نقطہ نظر

افسوس کہ ہم نے ماضی میں آنے والے سیلاب سے بھی کچھ نہیں سیکھا

مسئلہ یہ ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلی بھی ایک عذر بنتی جارہی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے 2 سال قبل ‘لاک ڈاؤن’ ایک عذر تھا۔

ہمارے یہاں جاری رہنے والی سیاسی ہنگامہ آرائی اس وقت ہی کم ہوتی ہے جب کوئی انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ کورونا وائرس کے دوران کچھ وقت کے لیے توجہ اس سیاسی محاز آرائی سے ہٹ گئی تھی اور اب موجودہ سیلاب ویسا ہی دوسرا موقع ہے۔

2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے تقریباً ایک دہائی بعد پاکستان کو ایک اور قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس مرتبہ قدرت کا جلال پہلے سے زیادہ تھا۔ حالیہ بارشیں اور تباہی 2010ء کے سیلاب سے زیادہ ہوچکی ہیں اور اگر پیش گوئیوں پر یقین کیا جائے تو یہ ابھی ابتدا ہی ہے۔

سرکاری حکام اور دیگر افراد بھی بارہا موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ موسمِ گرما کا آغاز جلدی ہوا اور یہ شدید بھی تھا۔ جس دوران لوگ شدید گرمی سے بلبلارہے تھے اسی دوران ہم قبل از وقت اور معمول سے زیادہ مون سون بارشوں کے بارے میں سن رہے تھے اور پھر ایسا ہی ہوا۔

مزید پڑھیے: مشکلات میں گھرے عوام اور اقتدار کے کھیل میں مگن سیاستدان

یہ بارشیں بھی موسمِ گرما کے قبل از وقت شروع ہونے کی طرح غیر متوقع تھیں۔ ماہرِ موسمیات عائشہ خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں پہلے خشک سالی کا خطرہ تھا اور اب وہ علاقے ڈوبے ہوئے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اب موسمیاتی تبدیلی بھی ایک عذر بنتی جارہی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے 2 سال قبل 'لاک ڈاؤن' ایک عذر تھا۔ اگر کسی کو اس بات کا ثبوت چاہیے تو ٹاک شوز میں ہونے والی بات چیت سن لے جہاں یہ لفظ بار بار سنائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عذر ہم خود کو بری الذمہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر ہونے والے فیصلوں کے نتیجے میں عمل میں آرہی ہے اور ایک غریب ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان اس کے اثرات کا سامنا کررہا ہے۔ لیکن یہ حالات کی مکمل تصویر نہیں ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ بارشیں اور ان کی شدت ہمارے اختیار میں نہیں ہے لیکن ان بارشوں کے نتیجے میں جو تباہی پھیلتی ہے وہ ضرور ہمارے اختیار میں ہے۔

ہم کراچی کا ہی ذکر کرلیتے ہیں۔ شہر میں اربن فلڈنگ اب ہر سال ہی ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ دنوں تک بہت زیادہ بحث و مباحث ہوتے ہیں لیکن پھر اسے بھلا دیا جاتا ہے۔ ناقص منصوبہ بندی اور بدانتظامی اور مشکلات کی وجہ بننے والے تجاوزات کا کوئی حل نہیں نکالا گیا، سوائے ان جگہوں کے جہاں غریب بستے ہیں۔ یوں تجاوزات ختم کرنے کے نام پر غریبوں کو بے گھر کردیا گیا جبکہ بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں (جو کہ نالوں پر تعمیر ہیں) کو کچھ نہیں کہا گیا۔

یہاں فرض عین سمجھتے ہوئے نالوں کی صفائی کی تصاویر بھی جاری کی جاتی ہیں تاہم یہ نہیں سوچا جاتا کہ کچرا ٹھکانے لگانے کے کسی جامع منصوبے کی عدم موجودگی میں ان نالوں میں دوبارہ کچرا آنے سے کیسے روکا جائے گا۔ پھر جب توجہ دوسرے امور کی جانب ہوجاتی ہے تو زندگی اسی پرانی ڈگر پر چلنے لگتی ہے اور پھر اگلے سال انہی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کراچی تو مسائل کے حل تلاش کرنے میں ہماری نااہلی کی بس ایک مثال ہے ہم موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب پر بھی یہی ردِعمل دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: ‘کسی سال پانی کی بوند کو ترسیں تو کسی سال اسی پانی سے پناہ مانگیں’

2010ء کی بارشوں میں ہم نے جانا کہ بڑھتی ہوئی رہائشی (اور دیگر) ضروریات کے پیش نظر ہم دریاؤں کے نزدیک تر گھر تعمیر کرتے رہے جو بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کی اہم وجہ بنے۔ کراچی اور اسلام آباد جیسے شہری مراکز میں ہونے والی نامناسب تعمیرات پر تنقید کے دوران بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ایک دہائی بعد بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔

