نقطہ نظر

فضائی میزبان کی آپ بیتی: غریبِ اکبر اور صراطِ مستقیم

میں بولا بھائی گالی نہیں دے رہا پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ ‘سر دیما سے کچھ منگوانا ہے کیونکہ میں تھوڑی دیر میں جاؤں گا کھانا لینے’۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


جدہ کی پرواز کے لیے گھر سے پک اپ ہوا تو ڈرائیور صاحب نے پوچھا ’سر آج کدھر جا رہے ہیں؟‘ جب انہیں بتایا کہ آج جدہ جا رہا ہوں تو ان کی باچھیں کھل گئیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ‘باچھیں کُھل گئیں’ کیونکہ ان کے تبسم کا چیرا گالوں کو کاٹ کر مائیک ٹائسن کے مکے کھائے ہوئے باکسنگ پیڈ جیسی کانوں کی لووں تک پہنچ گیا تھا۔

آنکھوں میں چمک آگئی اور کہنے لگے ’سر میں نے بڑا عرصہ جدہ میں ٹیکسی چلائی ہے‘۔ میرے ‘اچھا! واہ بھئی’ کہنے کی دیر تھی کہ ان کی داستان شروع ہوگئی۔ اب ظاہر ہے بندہ کسی کی بات پر جواب میں ‘بُرا! واہ بھئی’ تو کہہ نہیں سکتا۔

کہنے لگے سر جب میں سعودیہ پہنچا تو میرے کفیل نے ایک گھر میں رہنے کو جگہ دی۔ وہاں اور ڈرائیور بھی رہتے تھے۔ ان میں سے ایک میرا ہم نام تھا اور انڈیا سے آیا ہوا تھا۔ کفیل مجھے پاکستانی اکبر کہنے لگا اور دوسرے لڑکے کو انڈین اکبر۔ ایک دوپہر میں نیچے ہال میں بیٹھا تھا تو اوپر سے کفیل کی آواز آئی۔

پاکستانی اکبر، تعال تعال

مجھے عربی تو زیادہ آتی نہیں تھی۔ میں سمجھا کہ شاید ‘تھال’ (پرات، تھالی) منگوا رہا ہے کیونکہ کھانے کا ٹائم بھی ہے، اس نے یقیناً بکرا پکایا ہوگا اور مجھے بھی کھلانا چاہتا ہوگا، کتنا اچھا آدمی ہے۔ میں نے کفیل کو جواب میں آواز لگائی کہ ‘آیا آیا تھال’ اور کچن سے ایک تھالی پکڑ کر اوپر بھاگا۔ کچھ ہی لمحوں میں میرے منہ کے اندر عربی انداز میں پکے بکرے کی بوٹیوں کا ذائقہ بھی بن چکا تھا۔ اوپر پہنچا تو وہ تیار ہوکر کہیں جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ میرے ہاتھ میں تھالی دیکھ کر حیران ہوا اور اس کی طرف اشارہ کرکے عربی میں پوچھنے لگا کہ یہ کس لیے۔ میں نے جواب میں اپنی طرف اشارہ کیا اور کہا

انا اکبر، (اور تھالی کو دیکھ کر کہا) ‘تھال’

وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا اور میرے دوست کو (جو مجھے سعودیہ لے کر آیا تھا) فون لگا کر سارا قصہ سنانے لگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ تعال کا مطلب ہے ‘اِدھر آؤ’۔

پھر کہنے لگے سر ایک بار سواری کو لے کر جا رہا تھا تو منزل پر پہنچنے سے کچھ دیر پہلے وہ آدمی کہنے لگا

ھنا قریب، ھنا قریب(بس یہاں نزدیک اتار دو)

مجھے ایسے سمجھ آئی جیسے وہ کہہ رہا ہے کہ ‘انا غریب’ یعنی میں غریب ہوں اور اس کا مطلب کرایہ نہیں دے سکوں گا۔ میں نے پریشان ہوکر گاڑی سائیڈ پر لگا کر پیچھے دیکھا اور اسے کہا

