17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (ساتواں حصہ)
اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے
دارا اس وقت ڈاڈھر، سبی میں ہے اور فارس اور مغلیہ سلطنت کی سرحد پر سردار جیون کا مہمان ہے۔ وہ سخت پریشان اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے کہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے وہ دھوکے اور فریب کے دہکتے انگاروں پر جا پڑتا ہے۔ زندگی کی راہیں اتنی مختصر ہوجائیں گی، دارا نے شاید یہ کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔
دارا کو جون 1658ء میں سامو گڑھ میں شکست ہوئی اور اگست 1659ء میں اس کو اورنگزیب نے قتل کروا دیا۔ یہ 15 ماہ بنتے ہیں اور یہ عرصہ جو اندازاً 500 دن اور 500 راتیں بنتی ہیں وہ دارا نے ایک ایسے ذہنی دباؤ، پریشانی اور ذلت میں گزارے کہ اگر وہ عام مغل شہزادہ ہوتا تو کب کا ہار مان چکا ہوتا، مگر اس نے آخری پل تک زندگی اور تمناؤں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
سردار جیون پر دارا کے احسانات تھے کہ ایک دو بار اس نے اس کو دہلی دربار میں موت جیسی سزاؤں سے بچایا تھا۔ دارا کے ذہن میں تھا کہ جیون خان کو وہ دن ضرور یاد ہوں گے مگر دارا شکوہ نے اس پر اعتبار کرکے دھوکا کھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ، بولان پاس کے قریب اس نے دارا کو گرفتار کرلیا۔ یہ جون کے ابتدائی دنوں کا ذکر ہے۔ اس گرفتاری کا پتہ جب جئے سنگھ اور بہادر خان کو لگا تو لشکر بکھر میں چھوڑ کر تیزی سے سیوی کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ جب وہاں پہنچے تو جیون خان نے دارا شکوہ کو بہادر خان کے حوالے کیا بلکہ حوالے ایسے کیا کہ دارا شکوہ کے ہاتھ باندھ کر ہاتھی پر چڑھا دیا اور ایک جلاد اس غرض سے پیچھے بٹھادیا کہ اگر وہ یا اس کا کوئی ساتھی ذرا بھی ہاتھ پاؤں ہلائے تو فوراً شہزادہ کا سر اڑا دے۔
15 جون کو جب اورنگزیب کو یقین ہوگیا کہ دارا اب اس کی گرفت میں ہے تو اس نے دہلی میں سرکاری طور پر دارا کی گرفتاری کا اعلان کیا اور اسی دن تخت نشینی کا دن بھی تھا۔
شاہجہان نامہ کے صفحات ہمیں اس جشن کے متعلق کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ ’حضرت سلطان اجمیر سے واپس ہوکر دارالخلافہ دہلی میں رونق افروز ہوئے۔ نجومیوں نے اس شاہ ارجمند کے جلوس کے واسطے 24 رمضان 1069ھ (15 جون 1659ء بروز اتوار) کی تاریخ مقرر کی تھی۔ غرض اس مبارک گھڑی میں حضرت کے نام کا خطبہ پڑھا گیا، سکّے نے آپ کے نام کی آبرو پائی، پروردگارِ عالم کے اس لطف و کرم کے شکرانے میں حضرت نے حکم دیا کہ اس تاریخ سے عیدالضحیٰ تک، پورے ڈھائی مہینے جشن مسرت جاری رہے‘۔
