17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (پانچواں حصہ)
اس سلسلے کی مزید اقساط یہاں پڑھیے
لاوا اچانک کبھی نہیں پھوٹتا اور جب پھوٹ پڑے تو بہنے کے لیے کوئی راستہ نہیں دیکھتا۔ جنگ کے میدانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جنگ کے میدان دنیا میں جہاں بھی لگتے ہیں وہ کھیل تماشے کے لیے نہیں سجتے۔ وہاں بارود، تلوار کی دھار اور تیر چلتے ہیں۔
شاہجہان کے بیٹوں کی آپس میں جنگ بھی اس لاوے کی طرح تھی جس کا اندازہ شاہجہان برسوں پہلے لگا چکا تھا اور اگر اسے اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا تو وہ تینوں بیٹوں کو الگ الگ حکومتیں سنبھالنے کے لیے بالکل بھی نہیں دیتا۔ مگر بھاگوں کی زمین پر جو بیج بویا جاتا ہے اسے کسی بھی حالت میں کاٹنا تو پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں بادشاہ نے مناسب سمجھا کہ اسے دارالخلافہ میں ہونا چاہیے اس لیے وہ 12 مئی 1658ء اتوار کے دن دہلی کے لیے نکل پڑے۔ مگر دارا کے کہنے پر وہ واپس آگرا لوٹ آئے۔
شب و روز کے پہر وقت کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسل رہے تھے۔ کبھی کبھی وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ آپ کتنے بھی بہادر اور طاقتور ہوں مگر اس کو روک نہیں سکتے۔ آپ کے بس میں فقط آپ کی آنکھیں اور دماغ ہوتا ہے جس سے آپ دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔ یہاں آگرے کے وسیع محل میں جہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن وقت بہت کم تھا۔
25 شعبان 1068ھ بمطابق 28 مئی 1658ء منگل کے دن آگرے سے فوج کو کوچ کا حکم ملا اور شاہجہان نے اپنے محبوب بیٹے دارا شکوہ کو گلے لگا کر بہت دیر تک یونہی لپٹائے رکھا۔ شاید شاہجہان کی چھٹی حس نے اسے یہ بتادیا تھا کہ اس کے بعد نہ کبھی 25 شعبان آئے گا، نہ 1068ھ آئے گا اور نہ 1666ء تک کوئی ایسا منگل کا دن آئے گا جب وہ داراشکوہ کو گلے سے لگا سکے گا۔ شاہجہان نے نیک شگونی کے لیے دارا کو رتھ پر سوار کرکے جنگ کے میدان میں بھیجا اور فتح و نصرت کے لیے کورکہ دولت (شاہی نقارہ) بجوایا۔ امرا نظام و بندہاء شاہی اپنے اندازہ و قدر و مقدار اور اپنے قرب و منزلت کے موافق کمال ادب کے ساتھ ہالے کی طرح دارا شکوہ کے گرد کھڑے تھے۔ اس دن کے بعد زندہ حالت میں اپنے اس بیٹے کو شاہجہان نے کبھی نہیں دیکھا۔
حالات کو اتنا بگڑتے دیکھ کر، جہاں آرا بیگم نے اس فساد کی آگ کو بجھانے کی آخری کوشش کی اور اپنے اعتماد والے آدمی بخش محمد فاروق کو ایک مراسلہ تحریر کرکے اورنگزیب کے پاس بھیجا۔ اس میں شفقت بھی تھی اور ساتھ میں تنبیہہ بھی۔ تحریر کچھ اس طرح تھی کہ ’۔۔۔بڑے بھائی سے جو والی عہد سلطنت ہے، جنگ آزمائی اور مقابلہ حضرت قبلہ سے لڑنے کے برابر ہے۔ مناسب یہ ہے کہ بڑے بھائی کو صدق و خلوص سے اپنی طرف مائل کرو اور تمام کمال کی یک رنگی و اخلاص کا ثبوت دو اور جہاں تک پہنچے ہو وہیں توقف کرکے اپنی خواہش اور ارادے سے اطلاع دیں تاکہ حسبِ مرضی تمام باتیں ظل سبحانی کی خدمت میں عرض کرکے سب خواہشوں کا سرانجام کیا جائے‘۔
