پانی سے گھرے ٹیلوں پر بیٹھی حاملہ عورتیں!
خبر ہے کہ تقریباً 7 لاکھ عورتیں، ممکن ہے 8 لاکھ ہوں یا 9، اور ان کے پیٹ میں موجود 7 لاکھ بچے! تقریباً 70 ہزار کی زچگی جلد متوقع!
سیلاب، بے گھری، کھلا آسمان، ننگی زمین اور پھولے ہوئے پیٹ والی 7 لاکھ عورتیں!
ناجانے کیا کھاتی ہوں گی؟ ایک ٹکڑا روٹی کا اور 2 گھونٹ پانی؟ شاید پیاس نہ بجھنے کی صورت میں ارد گرد ٹھاٹھیں مارتا پانی۔ پیاس کہاں دیکھنے دیتی ہے پانی کہ گندا ہے یا صاف؟
ممکن ہے روٹی کا ٹکڑا بھی میسر نہ ہو، پیاس سے زبان کانٹا بن چکی ہو معدہ دہائی دیتا ہو، آنتیں بل کھاتی ہوں اور دُور دُور تک کچھ نظر نہ آتا ہو۔
لیکن پیٹ میں جو بیٹھا ہے، اسے کیا خبر کہ باہر سب کچھ بہہ چکا اور ماں اونچے ٹیلے پر بیٹھی ہے۔ وہ تو بھوکا ہے، شدید بھوکا اور پیاسا بھی۔ ماں کو لاتیں مارتا ہے، دونوں ہاتھوں سے نوچتا ہے، چیختا ہے، ماں بھوکا ہوں میں، ماں کچھ تو دو مجھے کھانے کے لیے۔
قحط زدہ ماں اِدھر اُدھر دیکھتی ہے، کچھ نظر نہیں آتا، آہ بھر کر پیٹ تھپتھپاتے ہوئے کہتی ہے، میرے بچے، صبر کچھ دیر اور صبر۔
یہ 21ویں صدی کی کربلا ہے۔
مزید پڑھیے: منشی پریم چند کی بدھیا اور اکیسویں صدی کی عورت!
جانتے ہیں سب حاملہ کو اچھی غذا ملنی چاہیے، فولاد اور کیلشیم کی گولیاں کھانی چاہئیں تاکہ پیدا ہونے والا مضبوط جسم کا مالک ہو۔ ماں کے جسم میں خون کی کمی نہ ہو کہ جب زچگی میں خون ضائع ہو تو خون کی کمی سے مر نہ جائے۔
لیکن سیلاب میں اونچے ٹیلے پر بیٹھی عورت کے پاس تن ڈھانپنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ نہیں، پیٹ میں تڑپتے بچے کو کہنے کے لیے کچھ نہیں، فولاد اور کیلشیم کی گولیاں اور اچھی غذا دیوانے کا خواب ہے اس کے لیے۔
ایک اور سوچ سرسراتی ہے، خبر کے مطابق 7 لاکھ میں سے 70 ہزار کی زچگی سر پر کھڑی ہے تو کچھ تو ایسی بھی ہوں گی جو درد زہ میں مبتلا ہوں۔
سوال دستک دیتا ہے، زچگی میں ان کی مدد کون کرے گا؟ کون بچے کی نال کاٹے گا اور کس چیز سے کاٹے گا؟
بہت برسوں پہلے دیکھی گئی فلم یاد آگئی جب زچہ اپنے نومولود کی نال دانتوں سے چبا کر کاٹتی ہے۔ کیا وہ بھی ایسی ہی بے سہارا تھی، یہ یاد نہیں۔ اوہ خدایا ان 70 ہزار میں سے کتنی عورتیں ایسا کرنے پر مجبور ہوں گی؟
فرض کریں اگر کسی نے قینچی ڈھونڈ بھی لی تو کیا وہ جراثیم سے پاک ہوگی؟ کیا زچہ و بچہ ٹیٹنس کے ہتھے چڑھنے سے بچ جائیں گے؟
اگلے سوال ہمیں مزید ڈراتے ہیں۔
اگر زچگی کے بعد خون بند نہ ہوا تو؟ آنول جسم سے باہر نہ آئی تو؟
جان لیجیے کہ اگر آنول جسم سے جڑی رہے اور خون پرنالے کی طرح بہتا رہے تو عورت کی زندگی کے آخری لمحات ہوتے ہیں وہ۔ 4، 5 لیٹر خون ہی تو ہوتا ہے جسم میں وہ بھی جس کی خوراک اچھی ہو۔ بھوک سے مارے نقاہت زدہ جسم میں اس سے کہیں کم۔ اور جو 8، 10 بچے اپنے جسم سے بنا چکی ہو اس کے خون کی جگہ تو رگوں میں پانی ہی رہ جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: پھٹی ہوئی آنول، اندھیرا اور راز!
