نقطہ نظر

17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (چھٹا حصہ)

یہ ایسی جنگ ہے جہاں وفاداریاں کم، دھوکے اور فریب کے نظر نہ آنے والے تیر زیادہ ہیں۔ ان سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو مُشکل ضرور ہے۔

اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے


جون کی پگھلتی دھوپ ہے اور جمنا ندی کے جنوبی کنارے پر جہاں تاج محل اور جلال الدین محمد اکبر کی آخری آرام گاہ ہے ان دونوں کے مرکز میں آگرے کے قلعے کے جنوب میں فوجیں اکٹھی ہو رہی ہیں۔

شاہجہان کے محبوب بیٹے دارا شکوہ کے اچھے دنوں کے راستے ساموگڑھ میں ہونے والی جنگ کے میدان میں آکر ختم ہونے والے ہیں۔ نصیب کے پرندوں کے پَر اتنے طاقتور بھی نہیں ہوتے کہ ہر وجود پر جنم سے لے کر سانس کی ڈوری کے ٹوٹنے تک ساتھ چلیں۔ یہ جنگ بظاہر اورنگزیب اور دارا کے درمیان ہوتی دکھائی دیتی ہے مگر اس کے اسباب کی جڑوں میں ڈھونڈ کر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے تو دو الگ الگ خیالات اور سوچیں آپس میں گتھم گتھا ہیں۔

یہ ایک ایسی جنگ ہے جہاں وفاداریاں کم، دھوکے اور فریب کے نظر میں نہ آنے والے تیر اور تلواریں زیادہ چلتی ہیں۔ ان سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ایک وجود سے جنمے ہوئے ان چاروں بھائیوں میں سے 3 ایک طرف ہیں اور دارا ایک طرف۔ دارا کے لیے ایک اور بھی مشکل ہے کہ وہ جنگ اصولوں کے مطابق کرنا چاہتا ہے جبکہ سامنے جو جنگ کے میدان میں ہوں گے ان کے پاس اصول کا سکہ نہیں کھنکتا۔ وہاں تو دھوکے کی کوڑیاں ہیں اور بے تحاشا ہیں کہ جہاں چاہیں فریب کے لیے پھینک دیتے ہیں۔ دھوکے اور فریب سے بھری اس جنگ میں نیکولاؤ منوچی دارا شکوہ کی اس فوج میں شامل ہے۔ ہمارے لیے یہ زبردست ہے کہ اس جنگ کا آنکھوں دیکھا احوال بتانے والا ہمارے ساتھ ہے۔

منوچی لکھتا ہے کہ ’ہمارا لشکر ایسی خوبی سے آراستہ تھا کہ دُور سے خوبصورت شہر معلوم ہوتا تھا جس میں جا بجا خیمے لگے ہوں۔ ان پر ہر رنگ اور شکل کے جھنڈے اُڑ رہے تھے جو اپنے اپنے مالک کا پتا دیتے تھے۔ ساری جنگی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد 24 مئی کے گرم دن میں ہم آگرہ سے روانہ ہوئے۔ جس وقت کوچ شروع ہوا تو یہ لشکر افق سے افق تک پھیلا ہوا معلوم ہوتا تھا جسے دیکھ کر دشمن اور دوست سب کا سینہ دہلتا تھا۔ لیکن یہ بات سخت رنجیدہ تھی کہ اتنے بڑے لشکر کے ہوتے ہوئے بھی کسی کی زبان سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ دارا اس جنگ میں فتح یاب ہوگا۔ ہم نے کوچ اس ترتیب سے شروع کیا کہ جس وقت لشکر روانہ ہوا تو یہی معلوم ہوتا تھا کہ سمندر اور زمین ایک ہوگئے ہیں۔ ہاتھیوں کی سونڈوں میں زنجیریں اور دانتوں پر سونے اور چاندی کے حلقے پڑے تھے، جن کے سامنے چھلوں کے ذریعے شمشیریں لٹکتی تھیں۔ سب سے آگے ایک علمبردار ہاتھی تھا جس کا مہابت ڈھال تلوار سے آراستہ تھا۔ 4 روز تک اسی طرح کوچ کے بعد ہم دریائے چمبل کے ساحل پر دھولپور نامی گاؤں کے نزدیک پہنچے اور اس جگہ راستے کو روک کر خیمہ زن ہوگئے اور توپیں لگا دیں۔