لا لا، انا غریب، غریب اکبر (نہیں نہیں، میں غریب ہوں، سب سے بڑا غریب)

اس وقت میرا نام بہت ہی فٹ بیٹھا سر کیونکہ میری امّی نے بھی بتایا تھا کہ بیٹا اکبر کا مطلب ہے سب سے بڑا جیسے اللہ اکبر۔ تو بس اس وقت میں ‘غریبِ اکبر’ بن گیا۔ وہ عربی کچھ دیر تو مجھے بھنویں سکیڑ کر دیکھتا رہا۔ پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔ مجھے کرایہ دیا اور اترتے وقت کہنے لگا

أنت لست غريباً، فالكلمة الصحيحة المسکین(تم عجیب نہیں ہو، صحیح لفظ مسکین ہے)

میں نے فٹافٹ شكراً شكراً کہہ کر پیسے پکڑے اور شام میں دوست کو بتایا کہ وہ عربی کیا کہہ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ غریب کا مطلب ‘عجیب’ ہوتا ہے اور غربت کا مظاہرہ کرنا ہو تو صحیح لفظ ‘مسکین’ ہے۔

چونکہ ایئر پورٹ ابھی دُور تھا تو ایک قصہ اور سنایا کہ ایک بوڑھی عربی خاتون اکثر ان سے رابطے میں رہتی تھیں۔ مہینے کا سودا سلف لانے کے لیے اکثر گاڑی منگواتی تھیں۔ ایک شام انہوں نے گاڑی منگوائی تو ان سمیت 3 اور خواتین جو خوب تیار تھیں گھر سے نکلیں۔ ان میں سے ایک کم عمر اور نہایت حسین تھی۔ ڈرائیور کہنے لگا کہ سر اگر ایک ہی وار میں گردن اڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو بڑے ارمان تھے دل میں۔

خیر وہ دوشیزہ اگلی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی کیونکہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر تینوں ‘النساء الکبیرا’ ٹھسا مار کر بیٹھی تھیں۔ میں نے درخواست کی کہ پیچھے ایڈجسٹ ہوجاؤ کسی طرح مگر وہ نہ مانی۔ میں نے کہا

الخطرہ فی الشرطہ(پولیس کا خطرہ ہے، یعنی پولیس میرا چالان کردے گی)

کہنے لگی ‘انا تکلم فی الشرطہ’(پولیس سے میں بات کرلوں گی)

میں پھر سمجھانے لگا تو ذرا غصہ کرگئی، کہنے لگی

یلاہ یلاہ، انا الشرطہ، لا مشکلہ(چلو چلو، میں خود پولیس ہوں، کوئی مسئلہ نہیں)

مرتا کیا نہ کرتا، چل پڑا۔ شکر ہے ہال کچھ دُور ہی تھا اور اس دن بچت ہوگئی۔

ایئر پورٹ آچکا تھا۔ میں جہاز پر پہنچا۔ پرواز اچھی گزر گئی۔ جدہ پہنچے تو ہوٹل جاتے ہوئے میں نے ایک ساتھی سے پوچھا کھانے کا کیا سین ہے۔ کہنے لگا ‘دیمے’ سے کھا لیں گے۔ ساتھ بیٹھے دوسرے ساتھی نے بھی اس کی تائید کی کہ ہاں ‘دیمے’ کا کھانا اچھا ہے۔ میں نے سوچا یقیناً کوئی دیسی بندہ ہے جس کا نام ندیم ہوگا۔ خیر ہوٹل پہنچے تو روڈ کی دوسری طرف نظر پڑی۔ بڑے سے بورڈ پر ‘دیما’ لکھا ہوا تھا اور نیچے دھڑا دھڑ شوارمے بن رہے تھے۔ پتہ چلا کہ دکان کا نام ہی ‘دیما’ ہے جو ہمارے قبیلے میں کثرتِ استعمال کی وجہ سے ‘دیمے’ تک پہنچ چکا ہے۔