یہ ہوتی ہے درباری مصنفوں کی زبان۔ جو طاقت اور حرفت میں تیز ہے وہ تخت و تاج کا مالک ہے۔ قلم بھی اس کا اور سیاہی بھی اس کی اور الفاظ بچارے کہاں جائیں گے، جہاں قلم ان کی باگ کھینچے گا وہاں جانا ان کا نصیب ٹھہرا۔ ویسے یہ صدیوں کے قصے ہیں مگر اس حوالے سے کچھ زیادہ فرق ابھی تک نہیں پڑا کہ جس کے سر پر تاج ہے قصیدے ابھی تک ان کے ہی تحریر کے دائرے میں لائے جاتے ہیں کہ بھوکے پیٹ، پھٹے کپڑوں اور ہڈیوں پر منڈھی کھال پر کیا سیاہی زائل کرنا۔
دہلی کی ان گلیوں میں یہ بادشاہی جشن طویل عرصے تک چلنے والا ہے۔ ساتھ میں اور بھی بہت ساری انہونیاں ہونی ہیں جو ان لوگوں کی آنکھوں نے دیکھنی ہیں۔ ہم دہلی کی ان گلیوں میں جلدی لوٹ آتے ہیں لیکن اس سے پہلے بکھر کے قلعے چلتے ہیں۔
سبّی سے بکھر کا قلعہ اندازاً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی طرف ہے جہاں ہمارا ساتھی منوچی دارا سے کیے ہوئے وعدے کو سچے دل سے نبھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ ہمیں ان دنوں کے متعلق بتاتا ہے کہ ’ہم بکھر کے قلعے میں تھے اور جب دارا گجرات پہنچ چکا، تو یہاں دشمن نے بڑی سختی سے قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا، جہاں پر ہم وفادار اور بہادر خواجہ سرا پریم ویر (خواجہ بسنت کو منوچی نے پریم ویر کے نام سے پکارا ہے) کے ساتھ محصور تھے۔ یہ قلعہ سندھ کے بھاری دریا کے درمیان ایک چٹان پر واقع ہے جس کے پتھر بندوقوں کے چھروں کے طور پر مستعمل ہوسکتے ہیں۔ قلعہ 975 قدم لمبائی میں اور 53 قدم چوڑائی میں تھا جہاں سے دریا کے دونوں کنارے نظر آتے تھے۔ مشرق کی طرف ایک بڑا شہر سکھر نامی اور مغرب کی طرف روڑی (روہڑی) نامی ہے اور قلعے سے تھوڑے ہی فاصلے پر شمال کو ایک چھوٹا سا جزیرہ خواجہ خضر ہے۔ قلعے میں ہم بڑی مضبوط حالت میں تھے۔ توپ خانہ اور سامان جنگ کی کثرت تھی اور ہمارے پاس سونا، چاندی، جواہرات اور مال و اسباب کافی تھا۔ ان کے علاوہ دارا چند خواتین کو بھی وہاں چھوڑ گیا تھا جو اس کے ساتھ تھیں۔ ان میں سے ایک تو سلیمان شکوہ کی بیگم اور 2 چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کو وہ بہت محبت کرتا تھا کیونکہ وہ اس کے پوتے تھے۔ دارا کی تجویز تھی کہ اگر وہ صوبہ گجرات میں کامیاب نہ ہوا اور شکست کھائی تو اس قلعے سے آئندہ جنگ کے لیے بنیاد کے طور پر کام کرے گا۔
’دوسری طرف شاہ شجاع، سلیمان شکوہ اور خود اورنگزیب کے اپنے بیٹے سلطان محمد نے بھی باپ سے بغاوت کردی۔ بغاوت اس بات سے ہوئی تھی کہ وہ (سلطان محمد) اورنگزیب کے میر جملہ کی کمان میں کام کرنا اپنی تضحیک سمجھتا تھا اس لیے وہ جاکر شاہ شجاع سے ملا۔ یہ بات اورنگزیب کو بہت بُری لگی مگر وہ وقت کا انتظار کرتا رہا۔ جب جھوٹی چٹھیاں لکھوا کر سلطان محمد کو شاہ شجاع کے پاس سے واپس بلا لیا اور میر جملہ اور شہزادے کی آپس میں صلح ہوگئی تب اورنگزیب نے میر جملہ کو حکم دیا کہ سلطان محمد کو ایک مضبوط اور بااعتماد فوجی دستے کے ساتھ روانہ کرے تاکہ پہلے کی طرح بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ مگر شہزادے نے بھاگنے کی کوشش ضرور کی اور یہ خبر جب اورنگزیب کے پاس پہنچی تو اس