’اورنگزیب نے راجہ چمپات کو اپنی طرف ملا لیا اور تحفے تحائف دے کر اس کے علاقے سے دریا پار کرلیا۔ یہ اورنگزیب کے لیے خوش کن تھا اور دارا شکوہ کے لیے رنجیدہ کرنے والی خبر تھی کیونکہ راجہ چمپات نے دارا سے وعدہ کیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ کبھی بھی اورنگزیب کو اپنے علاقے سے دریا پار کرنے نہیں دے گا۔ اس بات پر دارا کو شدید غصہ تھا اور وہ خود جاکر اورنگزیب سے دو بدو لڑنا چاہتا تھا۔ جرنیل ابراہیم خان نے دارا کو صلاح دی کہ آپ خود جانے کے بجائے 12 ہزار سواروں کا ایک دستہ بھیج دیں جو فوراً جاکر اورنگزیب کے لشکر پر جو اس وقت تھکا ہوا اور دریا کے کنارے پڑا ہے دھاوا بول دے۔ لیکن نمک حرام خلیل اللہ خان کو جس وقت اس تجویز کی خبر ہوئی تو اس نے آکر دارا کو کہا کہ نہیں حضور یہ تو بالکل بھی درست نہیں ہے اس طرح نہ تو حضور کو وہ عزت ملے گی اور نہ ہی شہرت جو با نفس نفیس جنگ میں شرکت پر حضور کے لیے مخصوص ہے اس لیے حضور ان لڑکوں کی بات پر نہ چلیں کہ ان کو ابھی جنگ کا پتا ہی کیا ہے؟‘

منوچی مزید لکھتا ہے کہ ’اگلے روز ہم اورنگزیب کے تعاقب میں روانہ ہوئے لیکن اب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ اس روز یکم جون تھا، گرمی سخت تھی اور ہم بڑی مشکل سے اِدھر اُدھر کے جوہڑوں سے پانی لے کر گزارہ کر رہے تھے۔ دونوں لشکروں میں کوئی ڈیڑھ فرسنگ (اندازاً 4 میل سے کچھ زیادہ) کا فاصلہ تھا۔ اب جب دوسری مرتبہ حملہ کرنے کا صحیح وقت آیا تو اس وقت بھی نمک حراموں کی نمک حرامی آڑے آگئی اور دارا کو یہ کہہ کر حملے سے باز رکھا کہ ’ابھی ساعت سعید نہیں آئی، فتح تو آپ کی یقینی ہے کیونکہ آپ کے زیرِ کمان ایک جرار لشکر ہے جو اورنگزیب کو ایک ہی لمحے میں حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ وہ ہے ہی کیا۔ وہ آپ کے سامنے کچھ نہیں ہے‘۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اورنگزیب کو سستانے اور توپخانے کو اکٹھا کرنے کا موقع مل جائے۔ ان کمبختوں نے اورنگزیب سے صلاح کر رکھی تھی کہ جس وقت آپ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں تو توپ کے 3 فائر چلا کر ہمیں خبردار کردیں اور ہم دارا کو آپ کے ہاتھوں میں پہنچا دیں گے۔

’میں محسوس کر رہا تھا کہ دارا کو جنگ کا کافی تجربہ نہیں تھا، مجھے دارا کے اوہام دیکھ کر بہت رنج ہوتا تھا اور میں یہ جان کر دکھ محسوس کرتا تھا کہ وہ کس آسانی سے نمک حراموں کی چرب زبانی جو جھوٹ سے بھری ہوتی اس میں آجاتا۔ 3 جون کو آدھی رات کے وقت دشمن نے اس بات کے اظہار کے طور پر کہ وہ اب جنگ کے لیے تیار ہے 3 توپوں کی مقرر سلامی دی جن کے جواب میں ہم نے بھی 3 توپیں داغیں۔‘

اس جنگ سے متعلق میرے سامنے ایک طویل تحریر منوچی کی ہے، دوسری شاہجہان نامہ کی، پھر برنیئر اور ترپاٹھی نے بھی بڑی تفصیل سے اس جنگ سے متعلق لکھا ہے۔ میں ان سب تحریروں کا مختصر جوہر آپ کے سامنے تحریر کرتا ہوں کہ طوالت سے بھی بچ سکیں اور جنگ کے میدان کی صورتحال کے مناظر بھی ہمارے سامنے ہوں۔