جہاں آرا کا خط جس ماحول اور محل کی شہنشاہیت کی ٹھنڈی چھاؤں میں تحریر کیا گیا تھا اس کی طرزِ تحریر ایسی ہی ہوتی ہے۔ اس تحریر کے الفاظ آپ کو سر جھکائے نہیں بلکہ اپنی تیز سرخ آنکھوں سے گھورتے محسوس ہوں گے کہ جہاں آرا نے کبھی اورنگزیب کو پسند نہیں کیا۔ اب آپ اورنگزیب کے اس جواب کا بھی مطالعہ کرلیں جو اس نے مراسلے کے جواب میں تحریر کیا تھا۔
‘ملکی و مالی امور کا انتظام اب شاہجہان کے ہاتھ سے نکل کر دارا شکوہ کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور وہ ہر وقت مجھے نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں۔ اب سنتا ہوں کہ شہزادہ بلند اقبال میرے مقابلے کے لیے دھولپور آ پہنچے ہیں، مگر وہ اس میں ناکام رہیں گے۔ بہتر ہوگا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے اپنی جاگیر یعنی پنجاب میں چلے جائیں اور حضور کی خدمت کا فریضہ مجھ غلام کے حوالے کردیں، اس کے بعد جو کچھ حضرت کی رائے عالی میں آئے اس کی تعمیل کی جائے گی‘۔
آپ اورنگزیب کی تحریر کے الفاظ دیکھیں جن کے وجود غصے اور انتقام سے بھرے پڑے ہیں۔ بہن بھائیوں کی ان دونوں تحریروں میں آپ کو کہیں نرمی اور شفقت کی فاختہ اڑتی نظر نہیں آئے گی اور ایسی کیفیتوں میں صلح کی برکھا کے برسنے کی امید عبث کے سوا کچھ نہیں۔
اس مراسلے کے بعد جہاں آرا کو پورا یقین ہوگیا کہ نفرت کی سوکھی فصل نے دیا سلائی کا شعلہ پکڑ لیا ہے۔ شدید گرمیوں کے دنوں میں دھولپور کے گرم میدانوں میں تخت اور تاج کے حصول میں دو بھائی آمنے سامنے ہونے کو ہیں اور بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے فوج میں شامل ہونے والے ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو تیار ہیں۔
اس میدانِ جنگ میں ہم ضرور چلیں گے کہ کئی نامور لوگوں نے اپنا غصہ اور دشمنی اس جنگ کو ایک موقع سمجھ کر نبھائی۔ مگر مناسب ہے کہ ان تپتے دنوں میں جنگ کے میدان میں چلنے سے پہلے ہم سمندر کنارے ان بندرگاہوں پر چلتے ہیں جہاں پرتگالی، ڈچ اور انگریز ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ کالی کٹ سے لاڑی بندر تک جو بھی بندرگاہیں ہیں اُن پر اِن کی اجارہ داری ہو۔
مطلب یہ کتنا حیرت انگیز ہے کہ جن کا ملک ہے ان سے پوچھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، جن کے پاس بارود ہے وہ جہاں جائے گا وہاں کا مالک ہوگا اور یہی حقیقت ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہو رہا ہے اور جو کچھ ان برسوں میں ہو رہا تھا اور جو بیج تب بوئے گئے تھے ان کی جڑیں شاہجہان کے زمانے تک آ پہنچی تھیں۔ میں ان تینوں غیر مہذب قوموں کی یہاں آمد کی مختصر سی کتھا آپ کو سناتا ہوں۔