نے اپنے خواجہ سرا دانش نامی کو 2 ہزار سواروں کا دستہ اور 2 بیڑیاں دے کر اسے گرفتار کرنے بھیجا اور حکم تھا کہ ’گنگا کے پار اتر کر قلعہ گوالیار میں قید کردیا جائے جہاں اسے پوست کا پانی پلایا جائے تاکہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ ان دنوں مراد بخش کو قلعہ سلیم گڑھ سے جہاں وہ قید تھا نکال کر قلعہ گوالیار کے تنگ و تاریک جیل خانے میں ڈالنے اور ساتھ میں پوست کا پانی دینے کا بھی حکم دیا گیا۔
’دوسری جانب دارا نے دوسری بار اجمیر کے قریب اورنگزیب سے شکست کھائی اور بھاگتا ہوا سندھ کے دریائی (ڈیلٹائی) علاقے کی طرف آیا۔ وہاں سے اس نے بکھر کے قلعے کی طرف آنے کا ارادہ کیا جہاں پر ہم دشمن سے مقابلہ کر رہے تھے لیکن خلیل اللہ خان اس جگہ کا سخت محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ لہٰذا اس نے سلطنت فارس کا رخ کرنا مناسب سمجھا جو اس کے نزدیک ہی تھا۔ اس راستے میں جیون نامی ایک سردار فارس اور مغل سلطنت کی حدود پر حکمرانی کرتا تھا اور اس نے ہی دارا کو گرفتار کروایا تھا۔
’دارا کی گرفتاری کے بعد ہم نے قلعے سے کچھ فاصلے پر بے شمار فوج کو دریا کو مغرب سے مشرق کی طرف عبور کرتے دیکھا، ہمارے توپ خانے نے نہایت مستعدی سے اسے غرقاب کرنا شروع کیا لیکن اس موقع پر سفید جھنڈا لیے ایک سوار نظر آیا۔ پریم ویر کے حکم کے مطابق اسے قلعے میں بلالیا گیا جس نے قلعے میں داخل ہوتے ہی ایک چٹھی خواجہ سرا کو دی اور پکار کر کہا کہ ’میں شہنشاہ اورنگزیب کے نام پر کہتا ہوں کہ آپ اس قلعے کو ہمارے حوالہ کردیں کیونکہ ہم اپنے ساتھ اس لشکر میں شہزادوں کو لیے جا رہے ہیں جسے ہم لوگوں نے پابہ زنجیر کرلیا ہے۔
’یہ ان دیکھی اور چونکا دینے والی خبر سن کر ہمارے رنگ فق ہوگئے۔ مگر پریم ویر نے کہا کہ ہم نے قلعے کا کنٹرول اپنے آقا دارا کے کہنے پر لیا تھا اس لیے اس کے حکم کے سوا ہم قلعہ کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ سوار یہ جواب سن کر چلا گیا۔ لیکن ابھی وہ آدمی پرلے کنارے پر بھی نہیں پہنچا تھا تو ہم نے 7 کشتیاں مسلح آدمیوں سے بھری ہوئی اپنی طرف آتے ہوئے دیکھیں، جن پر رنگارنگ جھنڈے تھے اور ان کا سردار چغتائی خان ازبک ایسی خوشی سے چلّا آرہا تھا گویا اپنے گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ توپوں کو تیار رکھیں اور جب وہ کافی نزدیک آپہنچے تو ایسی باڑ ماریں کہ وہ بھاگ نکلے۔
’ہمیں اپنے ارادوں میں مضبوط دیکھ کر بہادر خان نے دارا کے پاس جاکر درخواست کی کہ وہ قلعہ حوالہ کرنے کا حکم دے دوسری حالت میں بہت نقصان ہوگا اور جو قلعے کے اندر ہیں وہ سب مارے جائیں گے۔ یہ سن کر دارا نے رقعہ لکھا کہ وہ بدقسمت شخص جس کے لیے تم اس طرح سینہ سپر ہورہے ہو اب تم سے درخواست کرتا ہے کہ قلعہ حوالے کردو۔ بہادر پریم ویر چٹھی پر دستخط پہچان کر زار زار رونے لگا اور بہادر خان کو پیغام بھیجا کہ ہم قلعہ حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیہ کہ ہمیں اپنا تمام اسباب لے جانے دیا جائے گا۔ بہادر خان نے جواب میں کہا کہ آپ کا مال اسباب آپ کو دیا جائے گا البتہ خزانہ، شہزادے اور قلعہ کا جملہ اسباب حوالے کرنا ہوگا اور شرط یہ ہے کہ آپ دریا کے مغرب کی طرف عبور کرجائیں اور ہماری روانگی کے 8 دن کے بعد آپ دہلی جاسکتے ہیں۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے لشکر میں داخل ہوکر ہم لوگ دارا کو چھڑانے کی کوشش نہ کریں۔ بہادر خان کا لشکر اپنے شاہی قیدی (دارا) کو ساتھ لے کر بکھر سے روانہ ہوا۔ اس وقت تک اورنگزیب جو اجمیر کی جنگ سے فارغ ہوکردہلی واپس آپہنچا تھا اس کو دارا کے پہنچنے کا انتظار تھا۔‘
منوچی، پریم ویر اور دوسرے ساتھی دہلی کے لیے نکل پڑے ہیں۔ وہ ملتان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے جہاں پریم ویر کو خلیل اللہ خان نے قتل کروا دیا۔ منوچی بھی مرتے مرتے بچا بلکہ ایک دفعہ تو موت کے خوف سے اپنے پہنے کپڑوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ مگر کچھ دنوں کے بعد خلیل اللہ خان کی منوچی اور ساتھیوں کے لیے ہدایت پہنچی کہ اس کے آدمیوں کے ساتھ دہلی کے لیے نکل پڑیں۔ یوں منوچی لاہور سے 30 آدمیوں کے جتھے میں نکلا۔
وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’ہم 8 دنوں کے سفر کے بعد سرہند (فتح گڑھ) پہنچے۔ یہ شہر صوبہ لاہور کو دوسرے ہندوستان سے جدا کرتا ہے۔ شہر میں داخل ہونے سے پیش تر ہمیں پھاٹک کے نزدیک ایک کھیت میں کوئی 15 لاشیں نظر آئیں اور پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ جیون خان اور اس کے ساتھیوں کی ہیں جنہوں نے دارا کو بمقام دہلی اورنگزیب کے حوالے کرنے کے بعد یہ انعام پایا تھا۔
’اورنگزیب نے حاکم سرہند کے نام یہ حکم بھیجا تھا کہ جب جیون خان اور اس کے آدمی واپس اپنے علاقے کو جاتے ہوئے سرہند پہنچیں تو ان کو ختم کردیا جائے۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں کے مسلمان جیون خان کو بُرا کہہ کر لعنتیں بھیج رہے تھے۔ ہم سرہند سے نکلے تو ساتویں دن دہلی پہنچے جہاں اورنگزیب نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو نوکری کی پیشکش کی۔ میرے ساتھیوں نے تو وہ قبول کرلی مگر میرا دل نہیں مانا کہ میں اورنگزیب کی سپاہ میں نوکری کروں اس لیے میں نے واپس اپنے ملک جانے کا بہانہ بناکر انکار کردیا۔‘
ہم بھی دہلی کے ان بازاروں میں چلتے ہیں جہاں دارا شکوہ انتہائی خستہ حالت میں بس پہنچنے ہی والے ہیں۔
تقریباً 2 ماہ کے سفر کے بعد 23 آگست کو دارا شکوہ ایک قیدی کی حیثیت سے سخت خستہ و خوار ہوکر دہلی پہنچا۔ 29 آگست کو جمعے کا دن تھا اور اسی دن دارا کا سر ننگا کرکے، بازو پیچھے باندھ کر، ہاتھی پر سوار کرکے، دہلی شہر میں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے گشت کروایا گیا۔ یہ جلوس لاہوری دروازے سے شہر میں داخل ہوا اور چاندنی چوک اور قلعے سے ہوتا ہوا، خضر آباد پہنچا، جہاں خواص پور محل میں اس کو سخت پہرے میں قید کردیا گیا۔ یہ جلوس دیکھ کر شہر میں آہ و زاری پڑگئی اور ساری سلطنت میں ایک محشر سا برپا ہوگیا۔
