فضائی میزبان کی آپ بیتی: مٹھو، جمپ سیٹ اور کاک پٹ کے نظارے
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
لندن کی پرواز روانگی کے لیے تیار تھی۔ کچھ مسافر آنا باقی تھے۔ جن لوگوں نے آنا تھا وہ ایک ہی خاندان کے کچھ لوگ تھے جنہوں نے ایک تقریب میں شرکت کے لیے لندن ضروری پہنچنا تھا۔
آخری وقت میں نشست مشکل سے ملتی ہے چنانچہ ان کی طرف سے ‘جمپ سیٹ’ کے لیے درخواست کی گئی جو جہاز کے کپتان کی رضامندی سے قبول کرلی گئی۔ مجھے اس پرواز پر کسی دروازے کی ذمہ داری نہیں دی گئی تھی اس لیے میری نشست ایک مسافر کو دے دی گئی اور میں نے کاک پٹ میں بیٹھ کر ٹیک آف کا نظارہ کیا۔
جمپ سیٹ عملے کی مخصوص کردہ نشستوں کو کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر جہاز کے دروازوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ہر دروازے کے پاس عملے کا ایک فرد ہونا لازمی ہوتا ہے کہ ٹیک آف سے پہلے یا لینڈنگ کے فوراً بعد اگر کوئی ہنگامی حالت کا سامنا ہو تو عملہ بروقت جہاز سے مسافروں کو باحفاظت نکال لے۔
دنیا بھر میں جہاز بنانے والی کمپنیاں اس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ یہ جمپ سیٹیں کسی بھی زاویے سے آرام دہ نہ بن پائیں اور عملے کی ‘نشست’ کم اور ‘برخاست’ زیادہ رہے۔ چنانچہ ان برخاستی نشستوں پر اگر زیادہ دیر بیٹھا جائے تو تشریف ‘سن’ ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے اور عملے کو حرکت میں ہی برکت ہے والے مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
عملہ تو پھر بھی ان نشستوں پر بیٹھ بیٹھ کر عادی ہوجاتا ہے لیکن جب کسی مسافر کو بیٹھنا پڑجائے تو انہیں کچھ دیر بعد یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چلنا پھرنا پڑتا ہے کہ تشریف بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے۔
عمومی طور پر دنیا بھر میں فضائی عملے کا ایک رکن 50 مسافروں کو ہنگامی حالت میں سنبھالنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہر فضائی کمپنی کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ مسافروں کی تعداد اور پرواز کی طوالت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک فضائی کمپنی، جہاز پر فضائی عملے اور جمپ سیٹوں کی تعداد کا تعین کرتی ہے۔
جہاز کے دروازوں کی تعداد کے برابر فضائی عملے کا جہاز پر موجود ہونا ہر صورت لازمی ہوتا ہے۔ مثلاً جہاز کے 8 دروازے ہیں تو 8 فضائی میزبانوں پر مشتمل عملہ لازمی ہونا چاہیے۔ جہاز کسی صورت 8 افراد سے کم عملہ پرواز کے لیے نہیں لے جا سکتا۔ اسی طرح اگر جہاز کے 10 دروازے ہیں تو 10 افراد کا عملہ ہونا لازمی ہے۔
کاک پٹ میں بیٹھ کر انجن کا وہ شور سنائی نہیں دیتا جو جہاز کے کیبن میں بیٹھ کر سنائی دیتا ہے۔ رن وے پر ٹہلتے ہوئے جہاز ٹیک آف پوائنٹ پر پہنچا اور ایک یوٹرن لیا۔ سامنے لمبا رن وے موجود تھا اور جہاز پرواز کے لیے پر تول چکا تھا۔ کپتان صاحب نے تھروٹل دیا اور ایک جھٹکے سے جہاز نے دوڑنا شروع کردیا۔ جب رفتار ایک حد تک پہنچ جاتی ہے تو جہاز فضا میں بلند ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ ہی منٹ میں بادلوں کو چیرتے ہوئے ہمارا جہاز مخصوص بلندی تک پہنچ گیا۔ کپتان صاحب نے حفاظتی بند باندھنے کے نشانات بجھا دیے۔
