جب جل، اجل بن جائے: سیلاب اور آفات کا ادب اور فلموں میں تذکرہ
آج ہر سو پانی ہی پانی ہے، اور یہ پانی بربادیوں کی کہانی سناتا ہے۔
سیلاب نے پاکستان اور اس کے باسیوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس قدرتی آفت نے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے تازہ ترین اعداد و شمار ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔
جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے، سیلاب اور بارشوں سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد براہِ راست متاثر ہوچکے ہیں۔ جاں بحق افراد کی تعداد نے 1136 کا ہندسہ عبور کرلیا ہے۔ 10 لاکھ 51 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے بڑی تعداد میں مویشی بھی اپنی جان سے گئے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستان قدرت آفات کے نشانے پر آیا۔ ہمیں 2005ء کا زلزلہ یاد ہے جس میں 86 ہزار افراد اپنی جان سے گئے تھے۔ 2010ء میں مون سون کی تباہ کن بارشوں نے ایک ملک گیر سیلاب کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس سیلاب نے خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے گئے۔ گزشتہ چند برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء میں آنے والی گرمی کی لہر کون بھول سکتا ہے؟ وہ لہر کراچی پر قہر بن کر ٹوٹی اور ہزار سے زائد افراد اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ الغرض ہم ایک عرصے سے افتاد کی زد پر ہیں۔
حالیہ سیلاب اور بارشیں اتنی بڑی آفت ہیں کہ اس پر گریہ کرنے کے لیے الفاظ کم پڑجائیں، صفحات بے معنی ٹھہریں اور کوششیں رائیگاں جائیں۔ اس کے باوجود یہ لازم ہے کہ اس سانحے کا تذکرہ کیا جائے، یہ فنونِ لطیفہ کا موضوع بنے اور اس پر فلمیں اور ڈاکومینٹریز بنائی جائیں۔
یہ عمل نہ صرف اس سانحے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کی مدد سے ہم اپنی خامیوں کو شناخت کرتے ہوئے مستقبل میں اس نوع کی مشکلات سے بچاؤ کے امکانات تلاش کرسکتے ہیں۔ اسی باعث کسی بڑے سانحے پر اس عہد کے ادیبوں، دانشوروں اور فنکاروں کا ردِعمل خصوصی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
اردو کے ادیب اور شعرا نے بھی ان افتاد کو اپنے اپنے اسلوب اور اپنے اپنے ڈھب پر موضوع بنایا اور اس سے جڑے المیوں کی منظر کشی کی۔
اس ضمن میں ذہن میں پہلا نام راجندر سنگھ بیدی کا آتا ہے جن کے شاہکار افسانے ‘دس منٹ بارش میں’ کے ذریعے ہم مختلف طبقات کے برسات سے متعلق متضاد تجربات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ افسانے میں ایک جانب جہاں یہ بارش امرا کے لیے تفریح و تسکین کا باعث بنتی ہے، وہیں دوسری جانب غربا کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ ایک سطر ملاحظہ کیجیے:
‘بارش میں ایشور کی دَیا سے کوئی نرم و گرم کپڑے زیب تن کرتا ہے تو کوئی عریاں ہوجاتا ہے۔ کسی کی آمدنی دوگنی ہوجاتی ہے تو کسی کی کھپریل ٹوٹ جاتی ہے۔ کوئی شب سمور گزارتا ہے، کوئی شبِ تنور!’
کچھ ایسے ہی مناظر ہمیں آسکر ایوارڈ یافتہ جنوبی کوریا کی فلم ‘پیراسائٹ’ میں نظر آتے ہیں جس کے باکمال ہدایتکار بونگ جون ہو نے شہر میں ہونے والی طوفانی برسات سے متعلق امیر اور غریب طبقے کے الگ الگ ردِعمل کو دکھایا ہے۔ جہاں ایک شخص کا گھر ڈوب گیا ہے وہیں دوسرے کو یہ خوشی ہے کہ برسات کے بعد ماحول صاف ہوگیا۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے ادیب رحمٰن عباس کے ناول ‘روحزن’ کا ابتدائیہ بھی تیز بارش اور بڑی سمندری لہروں سے شروع ہوتا ہے۔ اسی طوفانی منظر پر کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔
اس موضوع پر لکھتے ہوئے ممتاز فکشن نگار انتظار حسین کے ڈرامے ‘پانی کا قیدی’ کا بھی خیال آتا ہے۔ خالد طور کے ناول ‘کانی نکاح’ میں جس طرح طوفانی آندھی کی منظرکشی کی گئی ہے اس کی مثال بھی اردو میں کم ملتی ہے۔ محمد امین الدین کا ناول ‘بار خدا’ بھی قدرتی آفات کی منظرکشی کرتے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں 2005ء کے زلزلے پر کہانی بنی گئی تھی۔
شعرا نے بھی سیلاب اور طوفانوں پر اشعار باندھے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا خیال میر تقی میر کا آتا ہے جن کا ایک مصرعہ بہتوں نے اپنے تبصرے میں دہرایا کہ
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
غالب کے ہاں بھی عاشق کی بے کسی سے جنم لینے والے آنسوؤں کو سیلاب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