دارا نے جنگ کی شروعات میں بہت گولہ باری کی مگر وہ بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ دشمن توپوں کی زد سے باہر تھا۔ جب اورنگزیب نے بہت دیر تک اس گولہ باری کا جواب نہ دیا تو دارا کو یہ سمجھ میں آیا کے دشمن کا بہت نقصان ہوگیا ہے اس لیے اس نے اپنے بائیں بازو کو رستم خان کی سرکردگی میں دشمن کے توپ خانے پر حملہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ جب رستم خان کے سپاہی توپوں کی زد میں آگئے تو ان کو زوردار آتش باری کا مقابلہ کرنا پڑا، وہ مجبوراً اپنا رُخ بدل کر اورنگزیب کے ہر اول دستے پر حملہ آور ہوئے تو بہادر خان ان کے آڑے آیا۔ وہ ہار کر بھاگنے ہی والا تھا کہ دشمن کے دائیں بازو سے مدد پہنچ گئی۔ رستم خان کو گھیر لیا گیا اور وہ لڑتے لڑتے مارا گیا۔

برنیئر لکھتا ہے کہ ’اورنگزیب سے لڑنے کے لیے دارا شکوہ کے پاس فوج تو بہت تھی، مگر اس کی طبیعت کی وجہ سے کچھ بہتر ہونے کی امید نہیں تھی۔ دارا شکوہ کا یہ خیال بے شک صحیح تھا کہ اورنگزیب کے مارے یا پکڑے جانے کے بغیر فتح ناقص ہے۔ جنگ کا میدان دارا شکوہ کے فائدے میں تھا مگر خلیل اللہ خان کے دغا دینے سے بازی بگڑ گئی اور یہ دغابازی ایسی عجیب تھی کہ آن کی آن میں دارا شکوہ کی دائمی بربادی کا سبب بن گئی۔

’یہ شخص (خلیل اللہ خان) دائیں پرے کا سردار تھا جس میں 30 ہزار مغل تھے اور ایسی اچھی فوج تھی کہ اورنگزیب کی تمام سپاہ کو شکست دینے کو صرف یہی کافی تھی، مگر جب دارا شکوہ بذاتِ خود بائیں پرے کی فوج کو بڑی شجاعت اور کامیابی سے لڑا رہا تھا یہ شخص مطلقاً اس کا شریک نہ ہوا اور بہانہ بنائے رکھا کہ ہماری فوج کے لیے تو یہ حکم ہے کہ بطور کمک اپنی جگہ قائم رہے اور جب تک کوئی شدید ضرورت پیش نہ آئے ایک قدم آگے بڑھنے اور ایک تیر تک چلانے کا حکم نہیں۔ مگر اصلاً یہ اس طرح الگ تھلگ رہنا بے ایمانی اور دغابازی پر مبنی تھا۔

’وجہ یہ تھی کہ چند سال پیشتر دارا شکوہ نے اس کی کچھ بے عزتی کر ڈالی تھی اور اس کینہ کی آگ اس کے دل کو جلائے رکھتی تھی۔ پس اس نے خیال کیا کہ بدلہ لینے کا اب وقت ہے۔ مگر دارا شکوہ کا وہ نقصان نہیں ہوا جو اس نے سوچا تھا کیونکہ دائیں پرے والے لوگوں کی مدد کے بغیر ہی وہ دشمن پر غالب آگیا تھا۔ اس دغاباز نے ایک اور چال چلی، یعنی جب دارا شکوہ، مراد بخش کے دہانے کو اپنی سپاہ کی امداد کے لیے جا رہا تھا تب یہ مکار مع اپنے چند رفیقوں کے گھوڑا دوڑائے ہوئے آیا اور دُور سے پکار کر کہا ’مبارک باد حضرت سلامت! الحمدللہ! الحمدللہ! حضور کو بخیر و سلامتی بادشاہی اور فتح مبارک ہو! لیکن حضور یہ تو فرمائیں کہ ایسے خطرناک موقع پر جبکہ عماری کے سائبان سے کئی گولیاں اور تیر پار ہوچکے ہیں اتنے بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں۔ اگر خدانخواستہ ان بے شمار تیروں اور گولیوں میں سے کوئی جسم مقدس کو چھو جائے تو ہم لوگوں کا کہاں ٹھکانہ ہے۔ خدا کے واسطے جلد اتریے اور گھوڑے پر سوار ہو لیجیے۔ اور اب کیا رہ گیا ہے صرف اتنی ہی بات باقی ہے کہ ان چند بھگوڑوں کا زیادہ چستی اور مستعدی سے تعاقب کیا جائے اور میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اب حضور ان کو اس قدر مہلت نہ دیں کہ بھاگ سکیں۔‘

