بچا لے آنے والے یہ لوگ اب ایک اور آفت یعنی بھوک کا شکار تھے۔ سیلاب تو ایک ہلے میں ساتھ لے جاتا اور ڈبو کر یا کہیں پٹخ کر مار ڈالتا مگر بھوک تو آہستہ آہستہ بڑی اذیت دے کر مار رہی تھی۔ جب خوراک سے محروم بچے تڑپ تڑپ کر روتے تو ماں باپ کے معدوں کا خلا بے معنی ہوجاتا، سکڑتے معدوں سے پھٹتے دل کو سنبھالنا زیادہ مشکل تھا۔

ایسے میں وڈیرہ رب نواز کے ہرکارے کی پکار سن کر ان کی بجھتی آنکھیں ہی نہیں بھوک بھی چمک اٹھی تھی۔ وڈیرا رب نواز اس علاقے کا بہت بڑا جاگیردار ہی نہیں یہاں کی سیاست کا نمایاں نام بھی تھا۔ وہ ہر انتخاب میں حصہ لیتا، کبھی ہارتا، کبھی جیتتا، لیکن ہار کر بھی اتنے ووٹ ضرور مل جاتے کہ اگلے انتخاب میں کسی نہ کسی پارٹی کا ٹکٹ اس کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔

اس کی حویلی کی آسمان کو چھوتی دیواروں کے بیچ بنے اسی قامت کے دروازے پر عارضی خیمہ بستی سے آنے والوں کی بھیڑ لگی تھی۔ کچھ دیر میں دروازہ کھلا اور سب کے سب ایک دوسرے کو دھکیلتے اندر جاپہنچے۔

وڈیرے کے آدمیوں نے جھڑکتے اور دھکے دیتے ہوئے انہیں ایک قطار میں کھڑا کردیا۔ پھر ایک ایک کرکے انہیں دروازے سے ملحق بڑے سے کمرے میں بھیجا جانے لگا جہاں سے بریانی کی خوشبو اُڑ کر قطار کے آخری سرے تک پہنچ رہی تھی اور ان کی بھوک کا مذاق اڑا رہی تھی۔

دروازے سے اندر جانے والا ہر شخص وہاں کچھ دیر رکتا، پھر دوسری طرف سے باہر نکلتا تو اس کے برتن اور تھیلیاں بریانی سے لبالب بھرے ہوتے۔

15، 20 لوگوں کے بعد آخر شاہ نواز کی باری بھی آگئی۔ اندر قدم رکھتے ہی اس کی آنکھیں کمرے کی دیوار کے ساتھ درجنوں کی تعداد میں لگی بریانی کی دیگوں پر گڑ گئیں وہ آنکھوں سے نہیں پیٹ سے دیکھ رہا تھا، ورنہ ایسا کیسے ممکن تھا کہ دروازے کے عین سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھا وڈیرا رب نواز نظر آتا اور وہ اسے ہاتھ جوڑ اور سرجھکا کر سلام نہ کرتا۔

‘ادھر جا، سائیں کے پاس’۔

کمر پر ٹہوکا دیتے ہوئے اسے کرخت آواز میں ہدایت ملی، اور وہ دھیرے دھیرے بڑھتا دونوں ہاتھوں کی لکیریں ملائے وڈیرا رب نواز کے قریب پہنچ گیا۔

‘نام؟’

وڈیرے کے ساتھ بیٹھے شخص کے پوچھنے پر اس نے دھیمے لہجے میں کہا ‘شاہ نواز’، بریانی کی مہک اسے بے تاب اور 2 سال کی بیٹی کے رونے بلکنے کی کانوں میں بسی آواز بے چین کیے تھی۔

‘قرآن پر ہاتھ رکھ اور قسم کھا کہ الیکشن میں مجھے ووٹ دے گا، تو بھی تیری بیوی بھی اور گھر کے سارے لوگ بھی’، وڈیرے رب نواز نے کونے میں میز پر رکھے قرآن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

شاہ نواز کا جھکا سر اچانک بلند ہوگیا، سیلاب کی اٹھتی لہروں کی طرح، اس کے جڑے ہاتھ یوں کھلے جیسے دریا اور نہروں کے بند ٹوٹے تھے، آنکھوں میں حیرانی اور نفرت ایک ساتھ ابھریں۔

‘یہ تم سے چھینتے ہیں، پھر وہی چھینا ہوا تمہیں بھیک کی طرح دیتے ہیں، اور تمہارے سر ان کے احسان کے بوجھ تلے جُھک جاتے ہیں’۔

اسے غلام محمد کی بات یاد آئی جو گاؤں کے نوجوانوں کو ایک جگہ جمع کرکے انہیں گھنٹوں سمجھاتا رہتا۔ ‘اڑے بابا جاگو’ اس کا تکیہ کلام تھا، جو کچھ دیر سمجھانے کے بعد وہ دہراتا۔

8ویں پاس شاہ نواز نے غلام محمد سے کئی کتابیں لے کر پڑھی تھیں۔ کچھ سمجھ میں آیا تھا کچھ نہیں، لیکن اتنا ضرور جان چکا تھا کہ سارے انسان برابر ہیں اور یہ محنت کر کرکے تھک جانے والے کھردرے میلے کُچیلے ہاتھ ہیں جن کی بدولت کچھ صاف ستھرے ہاتھ نوٹ گن گن کر تھک جاتے ہیں۔

‘پر سائیں رب نواز اچھا بندہ ہے’۔

وہ جاگیرداروں کے بارے میں غلام محمد کے خیالات سننے کے بعد کہتا تو غلام محمد اسے گھورنے لگتا۔

وڈیرا رب نواز اچھا ہی تو تھا۔ آتے جاتے گاﺅں کے لوگ نظر آجاتے تو گاڑی رکوا کر ان کا حال چال پوچھتا، شاہ نواز کا دوست کریم سڑک سے گزرتے ہوئی ایک کار کی زد میں آکر زخمی ہوگیا تھا تو وڈیرے رب نواز نے اپنی گاڑی پر اسے علاج کے لیے شہر بھجوایا تھا اور شہر میں گاؤں کے اللہ داد کا بیٹا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا تو وڈیرے رب نواز ہی نے تو ایمبولینس سے اس کی لاش منگوائی تھی۔

لیکن آج اس کے سامنے وہ رب نواز بیٹھا تھا جس کی تصویر کشی غلام محمد کرتا رہا تھا، کسی کا نام لیے بغیر بس وڈیرا اور جاگیردار کہہ کر۔

وہ آگے بڑھا اور قرآن پر ہاتھ رکھ دیا۔

‘میں اللہ سائیں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے وڈیرا رب نواز کو ہر الیکشن میں ووٹ دیا اور اللہ کی کتاب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ کبھی وڈیرا رب نواز کو ووٹ نہیں دوں گا’۔

وہ حلف اٹھاتے ہی مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا اسی دروازے سے باہر نکل گیا جس سے کمرے میں آیا تھا۔

دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ خالی تھے، لیکن اس کا چوڑا سینہ لاوے سے بھرا ہوا تھا اور آنکھیں پانی سے۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