پاکستان

وکلا پر مبینہ تشدد: عدالت کا رانا ثنااللہ، اعلیٰ پولیس حکام کے خلاف مقدمے کا حکم

یہ حکم ایک وکیل کی جانب سے عدالت میں درخواست دینے کے بعد جاری کیا گیا جس میں پولیس پر مقدمہ درج نہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔
|

لاہور کی سیشن کورٹ نے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور اعلیٰ پولیس حکام کے خلاف 25 مئی کو پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کے دن صوبائی دارالحکومت میں وکلا پر مبینہ تشدد کے الزام میں فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

یہ حکم حیدر مجید ایڈووکیٹ نامی وکیل کی جانب سے عدالت میں درخواست دینے کے بعد جاری کیا گیا جس میں پولیس پر مقدمہ درج نہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

بیرسٹر حسن نیازی اور دیگر وکلا نے درخواست گزار کی نمائندگی کی جبکہ کمرہ عدالت میں واقعے کی ویڈیو بھی چلائی گئی۔

درخواست گزار نے وزیر داخلہ، سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور، ایس پی عیسیٰ سکھیری (نارتھ کینٹ لاہور)، ایس پی وقار عظیم کھرل، ڈی ایس پی اکبر علی، ایس ایچ او اسد عباس اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔

درخواست پر دلائل سننے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج میاں مدثر عمر بودلہ نے متعلقہ اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت فوجداری مقدمے کے اندراج اور قانون کے مطابق معاملے پر کارروائی کا حکم دیا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار اور اس کے ساتھی اپنی گاڑی میں سوار تھے جب انہیں پولیس نے کھینچ لیا۔

حکم میں کہا گیا کہ درخواست گزاروں پر لاٹھی چارج کیا گیا، ذلیل کیا گیا، بے عزت کیا گیا اور ان کی گاڑی کو بری طرح سے نقصان پہنچایا گیا حالانکہ وہ قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’احتجاج کی اجازت دی جائے‘، پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی

بعد ازاں عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے عدالتی حکم کی نقل کے ساتھ متعلقہ ایس ایچ او سے رجوع کریں۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے آزادی مارچ سے قبل حکام نے دفعہ 144 نافذ کی تھی جو کہ اجتماعات کو روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

حکومت نے مظاہرین کا راستہ روکنے کے لیے بڑے راستوں پر شپنگ کنٹینرز بھی رکھے اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس مارچ کا مقصد افراتفری اور بدنظمی پھیلانا تھا۔

اس حرکت مارچ کرنے والوں نے کنٹینرز ہٹا کر زبردستی اسلام آباد جانے کی کوشش کی، پولیس نے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی تو انہیں آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا جس پر پولیس نے ان پر لاٹھی چارج بھی کیا۔

گزشتہ ہفتے عمران خان نے ٹوئٹر پر مبینہ پولیس بربریت کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی اور اسے ’قابل مذمت اور ناقابل قبول‘ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ملک بھر میں مقدمات کا سامنا

انہوں نے کہا تھا کہ آئین اور سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اڑاتے ہوئے اس مجرم امپورٹڈ حکومت نے ہمارے آزادی مارچ کے شرکا کے خلاف پولیس کی وحشت آزمائی، ہمارے مارچ سے ایک رات قبل پنجاب و سندھ میں پی ٹی آئی کارکنان کے گھروں کی حرمت پامال اور اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مارچ کے دوران ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف ان کی جماعت مقدمات کے اندراج کے لیے ہائی کورٹس میں درخواست دائر کرے گی۔

صبا قمر کا رواں برس کے اختتام تک شادی کرنے کا عندیہ

پاکستان میں اسنو بورڈنگ کا مستقبل کیا ہے؟

حمل سے متعلق عام توہمات اور غلط فہمیاں