اکبر بادشاہ کا جنم 15 اکتوبر 1542ء میں ہوا اور وفات 1605ء میں۔ اکبر ابھی 5 برس کا تھا تب پرتگالی سندھ، بلوچستان و ہند کے ساحلوں پر دنداتے پھرتے تھے۔ وہ شاید اتنے اچھے نہیں تھے کیونکہ تاریخ ان کو اچھے القاب دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ہماری تاریخ کے صفحات جب یورپی اقوام کے یہاں آنے کا ذکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پرتگالی یہاں پہنچنے والے پہلے یورپی تھے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی بنانا یا جوڑنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے لاشعوری طور پر وہ اس احساس کمتری میں رہے ہوں گے کہ ان کی تعداد کم ہے اور ان کو اپنی کامیابیوں پر کم ہی بھروسہ رہا ہوگا۔ اس لیے ان کے عمل تخریبات سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ بیوپاری تھے اور بیوپار کرنے آئے تھے۔ مگر میں حیران ہوں کہ وہ کیسے بیوپاری تھے جو دھوکے کی بنیادوں پر بیوپار کرتے تھے۔
ہم 520 برس پہلے، ہندوستان کے مغربی سمندری کنارے کالی کٹ چلتے ہیں جہاں 29 برس کا ایک امیرالبحر واسکوڈے گاما افریقہ کے گرد چکر لگاتا کیپ آف گوڈ ہوپ والا تجارتی راستہ ڈھونڈ کر ہندوستان پہنچا تھا۔ یہ 20 مئی 1498ء جمعے کا دن تھا۔ گرم موسم تھا مگر سمندر کے کنارے کی وجہ سے موسم معتدل تھا۔ کالی کٹ کے راجہ ساموندھری نے آئے ہوئے نئے مسافر اور بیوپاری کی آؤ بھگت کی لیکن درباری یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اس نے تحفے میں راجہ کو کوئی چیز نہیں دی اور نہ سونا چاندی دیا۔ راجہ کے اس کے ساتھ مذاکرات ناکام رہے۔ واسکوڈے گاما نے جب اجازت مانگی کہ وہ سامان جو وہ یہاں بیچنے آیا تھا اس کے رکھنے اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی آدمی یہاں چھوڑ سکتا ہے؟ تو راجہ نے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ دوسرے تاجروں کی طرح ٹیکس ادا کرے جو عام طور پر سونے کی شکل میں دیا جاتا تھا۔ مگر یہ فرنگی ندارد کی لکیر پر کھڑا رہا۔ جب واپس جا رہا تھا تو اپنے ساتھ چند ہندوستانی سپاہی اور 16 ماہی گیروں کو اغوا کرکے ساتھ لے گیا۔ اپنے دوسرے سفر میں اس نے مسلمان زائرین کے ایک جہاز کو لوٹ لیا جو کالی کٹ سے مکہ جا رہا تھا اور اس میں 400 حجاج سوار تھے جن میں سے 50 خواتین بھی تھیں۔ اس نے انتہائی سفاکی کے ساتھ مسافروں کو قید کرکے جہاز کو آگ لگادی۔
ہندوستان میں پرتگالیوں کے بعد ڈچ، فرانسیسی، انگریز اور دوسرے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے تاجر تھے۔ پہلے مشرق کی قیمتی اشیا خشکی کے راستے شام اور مصر کی بندرگاہوں سے وینس اور جنیوا بیوپاریوں کے جہازوں کی معرفت یورپ کے ممالک تک پہنچتی تھیں۔ 15ویں صدی میں یورپ کے اندر وینس ایک اہم تجارتی مرکز تھا جو گرم مصالحے ہندوستان، جنوبی مشرق، جاوا اور چین سے منگواتا تھا۔ وینس کو یہ تجارتی سامان عرب بیوپاری پہنچاتے تھے۔