اشک امرتسری کا ایک شعر بھی یاد آتا ہے جو زندگی میں حادثات کے تسلسل کو ایک طوفان ٹھہراتے ہیں
یہ کشتی حیات یہ طوفان حادثات
مجھ کو تو کچھ خبر نہ رہی آر پار کی
شہزاد احمد نے سیلاب کے بعد کی بربادی کو یوں اشعار کی شکل دی کہ
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے
عالمی ادب میں بھی ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں، جن کے تذکرے کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔ فی الحال برطانوی ادیبہ، جارج ایلیٹ کے ناول The Mill on the Floss کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ یہ ناول میگھی اور اس کے بھائی ٹام کے بنتے بگڑتے رشتے کے گرد گھومتا ہے جن کے باہمی اختلافات بالآخر طوفانی بارش اور دریا کی طغیانی میں ڈھے جاتے ہیں۔ دیگر افراد کو بچانے کی کوشش میں ان کی کشتی الٹ جاتی ہے اور وہ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں ممتاز ادیب تھامس ہارڈی کے ناول The Return of the Native میں بھی نظر آتی ہے۔ وہاں تمام کردار اپنے اپنے المیوں کے ساتھ ایک طوفانی بارش کی زد میں آجاتے ہیں اور اس کی ہیروئن Eustacia اپنی بدبختی سے نجات کے لیے خود کو منہ زور دریا کے سپرد کردیتی ہے۔ اس ناول کے اختتامیہ میں تمام المیے تیز برسات میں دریا کنارے رونما ہوتے ہیں۔ دونوں ہی ناول کو مختلف اوقات میں فلم اور ٹی وی سیریز کے قالب میں بھی ڈھالا گیا ہے۔
فلمز کا تذکرہ نکلا ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قدرتی آفات کو سب سے مؤثر انداز میں فلم کے پردے ہی پر پیش کیا گیا، بالخصوص جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد اس کی تباہ کاریوں کو حقیقی طور پر فلمانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ گو فلم کا بنیادی مقصد ان افتاد سے متعلق شعور پیدا کرنا نہیں، بلکہ تفریح فراہم کرنا ہے، البتہ تخلیقی مزاج کے حامل ہدایتکاروں نے یہ اہتمام ضرور کیا کہ ان کی فلم ماحولیاتی تبدیلیوں اور انسانی قربانیوں کو منظر کرنے کی قابلیت رکھتی ہو۔
اس ضمن میں سن 2012ء کی فلم The Impossible نمایاں ہے جو 2004ء میں بحرہند میں آنے والے سونامی کی تباہ کاریوں کی منظر کشی کرتی ہے۔ یہ ایک ہسپانوی معالج اور پبلک اسپیکر، ماریا بیولن کے ساتھ پیش آنے والے حقیقی واقعے پر مبنی ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اس ہولناک سونامی کا شکار ہوئی تھیں۔ ناقدین اور ناظرین اس فلم میں امید و عزم اور حوصلے کی پیشکش کو سراہتے ہیں۔
اس صنف میں نارویجن فلم The Wave کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو ناروے کی جانب سے آسکر کے لیے آفیشل انٹری بھی تھی۔ گو یہ فلم آسکر نہیں جیت سکی مگر سونامی کی 80 میٹر اونچی لہروں کا مقابلہ کرتے ایک جیولوجسٹ کی اس کہانی کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔
1998ء میں ریلیز ہونے والی Deep Impact کو سائنسی پہلوؤں کا مؤثر انداز میں احاطہ کرنے کے لیے سراہا جاتا ہے۔ یہ فلم زمین کی سمت آتے ایک بڑے دمدار ستارے کی کہانی بیان کرتی ہے جس سے مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقوام ایک ہوجاتی ہیں۔ فلم میں دمدار ستارے کے ایک حصے کی زمین سے ٹکرانے اور ہولناک تباہی کی منظرکشی کی گئی ہے۔
2004ء کی فلم The Day After Tomorrow کو حقیقت کی منظرکشی کے بجائے تخیلاتی مبالغہ آرائی کے لیے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے مگر آج اسے ان فلموں میں اہم مقام حاصل ہے جنہوں نے قدرتی آفات کی بڑے کینوس پر منظرکشی کی۔
یہ فلم ایک کتاب The Coming Global Superstorm پر مبنی ہے جس میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد ایک نئے برفانی دور کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ کچھ یہی معاملہ 2015ء میں ریلیز ہونے والی San Andreas کا بھی ہے، گوکہ اس کے پلاٹ اور غیر ضروری مبالغہ آرائی پر تنقید کی گئی ہے مگر اس کے بصری اثرات اور فنکاروں کی پرفارمنس کو سراہا گیا۔
جیسے عرض کیا کہ یہ فہرست طویل ہے۔ فلم ہوں یا فکشن، دونوں ہی میدانوں میں قدرتی آفات کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا لیکن کیا پاکستانی آرٹسٹ اور ادیب حالیہ تباہ کاریوں پر اپنا فنکارانہ ردِعمل تاریخ کے اوراق پر رقم کریں گے؟
یہ جاننے کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
لکھاری مضمون نگار، استاد، قاری اور فلم بین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