اسی شام اورنگزیب نے الگ سے دربار بلایا اور دارا کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ دانشمند خان نے جان بخشی کے لیے گزارش کی، مگر دوسروں یعنی شائستہ خان، محمد امین خان، بہادر خان، حکیم داؤد نے بادشاہ کی دی ہوئی رائے کو محفوظ رکھتے ہوئے دارا کے قتل پر اسرار کیا۔ دارا کی چھوٹی بہن روشن آرا بیگم نے بھی تائید کرتے ہوئے زور دیا کہ دارا شکوہ کو ضرور قتل کرنا چاہیے۔ دارا نے جان بخشی کے لیے جو درخواست کی تھی اسے نامنظور کیا گیا۔
ملک جیون کو دارا کو فریب کے جال میں پھنسا کر گرفتار کرنے پر دربار سے ایک ہزاری منصب اور بختیار خان کا لقب ملا۔ دوسرے دن جیون خان، درباری لباس پہن کر افغانی سواروں کے ساتھ دربار جاتے ہوئے بازار سے گزرا تو لوگوں کے گروہ نے حملہ کیا۔ لوگوں کے سوا بازار کے اوپر بنے گھروں سے بھی جوتے، پتھر اور ناجانے اپنی نفرت دکھانے کے لیے کیا کیا پھینکا گیا اور زبان سے کیا کیا بولا گیا۔
سہ پہر دارا شکوہ اپنے باپ کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ رات کو سیف خان کی نظر داری میں نظر بیگ قید خانے میں داخل ہوا، بیٹے کو باپ سے الگ کرکے دوسرے کمرے میں بند کردیا گیا اور دارا شکوہ کا سر جسم سے کاٹ کر اورنگزیب عالمگیر کی تمنا کو خون اور بے بسی کا پانی دیا گیا۔ پھر وہ سر باپ شاہجہان کو دکھانے کے لیے بھیج دیا گیا مگر نفرت کی آگ اس سے بھی نہیں بُجھی اور حکم کے مطابق دارا شکوہ کی بے سر لاش ہاتھی پر باندھ کر شہر سے گھما کر ہمایوں کے مقبرے میں بے کفن دفنادی گئی یہاں تک کہ نمازِ جنازہ بھی ادا نہیں کی گئی۔
کہتے ہیں کہ سانس کی ڈوری ٹوٹنے کے بعد سارے گلے شکوے نفرتیں ختم ہوجاتی ہیں مگر اورنگزیب کے دل و دماغ میں ڈر اور نفرت کی جڑوں کی گہرائی بہت تھی۔ سلطان احمد اس کا اپنا بیٹا تھا اور دارا کے خلاف جنگ میں اپنے باپ کے ساتھ تھا، مگر اورنگیب نے بخشا اسے بھی نہیں۔ پہلے قید کیا پھر زہر دلوا کر مروا ڈالا۔ اپنے رشتوں کو زہر دے کر مارنا اورنگزیب کا خاصہ رہا۔
میرے سامنے ایک فہرست پڑی ہے جس میں ترتیب وار 6 نام ہیں اور ساتھ میں ان کے مرنے کی تاریخیں تحریر ہیں۔ اوّل نام دارا کا تھا، جس کے حیات کے بجھتے چراغ سے متعلق مختصراً میں نے آپ کو بتایا۔ یہ اپنوں کے خون بہانے یا ذلت اور ذہنی دباؤ کے ہتھیار سے قتل کرنے کی کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔ بس 6، 7 برس تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس فہرست میں دوسرا نام مراد بخش کا ہے۔ کوئی لمبی عمر نہیں ملی اسے۔ 35، 36 برس کی عمر کوئی اتنی بڑی نہیں ہوتی مگر تخت اور تاج کی طلب اور اورنگزیب کی شاطرانہ شیریں زبان نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اورنگزیب کے فریب کی آکاس بیل نے پہلے اسے جکڑ لیا اور پھر وہی ہوا کہ نچوڑ کر سانسیں چھین لیں۔ (دیوان علی نقی کے قتل کے الزام میں جیل میں مقدمہ چلانے کا ہم ذکر کر آئے ہیں)