دھوکے، فریب اور دغا کے یہ الفاظ جب چرب زبانی کے شہد میں ڈبو کر دارا کے دل و دماغ تک پہنچائے گئے تو وہ شیرینی اپنا کام کرگئی۔

اگر دارا شکوہ ہاتھی سے اترنے کو نقصان سمجھتا اور یہ سوچتا کہ اس ہاتھی ہی کی بدولت آج میں کیسے کیسے کام کرسکا ہوں اور فوج کو میرے دکھائی دیتے رہنے سے کیسا کچھ فائدہ ہوا ہے تو اس وقت تمام بادشاہت کا مالک ہوتا۔ مگر زود اعتماد اور سادہ دل شہزادہ فریب میں آگیا اور ہاتھی سے اتر کر گھوڑے پر سوار ہوا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس کو شک ہوا اور پوچھا کہ خلیل اللہ خان کہاں ہیں؟ مگر وہ اب کہاں تھا۔ سپاہ نے جب دیکھا کہ ہمارا مالک ہاتھی پر نہیں ہے تو فوراً اس کے مارے جانے کی افواہ اڑی اور تمام فوج اس دھوکے میں پڑ کر حواس باختہ ہوگئی اور عام تہلکہ پڑگیا۔ سب کو اورنگزیب کے قہر و غضب کے اندیشے سے اپنی اپنی جان کی پڑگئی اور تمام فوج تتر بتر ہوگئی۔ لمحوں کے کھیل میں ’غالب‘ مغلوب اور ’مغلوب‘ غالب ہوگیا۔ عجیب ماجرا ہے کہ، اورنگزیب نے فقط پاؤ گھنٹے ہاتھی پر سوار رہنے سے یہ نتیجہ پایا کہ تمام ہندوستان کا بادشاہ ہوگیا اور دارا کچھ وقت پہلے ہاتھی سے کیا اترا گویا اوج سلطنت سے گر گیا۔

اس لڑائی میں دارا شکوہ کے 10 ہزار سپاہی میدان جنگ میں مارے گئے۔ اس شکست نے دارا شکوہ کو ایک ایسی کیفیت میں دھکیل دیا جہاں فقط مایوسیوں کی شامیں ہوتی ہیں اور ان شاموں کے آنگنوں میں اگربتیاں جلتی ہیں اور ان کے دھوئیں میں کچھ زیادہ صاف دکھائی بھی نہیں دیتا۔ گرمیوں کی ڈھلتی رات کی سیاہی میں دارا نے بغیر کچھ بات کیے ہوئے اپنی بیگم، بیٹیوں اور اپنے فرزند سہ پہر شکوہ اور اپنے نزدیکی 3، 4 سو آدمیوں کے ساتھ آگرہ کو چھوڑا اور دہلی کی طرف روانا ہوا۔ دارا شکوہ کی اس ہار کے بعد اورنگزیب آگرہ آیا۔ اورنگزیب کے بیٹے محمد سلطان نے اپنے دادا کو 8 جون 1658ء میں ہفتہ کی شب آگرہ کے قلعہ میں نظر بند کردیا۔

دارا دہلی، لاہور اور ملتان سے ہوتا ہوا سندھ، بکھر کے قلعہ میں پہنچا۔ کہتے ہیں کہ دارا جب لاہور میں تھا تو اس کو کابل جانے کی صلاح دی گئی تھی جو ان حالات کے حوالے سے بہت مناسب تھی۔ مگر دی ہوئی صلاح کو الٹ کرنا دارا شکوہ کی طبیعت میں تھا اس لیے وہ سندھ آ نکلا۔ بکھر کے قلعہ میں بہت سے پٹھان، پرتگیز، انگریز، فرانسیسی اور جرمنوں کو توپ خانے میں نوکری پر رکھا گیا اور اس توپ خانہ کا انچارج نیکولاؤ منوچی کو بنا دیا جو دارا کا اچھا دوست بھی تھا۔