فرض کرلیجیے کہ 4 لیٹر ہے زچہ کے پاس، اب اگر اس میں سے آدھا بہہ جائے تو موت ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ 2 لٹر پیپسی کی بوتل دیکھ لیجیے انڈیل کر، بس 2 لیٹر، اور پھر شمع گل۔
شاید کوئی کوشش کرے بچانے کی؟ کوئی اور ستم رسیدہ جو آنول کھینچ کر نکال دے جسم سے مگر خون تو پھر بھی بہے گا۔ بچے دانی جب کسی خستہ حال تھیلے جیسی ہوجائے تو تب کیسے سکڑے گی بنا دوا کے انجیکشن؟
کہاں سے آئے گی وہ دوا اور کون لگائے گا وہ انجیکشن؟
ابھی تو یہ نارمل زچگی کی کہانی ہے، اور اگر بچہ ٹیڑھا ہوا تو کیسے پیدا ہوگا؟ اگر الٹا ہوا اور پیدا ہوتے ہوئے اس کا سر پھنس گیا تو پھر کیا ہوگا؟
اگر بچے دانی کے منہ کو آنول نے بند کر رکھا ہو پھر؟ تب بچہ کہاں سے برآمد ہوگا؟ ایسی صورت میں بچہ آنول نال کو باہر دھکیلتے ہوئے نکلنے کی جب کوشش کرے تو بڑے اسپتالوں میں زچہ کو بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ٹیلوں پر بیٹھی عورت تو کچھ گھڑیاں ہی نکالے گی۔
مزید پڑھیے: چھاچھرو سندھ کی جادوگرنی!
زچگی میں بچے دانی بھی تو پھٹ سکتی ہے۔ پھٹتی ہے اکثر۔ جن عورتوں کے جسم سے 8، 10 بچے پہلے بنائے جاچکے ہوں۔ پھٹی ہوئی بچے دانی والی عورت کہاں جائے گی؟ کیسے جائے گی؟ کسی کو پتہ بھی کیسے چلے گا کہ بچے دانی تار تار ہوچکی اور اب زچہ جاں بہ لب ہے۔
چلیے کسی نہ کسی طرح بچہ پیدا ہوگیا، اب کیا پیے گا یہ بچہ؟ فاقوں کی ماری ماں کی چھاتی میں دودھ کیسے اترے گا؟ ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا!
بچے کی پیدائش کے بعد جو چیتھڑوں میں لپٹی بیٹھی ہے وہ ویجائنا سے نکلنے والے خون کو کیسے سنبھالے گی؟
روئی یا پیڈ؟ مذاق نہ کرو جی۔
کپڑا؟ کپڑے تو بہہ گئے سارے اب کیا رکھیں ٹانگوں کے بیچ؟ بہنے دو، بہہ بہہ کر خشک ہوجائے گا۔ ارے بہن زچگی کے بعد 3، 4 ہفتے خون نکلتا ہے، کیا ایسے ہی بیٹھی رہو گی؟ مکھیوں سے کیسے بچو گی؟
کمزور جسم سے بہتے ہوئے خون سے اور کچھ ہو نہ ہو، جراثیموں کی تو عید ہوگئی نا۔ انفیکشن ماں بچے دونوں کو، دوائیں کہاں سے لائیں؟ یہاں تو ایک ٹکڑا روٹی کا میسر نہیں۔
ہمیں یاد آجاتا ہے کچھ برسوں پہلے کی طوفانی بارش اور سیلاب جب عمان کے دُور دراز کے گاؤں شہروں سے کٹ گئے۔ زچہ عورتوں کے لیے سوچ بچار کی گئی کہ کیا کیا جائے؟ پھر ہیلی کاپٹروں نے پہاڑوں، صحراؤں اور وادیوں سے زچہ عورتوں کو نکالا اور شہروں کے اسپتالوں تک پہنچایا۔
کیا وطن عزیز کی ایوی ایشن یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ ان عورتوں کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا جائے۔ ان لوگوں کا بھی پاکستان پر اتنا ہی حق ہے جتنا اسلام آباد میں رہنے والوں کا۔ بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی کہ ان کے ووٹ سے ہی لوگ اسلام آباد جا پہنچتے ہیں۔
بچائیے 21ویں صدی میں رہنے والی ان مظلوم ستم رسیدہ عورتوں کو۔
دوائیں، خوراک، کپڑے اور محفوظ زچگی!
سوچیے کون کیا کرسکتا ہے؟
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