پاکستان

پی ٹی آئی کے پاور شو کو روکنے کیلئے حکومت نے کمر کس لی

ملک کے تمام بڑے شہروں میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی، پنجاب میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے رینجرز طلب کرلی گئی، رپورٹ
| | | |

دارالحکومت اسلام آباد میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے 'آزادی مارچ' کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کے بعد حکومت نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے ایک بڑے پاور شو کو ناکام بنانے کے لیے کریک ڈاؤن میں ایک ہزار سے زائد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جب کہ پنجاب حکومت نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے رینجرز طلب کرلی، سیکریٹری داخلہ پنجاب سید علی مرتضیٰ نے تصدیق کی کہ رینجرز اہلکاروں کی مدد طلب کر لی گئی ہے۔

اسلام آباد کی جانب جانے والے تمام داخلی اور خارجی راستے بند ہونے کے بعد لاہور اور جڑواں شہروں کے درمیان چلنے والی ٹریفک بھی معطل ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کا اعلان

لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق کسی کو بھی اپنی ضلعی حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی اور موٹر ویز اور جی ٹی روڈ کی جانب جانے والی لنک روڈز سمیت تمام اہم سڑکوں پر کنٹینرز اور رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں۔

حکومت نے ٹرانسپورٹرز کو پی ٹی آئی کارکنوں کو بسیں، کاریں اور وین فراہم نہ کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

جی ٹی روڈ پر اٹک پل کو بھی بند کر دیا گیا ہے جبکہ صوابی کے قریب ایم ون موٹر وے کو بند کر دیا گیا ہے، لاہور سے ایم ٹو موٹروے کی جانب جانے والے راوی ٹول پلازہ پر بھی کنٹینرز رکھے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ کا شور آئی ایم ایف سے مذاکرات متاثر کرنے کے لیے مچایا گیا، نواز شریف

پولیس ذرائع کے مطابق راولپنڈی ضلع میں سڑکوں کو بلاک کرنے کے لیے 150 مال بردار کنٹینرز سڑکوں پر رکھے گئے ہیں جب کہ راولپنڈی اور اٹک پولیس کی مدد کے لیے ملتان، لاہور، فاروق آباد اور سرگودھا سے 4 ہزار پولیس اہلکاروں کو بلالیا گیا ہے۔

حکومتی انتظامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری (جنہیں چند روز قبل حراست میں لیا گیا تھا اور بعد میں عدالتی احکامات پر رہا کیا گیا تھا) نے نیشنل پریس کلب میں 'میٹ دی پریس' پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں کبھی بھی احتجاج اور دھرنے نہیں روکے۔

انہوں نے کہا ’لوگوں کو مارچ میں شرکت سے روکنے کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے، میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اگر حکومت نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا تو مارچ کرنے والے ثابت قدم رہیں گے‘۔

کارکنان کی گرفتاریاں

سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکام نے صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 ہزار 76 پی ٹی آئی کارکنان اور عہدیداروں کی فہرست تیار کی تھی جنہیں لانگ مارچ میں شرکت سے روکا جانا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے کے مختلف ڈویژنوں سے پی ٹی آئی کے 1200 سے زائد کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے جن میں لاہور سے 149، ساہیوال سے 93، فیصل آباد سے 139، گوجرانوالہ سے 89، سرگودھا سے 197، بہاولپور سے 32، ڈی جی خان سے 183 اور ملتان سے 314 کارکنان شامل ہیں، اس کے علاوہ ضلع راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے 86 کارکنوں اور مقامی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا جن میں سے بیشتر کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔

اس کے علاوہ کراچی پولیس کی جانب سے رات گئے چھاپوں کے بعد صرف ایم این اے سیف الرحمان محسود کو ان کی سہراب گوٹھ کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا جاسکا جب کہ چھاپہ مار ٹیمیں تقریباً دیگر تمام مقامات سے خالی ہاتھ واپس لوٹیں، جس سے پارٹی کی صفوں میں غصہ پھیل گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی کے کارکنوں، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور عہدیداران کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ضلعی پولیس افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں پی ٹی آئی کو روکیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں گھروں پر چھاپے مارنے اور پی ٹی آئی کی حمایت میں نعروں، جھنڈوں اور اسٹیکرز والی گاڑیوں کو ضبط کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ پولیس اپنے متعلقہ علاقوں کے ڈپٹی کمشنروں سے نظر بندی کے احکامات حاصل کررہی ہے جس کے تحت پولیس ان افراد کو 90 دن تک حراست میں لے سکتی ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر روک سکیں۔

پولیس اہلکار کا قتل

پی ٹی آئی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک حامی نے ایک کانسٹیبل کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب پولیس نے ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

اطلاعات کے مطابق پولیس کی ٹیم ماڈل ٹاؤن میں میجر ریٹائرڈ ساجد حسین کے گھر پہنچی تو ان کے بیٹے نے چھت سے ان پر فائرنگ کردی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: پولیس، انتظامیہ کو پی ٹی آئی کارکنان کو ہراساں نہ کرنے کا حکم

اس کے نتیجے میں کانسٹیبل کمال احمد کو سینے میں گولی لگی جنہیں علاج کے لیے قریبی اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے، پولیس نے مقدمہ درج کر کے میجر ریٹائرڈ ساجد حسین اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں مقتول پولیس اہلکار کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔

جبری گمشدگی سے متعلق بل پر آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کا کہا گیا، شیریں مزاری

’صلاح الدین ایوبی‘ جلد نشر کیا جائے گا، ہمایوں سعید

پاکستان کو 3 ارب ڈالر کی سہولت میں توسیع آخری مراحل میں ہے، سعودی وزیرخزانہ