5 جولائی بدھ کے دن اورنگزیب دہلی پہنچا اور 21 جون بدھ کے دن دہلی سے باہر شالیمار باغ میں اس نے اپنی بادشاہی کا اعلان کیا اور 26 جولائی بروز جمعہ اس نے دہلی سے لاہور کی طرف کوچ کیا۔ دارا کا پیچھا کرنے کے لیے اس نے خلیل اللہ خان کو پیچھے لگادیا تھا۔ تاریخ کے صفحات پر تحریر ہے کہ دارا شکوہ کے تعاقب میں جانے کے لیے مراد بخش اپنے بھائی اورنگزیب کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا اور اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس نے راستے میں زیادہ شراب پینے کا بہانہ بناکر مراد بخش کو ذلیل و خوار کرکے سلیم گڑھ میں قید کردیا۔ ’رقعات عالمگیری‘ کے مطابق اسی قلعہ میں مراد بخش پر صوبہ گجرات کے دیوان علی نقی کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور اسی کی سزا میں اسے قتل کردیا گیا۔

اورنگزیب، دارا کا پیچھا کرتا ملتان تک آیا، مگر دارا بہت آگے نکل گیا تھا اس لیے شیخ میر اور دلیر خان کو فوج دے کر، درا کے پیچھے جانے کا حکم دیا اور خود پیر کے دن 30 ستمبر کو دہلی روانہ ہوا۔

دارا سہیون سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ آیا۔ جاڑوں کے ابتدائی دنوں میں اتوار کے دن 17 نومبر 1658ء کو دارا نے دریائے سندھ پار کیا اور بدین کی طرف چل پڑا، 8ویں دن وہ بدین پہنچا، پھر بدین سے گجرات جانے کے لیے اس نے ’کَچھ جو رن‘ کو پار کیا، کیونکہ موسم ٹھنڈا تھا تو زیادہ پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔ کَچھ اور کاٹھیاواڑ سے ہوتا ہوا وہ احمد آباد پہنچا، جہاں کا صوبے دار، اورنگزیب کا سسر شاہ نواز خان تھا۔ اس نے دارا کے لیے شہر کے دروازے کھُلوا دیے۔ اسی دوران اورنگزیب اپنے خون کے رشتوں کے گھنے پیڑوں کو کاٹنے میں مصروف رہا۔ الہٰ آباد میں سلطان شجاع اور اورنگزیب میں جنگ ہوئی، وہاں بھی جنگ کے میدان میں دارا شکوہ والا منظر دہرایا گیا، یہاں بھی شجاع ہاتھی سے اترا، گھوڑے پر سوار ہوا اور جنگ ہار گیا۔

مجھے نہیں معلوم کہ دارا شکوہ کیسا آدمی ہوگا۔ ہم تو سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے متعلق نہیں جان سکتے کہ وہ کیسے ہیں تو پھر 360 برس کی طویل دُوری پر بیٹھے شخص کے بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر ہاں اتنا ضرور تھا کہ وہ مغل شہزادوں جیسا بالکل بھی نہیں تھا، اگر تھا بھی تو اس پر مغل شہزادگی کا بہت کم رنگ چڑھ سکا۔ اس لیے وہ ہر ایک کی بات پر یقین کرلیتا تھا۔ یہی سبب تھا کہ وہ جسونت سنگھ کے کہنے پر 14 فروری 1659ء جمعہ کے دن احمد آباد سے اجمیر جا پہنچا جہاں سامنے اورنگزیب تھا۔ ایسے موقع پر جسونت سنگھ نے دغابازی کی۔ 12 مارچ 1659ء کو دونوں بھائیوں میں فیصلہ کن جنگ کی ابتدا ہوئی اور 14 مارچ جمعے کے دن دارا کی جھولی میں ایک اور شکست آ پڑی۔ اس کا سارا لشکر برباد ہوگیا اور جسونت کی دغابازی کی وجہ سے دارا احمد آباد اور اجمیر کے بیچ میں پھنس کر رہ گیا۔ گرمیوں کی ابتدا ہوچکی تھی اور اجمیر سے احمد آباد تک کا سارا علاقہ جسونت سنگھ کے لوگوں کا تھا۔