آج ہم پھر یہی بات کررہے ہیں کہ ہوٹل دریائے سوات کے بہت قریب تعمیر کیے گئے تھے اور کچے کے علاقے میں گھر تعمیر کیے گئے تھے۔ تاہم امکان یہی ہے کہ جیسے جیسے پانی اترے گا اور ٹی وی اسکرینوں سے تباہی کے مناظر ہٹیں گے تب اس حوالے سے سوائے باتوں کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس معاملے کا تعلق براہِ راست ہماری آبادی سے ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کئی دہائیوں سے نظر انداز کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ 2010ء کے سیلاب سے یہ بات بھی واضح ہوئی تھی کہ موسمی آفات سے نمٹنے کے لیے زیادہ بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ اس منصوبہ بندی کا آغاز پہلے سے خبردار کرنے کی صلاحیت سے ہوتا ہے۔ اس میں موسم کی پیشگوئی کرنے والی ٹیکنالوجی سے لے کر ضلعی سطح اور خطرے کا شکار آبادیوں تک یہ معلومات پہنچانا شامل ہے۔ 2010ء میں خیبر پختونخوا کے علاقوں میں صرف ایک فیکس مشین خراب ہونے کی وجہ سے اضلاع کو بروقت خبردار ہی نہیں کیا جاسکا تھا۔

اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعداد و شمار کو جمع کیا جائے، میپنگ کی جائے اور ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کی بہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ سیلاب کے دوران زیادہ خطرات سے دوچار علاقوں کی میپنگ کی جائے اور اس بات کا تعین کیا جائے کہ متاثرین کو کہاں لے جایا جائے گا۔

اگر ہمارے پاس ایک مربوط فلڈ منیجمنٹ اینڈ ڈiزاسٹر منیجمنٹ سسٹم نہیں ہوگا تو یہ تمام چیزیں بھی بیکار جائیں گی۔ اس نظام کو بنانے کے لیے کسی آفت کے دوران این سی او سی سے بھی زیادہ بہتر ادارے کی ضرورت ہوگی۔

اس نظام کی ضرورت 2010ء میں بھی سامنے آئی تھی جب اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی خاصا نقصان ہوا تھا۔

تاہم ان تمام چیزوں کے لیے ہمارے محکمہ آبپاشی میں بھی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے جن پر پنجاب اور سپریم کورٹ میں تفصیل سے بحث ہوئی تھی۔

مزید پڑھیے: سوات میں سیلاب کی وجہ سے تباہی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

رپورٹس کے مطابق 2010ء میں آنے والے سیلاب پر بننے والے پنجاب جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں محکمہ آبپاشی پنجاب کو کافی حد تک ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لیے 'میلوولنٹ فلڈز آف پاکستان' (Malevolent Floods of Pakistan) نامی نصیر میمن کی رپورٹ کے اس اقتباس کو دیکھیے '۔۔۔ پولیس کے بعد محکمہ آبپاشی سب سے زیادہ سیاسی محکمہ ہے۔ محکمے میں 17 اور 18 گریڈ کے افسر کی تقرری بالترتیب وزیر آبپاشی اور وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ہوتی ہے۔ یہ نوکریاں 15 سے 20 لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہیں'۔

درحقیقت انکوائری کا حکم ہی ان اطلاعات کی بنیاد پر دیا گیا تھا کہ طاقتور افراد کی زمینوں کو بچانے کے لیے سیلاب کا رُخ موڑا گیا۔

رپورٹس میں محکمے کے ان افسران کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جن کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے تھا۔ ایک گوگل سرچ کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح رپورٹس کے منظرِعام پر آنے کے برسوں بعد بھی ان احکامات پر نفاذ کے حوالے سے عدالتوں سے رجوع کیا جاتا رہا۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومتیں محکمہ آبپاشی میں کسی قسم کی اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پس تحریر: ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ میں سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کی جانب سے متاثرہ علاقوں کے دوروں کو غیر فائدہ مند بتایا گیا ہے۔ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ میڈیا کو بھی ان علاقوں کے دوروں میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افسران اپنے دفاتر میں بیٹھ کر پالیسیاں بنائیں اور انہیں نافذ کروائیں نہ کہ وہ متاثرین میں راشن تقسیم کریں۔ یہ کام مقامی حکومتوں کو کرنا چاہیے، اگر ہمارے پاس مؤثر مقامی حکومتیں ہوں تو۔


یہ مضمون 30 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