صالح کمبوہ تحریر کرتے ہیں کہ ’شہزادے نے بے تامل اقرار کرلیا البتہ بڑی بے نیازی سے اتنا کہا کہ اگر حضرت خلافت پناہ اپنے قول و قرار کا لحاظ کرکے مجھ نامراد کے خون سے ہاتھ اٹھا لیتے تو ان کی بادشاہت کو کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ مختصر یہ کہ 21 ربیع الثانی 1070ھ (4 جنوری 1660ء بروز اتوار) سورج ڈوبنے سے پہلے قاضی کے حکم سے 2 جلاد آئے اور شہزادے کو قیدِ زندان اور قیدِ حیات دونوں سے نجات دی اور لاش کو امانت کے طور پر قلعے میں دفن کردیا گیا‘۔
تیسرے نمبر پر میرے سامنے اس شہزادے کا نام ہے جو شاہجہان کے خلاف سب سے پہلے بغاوت کا نعرہ لگاتا ہے۔ شاہ شجاع کے ساتھ اورنگزیب نے تو جو کرنا تھا وہ کیا مگر زندگی نے بھی اس کے ساتھ کوئی اچھا کھیل نہیں کھیلا۔ جب اورنگزیب نے شاہ شجاع کی دھرتی تنگ کردی تو وہ اپریل 1660ء میں بھاگتا ہوا ڈھاکا پہنچا، وہاں ایک ماہ رہنے کے بعد اسی سال مئی کے مہینے میں بھولو (موجودہ نوکھلی بنگلہ دیش) کے قریب ’اراکانی‘ جہازوں پر سوار ہوا اور چٹاگانگ پہنچا۔ وہاں سے اگست میں اراکان (یا ریاست راکھائن۔ اراکان موجودہ میانمار کے مغرب میں ہے) پہنچا۔
منوچی کے مطابق ’یہاں کی کشتیاں پرتگیزی چلاتے ہیں بلکہ شاہ شجاع کے خاندان کی درد بھری داستان بھی ڈچ کارخانہ داروں کی زبانی ہندوستان پہنچی تھی‘۔
منوچی سے زیادہ شاہ شجاع کے انجام سے متعلق ہمیں ڈاکٹر فرانسس برنیئر کی تحریر حقیقت کے قریب محسوس ہوتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’شجاع نے دیکھا کہ اورنگزیب کی طاقت کا مقابلہ مشکل ہے کیونکہ میر جملہ کو برابر کمک پہنچتی رہتی تھی اور اس کی فوجوں نے اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ جان بچانے کے لیے وہ ڈھاکا بھاگ گیا جو بنگالہ کا آخری شہر ہے۔ اب اس کے پاس نہ تو کوئی کشتیاں وغیرہ تھیں جن پر وہ سمندر پار کرسکے اس لیے اس نے اپنے بڑے بیٹے سلطان باقی کو اراکان کے بت پرست راجہ کے پاس اس درخواست کے ساتھ روانہ کیا کہ ’اگر چند روز پناہ دے سکو تو ہم تمہارے پاس آجائیں اور جب موسم مناسب ہو اور کشتیاں چلنے لگیں تو پہلے ہم مکہ اور اس کے بعد روم یا ایران کو چلے جائیں گے‘۔ راجہ نے یہ درخواست قبول کی اور بہت مہربانی سے پیش آیا۔ ساتھ ہی بہت ساری کشتیاں بھی فراہم کیں۔ شاہ شجاع اپنی بیگم اور تینوں بیٹیوں کے ساتھ ان پر سوار ہوکر اراکان چلا گیا۔