دارا کی اس بے سر و سامانی کی کیفیت سے متعلق برنیئر لکھتا ہے کہ ’آفت رسیدہ اور برباد شدہ دارا شکوہ جس کی جانبری صرف احمد آباد پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے میں منحصر تھی ایسے دُور دراز ملک سے گزرنے پر مجبور تھا جو قریباً سب کا سب مخالف راجاؤں کے قبضہ میں تھا اور ایسی بے سر و سامانی تھی کہ خیمہ تک پاس نہیں تھا اور زیادہ سے زیادہ 2 ہزار آدمی ہمراہ تھے۔ گرمی بہت سخت پڑتی تھی چونکہ موسم فطرت کے ہیں اور فطرت کسی کی غلام نہیں ہوتی اس لیے سورج تپتا تھا۔ ایسے موسم میں دارا شکوہ ایک ایسے مقام تک پہنچ گیا جہاں سے احمد آباد فقط ایک منزل تھا اور اسے یہ امید تھی کہ کل تک وہ احمد آباد میں داخل ہوجائے گا۔ مگر بدقسمت اور شکست خوردہ لوگوں کی امیدیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ دارا شکوہ احمد آباد میں قلعہ دار اور حاکم بناکر جس کو پیچھے چھوڑ گیا تھا اس نے بے وفائی کی۔ اورنگزیب کے دھمکانے سے وہ اپنے آقا سے پھر گیا اور دارا شکوہ کو لکھ بھیجا کہ شہر کے قریب نہ آئے، شہر کے دروازے بند اور لوگ مقابلہ کے لیے مسلح اور تیار ہیں۔

’ان شب و روز کے دوران میں بھی 3 دن سے دارا شکوہ کی ہمراہی میں تھا اور یہ ایک نہایت ہی عجیب و غریب اتفاق تھا کہ میں اسے راستے میں مل گیا اور کسی طبیب کے ہمراہ نا ہونے کی وجہ سے اس نے جبراً مجھے لے لیا۔ احمد آباد کے حاکم کے کاغذ کے پہنچنے سے ایک دن پہلے کا ذکر ہے کہ دارا شکوہ مجھے اس کارواں سرا میں لے گیا جہاں خود ٹھہرا ہوا تھا اور اس کا یہ حال تھا کہ خیمہ تک اس کے پاس نہ تھا۔ اس کی بیگم اور عورتیں صرف ایک قنات کی آڑ میں تھیں۔ جس کی رسیاں میری سواری کی بیل کاڑی کے پہیوں سے باندھی ہوئی تھیں۔ جو لوگ اس عمل سے واقف ہیں کہ ہندوستانی امرا اپنی مستورات کے پردہ کے معاملے میں کس قدر مبالغہ کرتے ہیں، وہ میرے اس بیان پر اعتبار نہ کریں گے۔ مگر میں نے یہ واقعہ بطور ثبوت اس دردناک حالت کے لکھا ہے جس میں یہ شہزادہ اس وقت مبتلا تھا۔‘

برنیئر ایک ڈاکٹر تھا اور اسے ضرور خبر ہوگی کہ نادرہ بانو بیگم جو دارا شکوہ کی بیگم تھیں وہ تپ دق کی وجہ سے بیمار تھیں اور اس دھوپ، مٹی، بے چارگی اور بے بسی نے اس کی صحت کو مزید بگاڑ دیا تھا۔ نادرہ بانو بیگم جب آگرہ چھوڑ رہی تھیں تو اس کی چھٹی حس نے اسے ضرور بتایا ہوگا کہ وہ پھر کبھی آگرہ کو نہیں دیکھ سکیں گی۔ مسئلہ اگر پیسوں کا ہوتا تو وہ حل بھی ہوسکتا تھا کیونکہ کچھ خچر تھے جن پر اشرفیاں لدی ہوئی تھیں۔ مگر بدقسمتی یہ تھی کہ یہ آگرہ نہیں تھا۔ یہ 1659ء کا برس تھا اور کَچھ کے ویرانے تھے، ساتھ میں نفرت اور دشمنی کی تیز دھوپ چہار سو بکھرتی تھی اور ساتھ میں ویرانوں کی شوریدہ مٹی بھی اڑتی تھی۔ یہ راستے جن سے سفر کرتا دارا آرہا تھا وہ ایسے ویرانے ہیں جہاں گرم دنوں میں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور مٹی کے بگولے اٹھتے ہیں۔