1453ء میں عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرنے کے بعد بیوپار کے راستے بند کردیے۔ یورپی قوموں نے منظرنامہ بھانپ کر نئے راستوں کی تلاش شروع کردی۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ نئے راستے وہ دریافت کرے مگر ہندوستان کا راستہ واسکوڈے گاما نے ڈھونڈا جس کا ذکر ہم نے ابتدا میں کیا۔ اس راستے کو ڈھونڈنے کے لیے واسکوڈے نے جو ڈرامے بازیاں اور جن حرفتوں سے کام لیا تاریخ میں ان کی ایک الگ داستان ہے کہ کس طرح ایک امیرالبحر کو نشہ دے کر اور یرغمال بنا کر یہ راستہ ڈھونڈا گیا۔
1508ء میں البکرک نے ایرانی خلیج میں ہرمز جزیرے پر قبضہ کیا۔ پہلے ایرانی خلیج اور ہندی بڑے سمندر پر جو بیوپار ہوتا تھا اس پر عربوں کا قبضہ تھا، مگر پورچوگیزوں کے آنے کے بعد سمندر کے سارے راستوں جیسے مؤزمبک، عدن اور ایرانی خلیج فرنگیوں کے قبضے میں آگئے۔ فرنگیوں کو روکنے کے لیے گجرات، بیجاپور اور مصر کے مملوک سلطنت (آخری آزاد مصر- ترک ریاست تھی۔ یہ ایوبی سلطنت کے زوال کے بعد قائم ہوئی اور عثمانی فتح مصر 1517 تک رہی) نے پرتگالیوں کے خلاف محاذ کھڑا کرکے جنگ کی مگر ان کو شکست ملی۔ پرتگالیوں کی سمندر پر کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس نہایت طاقتور سمندری فوج اور شاندار جنگی بیڑے تھے۔ ان کے بڑے جہاز سمندر میں دُور سے آتے ہوئے ایسے لگتے تھے جیسے کوئی بڑے شاندار قلعے تیرتے ہوئے آ رہے ہیں۔ جہازوں کے چاروں طرف توپیں لگی ہوتی تھیں۔ یہاں کے لیے یہ سب نیا تھا مگر ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ہمارے ہاں کوئی اچھے امیرالبحر نہیں تھے یا یہاں کے لوگوں کو بڑی بیوپاری کشیتاں بنانی نہیں آتی تھیں۔
ہندوستان کے مغربی کنارے پر گووا پرتگالیوں کا تخت گاہ مقرر ہوا۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے نصف تک، ان کا راج رہا۔ اس حد تک کہ ہندی سمندر کو پرتگالی سمندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جہاں جہاں سمندر کے کنارے جاتے ان کی بادشاہت چلتی۔ سب ٹھیک تھا مگر بیوپار کے معاملے میں ان میں وحشت بھر جاتی۔ وہ جہاں بیوپار کی جگہ دیکھتے وہاں بندر اور اس بندر کا قلعہ تعمیر کردیتے۔ اگر کوئی دوسرا بیوپاری اس کے قرب و جوار میں کچھ تعمیر کرتا تو وہ اس تعمیر کو بم سے اڑا دیتے۔ وہ سمندر میں دوسروں کی کشتیوں کو لوٹنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ اگر وہ سمجھتے کہ کچھ کشتیوں کو لوٹا نہیں جاسکتا تو ان پر اتنا محصول لگا دیتے کہ وہ معاشی طور پر کنگال ہونے کے نزدیک پہنچ جاتے۔ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ بیوپار کے حوالے سے کوئی اور ان کے مقابل آئے۔ اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے۔