’کچھ مہینے گزرے تو موسم موافق آگیا مگر راجہ نے کشتی مہیا نہیں کی۔ اسی اثنا میں راجہ کو میر جملہ نے شجاع کو پکڑ کر حوالے کرنے پر بہت سارا زر دینے کا لالچ بھی دیا تھا۔ حالات نے یہاں بھی شجاع کا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا اور راجہ نے شجاع کی بیٹی کا رشتہ اپنے ہاں کرنے کو کہا۔ اس کا شجاع نے جواب دے دیا۔ اس انکار نے حالات کو اور خراب کردیا۔ اب شاہ شجاع نے یہاں سے بچ کر نکلنے کے لیے اپنے ساتھ لائے ہوئے 200، 300 آدمیوں اور وہاں کے کچھ مسلمان اور پرتگیزیوں کو آپس میں ملا لیا اور مصمم ارادہ کرلیا کہ یکایک راجہ کے محل پر حملہ کرکے اس کو اور اس کے خاندان کو مار کر خود فرمانروا بن جائے گا۔ مگر حملہ کرنے سے ایک دن پہلے راز کھل گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے رہے سہے کام ہی نہیں بگڑے بلکہ سارا کنبہ ہی ہلاک ہوگیا۔ یہ 7 جمادی الثانی 1071ھ (7 فروری 1661ء بروز پیر) کا واقعہ ہے۔ نہ کوئی کفن نہ گور نہ کوئی نشانی۔ یہ وقت کی عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے جس کو دنیا کی کسی بھی عدالت یا مقام پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔‘
میرے پاس 2 نام اور بھی ہیں۔ ان میں پہلا نام دارا شکوہ کے بڑے بیٹے سلیمان شکوہ کا ہے۔ اورنگزیب نے اپنے بڑے بھائی کے بڑے بیٹے کو جب ذلیل اور رسوا کرنے کے لیے اپنے دربار میں بلایا تو اس وقت برنیئر اور منوچی دونوں موجود تھے۔ ان دونوں نے ان لمحات کو بڑی نزدیکی اور دکھ سے دیکھا کہ دونوں کا دارا سے محبت کا رشتہ تھا جو ان کی تحریروں میں عیاں نظر آتا ہے۔ یہ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ چاروں بھائی ان حصوں پر حکومت کرتے جو شاہجہان نے ان کو دیے تھے۔ وہاں کے لوگوں، زراعت، آبپاشی نظام، راستوں اور بیوپار سے متعلق سوچتے کہ ان کو جو حصے ملے تھے وہ مختصر سی زمین نہیں تھی بلکہ انتہائی وسیع اور زرخیز علاقے تھے۔ مگر ناجانے کیوں سب کچھ اپنا ہونے کی بھوک خون میں اُگ پڑتی ہے۔
زندگی ہمارے پاس کچھ برس کی ہوتی ہے۔ کھانے کو ہم سونا یا چاندی کبھی نہیں کھا سکتے۔ 2 گندم کی روٹیاں اور زیادہ سے زیادہ ذائقے کے لیے کچھ اور خوراکیں ملالیں۔ کپڑے ہم نے کپاس یا ریشم کے ہی پہننے ہیں اور زیادہ کیا چاہیے؟ بادشاہ تھے تو محل تھے، نوکر تھے، ٹیکس ملتا تھا۔ مگر مزید کی وحشت سب برباد کردیتی ہے۔
اورنگزیب کا دربار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ وہاں سلیمان شکوہ چاندی کی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں بندھا ایک مجرم کی طرح اورنگزیب کے سامنے کھڑا ہے۔ غلام عوام یہ سوچ کر اورنگزیب کی تعریف کر رہے تھے کہ سلیمان شکوہ کو سونے کی ہتھکڑیوں میں باندھ کر لایا گیا ہے۔ ہم اس ’سب‘ کو حاصل کرنے کا تماشہ دیکھنے کے لیے جلد لوٹتے ہیں۔
حوالہ جات:
- ’ہندوستان عہد مُغلیہ میں‘۔ نیکولاؤ منوچی۔ ملک راج شرما۔ لاہور
- ’برنیئر کا سفرنامہ ہند‘۔ ڈاکٹر فرانس برنیئر۔ 2002ء۔ تخلیقات، لاہور
- ’شاہجہان نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ ہند‘۔ ای۔مارسڈن۔2021ء (ترجمہ)۔ بُک ہوم، لاہور
- ’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2020ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