میں نے اپنے سینئر کی طرف دیکھ کر ‘سر دیما’ کہا ہی تھا کہ میرے ساتھی نے ٹوکا

‘اوئے آہستہ بول، سر کو گالی تو نہ دے پاگل۔’

میں بولا بھائی گالی نہیں دے رہا پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ ‘سر دیما سے کچھ منگوانا ہے یا نہیں کیونکہ میں تھوڑی دیر میں جاؤں گا کھانا لینے’۔ پتہ نہیں وہ کیا سمجھا خیر ‘دیمے’ سے کھانا کھایا اور بازار جانے کا پروگرام بنایا۔

بازار کا نام ‘البلد’ معلوم ہوا۔ ٹیکسی روکی اور اسے فقط ‘بلد’ کہا۔ دیسی بندہ تھا سمجھ گیا اور کہنے لگا عشرہ ریال۔ عشرہ سن کر عجیب سا لگا کیونکہ اس سے پہلے یا تو ‘عشرہ مبشرہ’ کا لفظ سنا تھا یا مجالس عزا کے اعلانات میں کہ فلاں مولانا صاحب پہلا عشرہ پڑھیں گے۔ بلد پہنچے تو ایک جگہ ٹیکسی رک گئی۔ وہاں سفید بورڈ پر لال رنگ سے ‘وقوف’ لکھا تھا یعنی انگریزی میں ‘اسٹینڈ’۔ میں نے سوچا اس کا مطلب کہیں رکنا ہے تو ‘وقوف’ اور اگر نہیں رکنا تو ‘بے وقوف؟’

وقت کم اور مقابلہ سخت تھا لہٰذا ہم لوگ بازار میں ‘بے وقوف’ رہے اور کافی چیزیں خرید لیں۔ قسم قسم کی خوشبوئیں بازار میں پھیلی ہوئی تھیں۔ کہیں مصالحے رکھے تھے اور کہیں عود و عنبر جل رہے تھے۔ غرض یہ کہ سر میں درد شروع ہوگیا۔ ایک کجھور فروش کے پاس رکے۔ سنا تھا کہ عملہ اسی سے کجھوریں لیتا ہے۔ روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کلو کجھور چکھ کر کلو کلو پیک کروائی اور چلتے بنے۔

واپسی کے لیے ٹیکسی کروائی تو شام کا وقت تھا اور ڈرائیور کسی اور طرف سے لے آیا۔ اب روڈ کی سمجھ نہیں آ رہی تھی اور اوپر سے ڈرائیور بھی عربی تھا۔ اچانک مجھے ‘البیک چکن’ لکھا ہوا نظر آیا۔ یہ روڈ سیدھا ہوٹل کو جاتا تھا۔ ہوٹل کا نام ‘ہالی ڈے ان’ تھا۔ میں نے ڈرائیور کو کہا

فندق تعطیل، ھذا صراطِ مستقیماور ساتھ میں ہاتھ سے سامنے کی طرف اشارہ بھی کردیا۔

بستی (بے عزتی) تو کافی خراب ہوئی کیونکہ ‘تعطیل’ کا لفظی مطلب عربی میں ‘معطل یعنی معذور (ڈس ایبل)’ کے پیرائے میں استعمال ہوتا ہے لیکن میں راستہ سمجھانے میں کامیاب رہا۔

ہنس ہنس کر جب پیٹ کے ‘بل’ سیدھے ہوئے تو عربی ڈرائیور نے پوچھا ‘حاجی؟’ یعنی کیا تم لوگ عمرہ کرنے آئے ہو؟ اب عربی میں عملے کے لیے ‘ملاح‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع ‘ملاحین’ ہے۔ جب میں اسے کہنے لگا ‘نحن ملاحین’ تو ایویں مجھے کھانسی آگئی اور چنگا بھلا ملاحین، ‘ملاحیحیحیحن’ بن گیا۔ سب کے پیٹ میں پھر وٹ پڑ گئے لیکن شکر ہے ہوٹل جلدی آگیا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ڈرائیور صاحب کو کتنی مشکل ہوئی ہوگی عربی سیکھنے میں۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