کتاب 'کمپنی کی حکومت' کے مصنف باری علیگ لکھتے ہیں کہ ’پرتگالیوں کو حیرت انگیز کامیابی ملی، افریقہ کے مغربی ساحل، مشرقی ساحل (بحر احمر کے ساحل تک)، خلیج فارس سے ساحل مالابار تک، کارو منڈل، مجمع الجزائر سیام اور برما سے کینٹن اور شنگھائی تک قلعوں کی ایک زنجیر قائم ہوگئی۔ یہ لودھیوں کے عہد میں ہندوستان آئے، ان دنوں ہندوستان کی مرکزیت کمزور ہو رہی تھی، گجرات کے ایک بادشاہ نے پرتگالیوں سے ایک جنگ لڑی مگر ناکام رہا۔ البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے مکمل قبضہ جمانے تک یہ کسی نہ کسی صورت میں باقی رہے‘۔
جب مقامی طور پر وہ اپنے قدم جما چکے تو مقامی سیاست میں بھی حصہ لینے لگے۔ وہ ہمیشہ اس طرف کا ساتھ دیتے تھے جو دوسرے سے طاقت میں زیادہ ہوتا یا ان کو یہ یقین ہوتا کہ ان کی مدد سے یہ بادشاہ جیت جائے گا اور اس جیت کے بدلے میں ان کو بیوپار میں سہولیات ملیں گی اور رعایتیں بھی۔
منفی وجود کی حیات کوئی لمبی نہیں ہوتی۔ ایک صدی سے کچھ زیادہ پرتگالیوں نے تجارت پر اپنے ناخن گاڑ رکھے تھے۔ 17ویں صدی کی ابتدا میں اس کی طاقت اور جکڑ ڈھیلی ہونے لگی۔ ان کا مقامی لوگوں سے رویہ بھی کبھی اچھا نہیں رہا اس لیے دھیرے دھیرے ان کی جگہ ڈچ لوگوں نے لینی شروع کردی۔
میں ایک پرتگالی مؤرخ ’الفنسو ڈی سوزا‘ (جو ہندوستان میں 4 برس تک گورنر بھی رہا) کا حوالہ یہاں دینا چاہوں گا۔ اس نے اپنی قوم کی سفاکیوں سے متعلق لکھا ہے کہ ’پرتگالی ہندوستان کے کناروں پر ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ظلم لے کر اترے، مشرق کی بے تحاشا دولت دیکھ کر ان کے ہوش و حواس ختم ہوگئے۔ انسانوں کو لوٹنے اور شہروں کو برباد کرنے میں وہ وحشیوں سے کم نہیں تھے۔ مگر یہاں دولت اتنی زیادہ تھی کہ آخر میں تلوار کو چھوڑ کر وہ سونا اور چاندی سمیٹنے میں مصروف ہوگئے۔ آخرکار ایسی ہی حرص و ہوس والی دوسری مغربی اقوام ان پر غالب آگئیں’۔
چونکہ پرتگالی یورپ میں چھوٹی قوم تھی اور ان کے پاس زیادہ آدمی نہیں تھے تو انہوں نے ڈچوں کو کمیشن ایجنٹ کے طور پر اپنے پاس رکھا اور یہی پرتگالیوں کے گلے پڑگئے۔ پرتگالی فلپ دوئم کے خلاف لڑے اور شکست کھائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ نے پرتگال کو 1580ء میں اسپین سے ملا دیا جس کی وجہ سے ان کا مشرق پر سے اثر کم ہوا۔
1588ء میں فلپ دوئم نے انگلینڈ پر حملے کا حکم دیا مگر یہ حملہ ناکام رہا جس کی وجہ سے اسپین کے تقریباً 130 جہاز غرقاب ہوگئے۔ یہ دیکھ کر ڈچوں نے اسپین کے بادشاہ فلپ دوئم کے خلاف بغاوت کی جس کی وجہ سے گرم مصالحے پرتگال نہ پہنچ سکے۔ یوں ڈچوں نے خود کو سمندری طاقت بنانے کی بھرپور کوشش کی اور گرم مصالحے پیدا کرنے والے ممالک سے خود رابطہ کیا اور اپنے تیز رفتار جہاز بنائے۔ وہ بیوپار کے ساتھ سمندری لٹیرے بھی بن گئے۔ انہوں نے وینس کے بجائے ایمسٹرڈیم کو بیوپار کا مرکز بنایا۔