حفاظتی بند کے نشانات بجھا دیے جانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ معزز مہمانوں کو پورے کیبن میں مثل گواچی گاں سیر و تفریح کرنے کا این او سی جاری کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد جہاز نے کمر سیدھی کرنی ہوتی ہے کیونکہ حفاظتی بند باندھنے کے نشانات بجھا دیے جانے کے بعد بھی جہاز عمودی رخ پر 50 سے 60 ڈگری کے زاویے پر ہوتا ہے۔
لیکن اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے اور جب تک جہاز سیدھا نہ ہوجائے، نشست سے نہیں اٹھنا چاہیے۔
جدہ کی ایک پرواز پر میں جہاز کے آخری حصے میں موجود جمپ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرا رخ کاک پٹ کی جانب تھا اور مسافروں کی پشت میری طرف تھی۔ ٹیک آف ہوتے ہی ایک صاحب کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس پُرخطر موقع پر میں ایک دم نشست سے اٹھ کر اپنے سر کے بالکل اوپر موجود سامان کا خانہ جو اس وقت جہاز کے ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے خانہ خراب ہوچکا ہوگا، ایک دم کھولوں کہ شاید اس میں سے کچھ سامان گر کر کسی کا سر پھاڑے اور عملے کے کام میں اضافہ ہو اور اپنے سامان میں سے کچھ میٹھی گولیاں نکال کر کھاؤں تاکہ مجھے متلی محسوس نہ ہو اور دل لگا رہے۔
وہ صاحب کھڑے ہوئے اور ایک ہاتھ سامان سے بھرے خانے پر رکھا ہی تھا کہ ان کا پیر پھسلا اور لڑھکتے ہوئے میرے قدموں میں آن پہنچے۔
چشم زدن میں میرے پاس وہ اس حال میں پہنچے کہ ان کی پگڑی میرے قدموں میں تھی اور میرا دل کیا کہ ان کو بازوؤں سے پکڑ کر اٹھاؤں اور گلے سے لگا کر بھیگی آنکھوں کے ساتھ ان کی طرف سے ان کی ہمشیرہ کا دیا ہوا یہ رشتہ قبول کرکے دوستی کو رشتہ داری میں بدل دوں لیکن میں نے جذبات قابو میں رکھے اور ان کو عزت سے اٹھا کر مزید عزت سے واپس نشست پر بھیج دیا۔
کچھ دیر بعد سروس ہوچکی تو پھر ان کے پاس گیا اور حال احوال پوچھا۔ معلوم ہوا کہ ہمارے علاوہ ان کے دوست احباب بھی ان کی اس حرکت پر انہیں اعزازی طور پر ایک نشان عطا کرچکے ہیں جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں۔ پھر لینڈنگ کارڈ بھرنے کا مرحلہ آیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک جدہ میں کام کے سلسلے میں جانے والے مسافروں کو یہ کارڈ بھرنا پڑتے تھے جو امیگریشن والے پاسپورٹ کے ساتھ اندراج کے لیے ضروری گردانتے تھے۔
جو لوگ خود سے کارڈ نہیں بھر سکتے تھے یعنی کے 99 فیصد، تو عملہ ان کے یہ کارڈ ان سے معلومات لے کر بھر دیتا تھا۔
کچھ کارڈ بھر کر میں ان صاحب کے پاس پہنچا تو مجھے پاسپورٹ اور کارڈ پکڑاتے ہوئے انہوں نے خوشامدی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سارے دانت بھی دکھائے۔ سب سے اوپر نام لکھنا تھا تو میں نے کوئی دستاویز دیکھے بغیر ان سے کہا کہ اپنا پورا نام بتائیں۔ جواب میں مجھے صرف ایک لفظ سنائی دیا۔
‘مٹھو’
میں نے چلنے کو تیار قلم روک کر ایک نظر ہر لحاظ سے ناممکن ‘مٹھو’ پر ڈالی جو ابھی تک یہ سمجھ رہا تھا کہ میں نے اس کے پورے دانت نہیں دیکھے، خصوصاً اوپر کی داڑھیں۔ میں نے پھر پورا نام پوچھا۔ اس نے پھر مٹھو ہی بتایا۔ آخر میں نے اس کا شناختی کارڈ دیکھا اور مجھے ویسا جھٹکا محسوس ہوا جیسا جہاز کو ٹیک آف کرتے وقت فضا میں اٹھتے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے شناختی کارڈ پر بھی صرف ‘مٹھو’ ہی لکھا تھا۔ میں نے سوچا جب حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے کیا مسئلہ ہے۔
میں نے اس کا کارڈ بھر کر اس کو واپس کردیا اور دل میں کہا جا مٹھو جا، جی لے اپنی زندگی۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