برنیئر لکھتا ہے کہ ’اسی شب کو پوپھٹنے کہ قریب احمد آباد کے حاکم کا جب مذکورہ بالا پیغام آیا تو مستورات کی گریہ و زاری نے ہم سب کو رُلا دیا۔ اس وقت ایک عجیب پریشانی اور مایوسی چھارہی تھی اور ہر کوئی خوف سے خاموش ایک دوسرے کا منہ تکتا تھا اور کوئی تدبیر نہ سوجھتی تھی۔ دارا شکوہ زنانہ میں سے باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ مردے کی سی حالت تھی اور کبھی اس سے اور کبھی اس سے کچھ کہتا اور ایک ادنیٰ سپاہی کے پاس بھی کھڑا ہوکر پوچھتا تھا کہ ’اب کیا کرنا چاہیے؟‘ اور جب اس نے دیکھا کہ ہر ایک کے چہرے سے خوف کے آثار نمایاں ہیں تو وہ خاموش ہوجاتا۔ ان 3 دنوں کے عرصے میں جب میں اس شہزادے کے ہمراہ تھا تو رات دن بلا توقف ہم کو کوچ کرنا پڑا اور گرمی اس شدت کی تھی اور اس قدر گرد و غبار اڑتا تھا کہ دم گھٹ جاتا تھا۔ میری بیل گاڑی کے 3 عمدہ اور قدآور گجراتی بیلوں میں سے ایک مرچکا تھا اور ایک قریب المرگ تھا۔ تیسرا ایک اس قدر تھک گیا تھا کہ چلنے پر مجبور تھا۔ اگرچہ دارا شکوہ چاہتا تھا کہ میں اس کے ساتھ رہوں، خصوصاً اس وجہ سے کہ، اس کی ایک بیگم کی ٹانگ میں ایک بُری طرح کا زخم تھا۔ وہ انتہائی لاچاری کی حالت کو پہنچ گیا تھا اور مجبوری یہ تھی کہ دھمکانے اور منت سماجت کرنے پر بھی کسی نے اس کو میری سواری کے لیے کوئی گھوڑا یا بیل یا اونٹ نہیں دیا اور جب کوئی سواری میسر نہ آئی تو بنا چارے میں پیچھے رہ گیا اور 4، 5 سواروں کے ساتھ اسے جاتے دیکھ کر میں بے اختیار رو پڑا‘۔

راجپوتانہ میں دارا کو کسی نے پناہ نہیں دی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ کے اس سخت سفر کو طے کرکے دارا مئی 1659ء میں بدین پہنچا اور وہاں سے سہیون ہوتے ہوئے 6 جون جمعے کو سیوی ڈاڈھر پہنچا۔ یہاں نادرہ بانو بیگم کی سانس کی ڈوری نے بے وفائی کی۔ 8 جون کو اپنی بیگم کی میت خواجہ مقبول کے ذریعہ سیوی سے میاں میر سندھی کے قبرستان میں دفن کرنے کے لیے لاہور بھیج دی کہ نادرہ بانو بیگم کی یہی وصیت تھی۔

کچھ لوگ اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ وہ دھوکے کے زہر کو یہ سمجھ کر بار بار پی لیتے ہیں کہ شاید یہ آخری بار ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسے لوگوں کی سادگی پر ہنسا جائے یا رویا جائے، بہرحال جو بھی ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ آپ پڑھنے والے ہی بہتر منصف ہیں۔ ان دنوں منوچی بکھر کے قلعے میں ہے۔ چونکہ جون کے گرم دن دارا پر کبھی مہربان نہیں رہے اور یہ بھی جون کا مہینہ ہے اور سخت نا مہربان نظر آتا ہے۔ مگر ان سخت شب و روز میں ہم کچھ دنوں کے لیے دارا شکوہ سے جدا ہوتے ہیں۔


حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