اکبر کے زمانے (1556ء-1605ء) تک، پرتگالیوں نے ڈچ اور انگریزوں کو ہندوستان کے بیوپار کے قریب تک آنے نہیں دیا اور یہ مشہور کردیا کہ یہ دونوں قومیں قزاق اور جاسوس ہیں۔ 1612ء کے بعد ہندوستان کے سمندری کناروں کا منظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔ 1617ء میں جب سورت کے انگریز کمپنی کے کمانڈر نکولس ڈاؤنٹن نے پرتگالیوں پر ایک کامیاب حملہ کیا تو اس وقت شہزادہ خرم گجرات کا گورنر تھا۔ وہ پرتگالیوں کے خلاف تھا مگر 1618ء میں سر تھامس رو جہانگیر سے فرمان لینے میں کامیاب ہوگیا۔ جس کی وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیوپار کے حوالے سے بہت ساری رعایتیں حاصل ہوئیں۔
1625ء میں حالات نے پھر پلٹا کھایا اور خرم نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کی۔ اپنی بغاوت کی کشتی کو کامیابی کے کنارے تک پہنچانے کے لیے اس نے پرتگالیوں سے مدد طلب کی مگر جواب ’بالکل بھی نہیں‘ کی صورت میں آیا، جبکہ انہوں نے تخت و تاج کی مدد کی یعنی جہانگیر کی اور اس طرح ایک دفعہ پھر حالات ان کے لیے کچھ بہتر ہوئے۔ جہانگیر نے 1627ء اکتوبر میں یہ جہان چھوڑا، 1630ء میں پرتگالیوں نے یہ کوشش کی کہ ڈچوں اور انگریزوں کو سورت سے نکال دینا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے گجرات کے گورنر پر دباؤ ڈالنے کی خاطر مغلوں کے کچھ جہاز اپنے قبضے میں کرلیے۔ اس مشکل وقت میں انگریزوں نے گورنر کی مدد کی۔ 1632ء میں ہگلی کے پاس سے شاہجہان نے پرتگالیوں کو سخت شکست سے دوچار کیا۔
1634ء میں شاہجہان نے ڈچوں کو اس شرط پر مراعات دینے کی ہامی بھری کہ وہ پرتگالیوں سے ڈمن اور ڈیو بندرگاہیں خالی کروائیں گے، مگر انہوں نے انکار کیا۔ تاہم یہ ضرور تھا کہ ڈچ اور انگریز بیوپاریوں نے ایسا ماحول بنالیا تھا کہ لوگ پرتگالیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور ان دونوں نے پرتگالیوں کی جگہ لے لی۔
یہ بڑی تیز رفتاری سے گزرنے والے منظرنامے ہیں، اگر آپ غور سے دیکھیں تو ان حقائق میں مغل سلطنت کے زوال کے سارے اسباب آپ کو نظر آئیں گے۔ یہ بڑا اہم ہے کہ 1637ء میں مغلوں نے پرتگالیوں کی بندرگاہوں ڈمن اور ڈیو کا گھیراؤ کیا مگر سورت کی انگلش فیکٹری کے انچارج نے بیچ میں پڑ کر تصفیہ کروا دیا۔ اب چونکہ یہ ان کی حکمتِ عملی تھی کہ ڈمن اور ڈیو پر پرتگالیوں کا رہنا بہتر ہے تاکہ دوسری صورت میں ڈچ قبضہ نہ کرلیں کیونکہ کچھ بھی ہو ڈچ مقامی نہیں تھے اور ان کو کسی وقت بھی بھگانا آسان ہوگا جبکہ اگر ان کی جگہ مغلوں نے قبضہ کرلیا تو ان کو یہاں سے نکالنا مشکل ہوگا۔
یہ بات مغل شہزادوں کو سمجھ میں نہیں آئی۔ ’بٹاویا‘ (مالائی زبان میں بٹاویا بھی کہا جاتا ہے، ڈچ ایسٹ انڈیز کا دارالحکومت تھا۔ یہ علاقہ موجودہ جکارتہ، انڈونیشیا سے ملتا ہے) نے سری لنکا پر کیا ہوا پرتگالیوں کا قبضہ چھڑوایا جس کے بعد 1650ء کے زمانے میں جب شاہجہان اور اس کی اولاد کے دل میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں جھاڑیوں سے درخت بنتی جارہی تھیں اور دھولپور کے جنگی میدان سجنے میں ابھی 8 جاڑوں کا زمانہ بیچ میں تھا تب مشرق بعید میں یہ ملک ڈچوں کے بیوپار کا اہم مرکز تھا اور ’ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ چین کا ریشم اور گرم مصالحے دوسرے ملکوں تک پہنچاتی تھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سمندروں سے پرتگالیوں کو سب سے پہلے بھگانے والے انگریز نہیں ولندیزی تھے۔
1652ء سے 1654ء کے بیچ والے 2 برسوں میں ڈچوں نے انگریزوں کے 3 جہازوں پر قبضہ کیا اور ان میں سے ایک کو تو انہوں نے بالکل برباد کردیا۔ 1672ء سے 1674ء تک کے عرصے میں انگریزوں نے بنگال کے کناروں سے 3 جہاز پکڑ لیے۔ اس کے علاوہ سورت اور بمبئی کے بیچ والے علاقے سے اور جہازوں کو بھی پکڑا مگر افسران سے رویہ ٹھیک رکھا محض اس لیے کہ انگریزوں نے مقامی حکمرانوں (ریاستوں) سے مختلف معاہدے کر رکھے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ڈچوں کو ہندوستان کے ساحلوں سے نکال دیا جائے۔ مگر ڈچ اپنی بیوپاری حیثیت کو 18ویں صدی کے پہلے نصف تک بحال رکھتے آئے۔ 1750ء میں انگریزوں اور ڈچوں کی ایک طویل جنگ چنسورہ کے مقام پر لڑی گئی (جسے بیٹل آف بیڈرا یا بیٹل آف ہوگلی بھی کہا جاتا ہے)۔ اس جنگ میں انگریز جیتے اور ڈچوں کی ہار ہوئی۔
17ویں صدی میں انگریزوں نے بیوپار اور اس کے راستوں پر زیادہ توجہ دی جس کی وجہ سے انہوں نے سورت کو چھوڑ کر بمبئی اور مدراس میں جاکر بیوپاری مراکز قائم کیے اور اس صدی کی آخر میں انہوں نے کلکتہ میں اپنا مرکز قائم کردیا۔ انگریز دھیرے دھیرے آکاس بیل کی طرح ہندوستانی وسائل پر اپنی جڑیں لپیٹتے رہے اور آکاس بیل دیکھنے میں کتنی بھی خوبصورت نظر آئے مگر اس کا یہ کام ہے کہ جس درخت پر اس کی جڑیں پہنچ جائیں وہ اس ہرے بھرے درخت کو نچوڑ کر مار ڈالتی ہیں۔ یہاں بھی ایسا ہی ہونے والا تھا کہ ہم یہاں سے بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ 1857ء کوئی اتنا دُور نہیں۔
یہ وہ سارے حالات تھے جو مغلوں کی سلطنت کے سمندری کناروں اور وہاں سے بمبئی تک آپہنچے تھے۔ اس طرح اب دلی کچھ دُور نہیں رہ گیا تھا۔ ہم شاید پرتگالیوں، ڈچوں اور گوری سرکار کی باتیں کرکے بہت دُور تک نکل آئے ہیں۔ اس ساری اتھل پتھل میں سیاسی حالات کا بڑا عمل دخل رہا۔ اگر مغلوں کے حالات سیاسی حوالے سے بہتر ہوتے تو شاید 1857ء میں اتنے ظلم کبھی نہیں ہوتے۔ اس پر پھر بات کرتے ہیں ہمیں واپس دھولپور چلنا ہے جہاں جون کے دن کسی تنور کی طرح تپتے ہیں اور شاہجہان کے لختِ جگر ایک دوسرے کا خون بہانے کی تیاریوں میں ہیں۔
حوالہ جات:
- ’تاریخ ہندوستان‘۔ مولوی محمد ذکا اللہ۔ 2010ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
- ’شاہجہان نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’قدیم سندھ جی تجارتی تاریخ‘۔ چیتن لال ماڑی والا۔ روشنی پبلیکشن
- ’جنت السندھ‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی۔ سندھیکا اکیڈمی
- Historical Geopraphy of Sind. Maneck.B.Pithawala
- The Portuguese in India. Denvers Frederick Charles. Vol:I, 1894.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