نقطہ نظر

فضائی میزبان کی آپ بیتی: کیا آپ فضائی میزبان بننا چاہتے ہیں؟

فضائی میزبان چھٹی لے کر مفت ٹکٹ پر دنیا کے کسی حصے میں بھی گھومنے جاسکتے ہیں اور انہیں طرح طرح کے ذائقے چکھنے کا موقع ملتا ہے۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو میرا مشورہ ہے کہ پہلے آپ کسی فضائی میزبان سے سلام دعا رکھیں اور اس نوکری کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔

ہمارے یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ کیریئر کاونسلنگ کا بھی ہے۔ بچوں کو وہ پڑھنے نہیں دیا جاتا جس مضمون میں ان کا رجحان ہوتا ہے۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو ایسی نوکریاں کر رہے ہیں جس سے ان کی حاصل کردہ ڈگری کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجہ نوکریوں کا نہ ہونا بھی ہے لیکن بات کہیں اور نکل جائے گی۔

ڈاکٹر بننا ہے تو میڈیکل کی پڑھائی کرتے کرتے لگ پتہ جاتا ہے کہ طب کی دنیا کے کیا معاملات ہیں۔ اکاؤنٹس اور فنانس کی پڑھائی کرنے کے بعد اگر بینک یا کسی مالیاتی ادارے میں نوکری لگے تو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اندرونِ خانہ کیا کارستانیاں کرنی پڑیں گی۔ اسی طرح بہتر ہوتا ہے کہ اگر روزگار حاصل کرنے سے پہلے اس کے بارے میں پڑھ لیا جائے یا چھوٹی موٹی انٹرن شپ کرلی جائے تو اور اچھا ہوتا ہے۔

فضائی میزبان جس کو انگریزی میں کیبن کریو یا فلائیٹ اٹینڈنٹ کہا جاتا ہے، بننا اور اس کو بطور پیشہ اپنانا باہر تو نہیں لیکن ہمارے ملک میں انوکھا سمجھا جاتا ہے۔ انوکھا اس لیے کہ ہوائی سفر کے بارے میں ہمارے یہاں لوگوں میں زیادہ ادراک نہیں پایا جاتا۔ اگر کسی کو بتائیں کہ آپ کسی فضائی کمپنی میں کام کرتے ہیں تو جھٹ سے سب لوگ ٹکٹوں کی قیمتیں پوچھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس پر اگر آپ یہ بتا دیں کہ آپ فضائی میزبان یا کیبن کریو ہیں تو سر تا پا ‘ہیں؟’ کی شکل بن جاتے ہیں۔ بعد میں خلاصی اس بات پر ہوتی ہے کہ ‘اچھا! تو آپ ایئر ہوسٹل (ائیر ہوسٹس) ہیں بیٹا!؟‘

دولت، سیر سپاٹا اور عیاشی کی چکا چوند سے بھرپور زندگی کی عکاسی کرتی اس نوکری کے پیچھے ایسے ایسے عوامل کارفرما ہیں جو دانتوں سے پسینے کی ‘نکاسی’ کروا دیتے ہیں۔ یہ وہ نوکری نہیں جو لوگ 9 سے 5 بجے تک کرتے ہیں۔ اس میں نوکری کا دورانیہ 12 گھنٹے سے تجاوز کرکے 18 گھنٹے تک جاسکتا ہے۔ نیند قربان کرنی پڑتی ہے اور سماجی تعلقات اور روابط کو خیر آباد کہنا اور ‘غیر آباد’ رکھنا پڑتا ہے۔

ایک فضائی کمپنی اس نوکری کے لیے درخواست دینے والوں کو عموماً 5 سے 7 مہینوں میں جواب دیتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ فضائی میزبانوں کی بھرتی کے لیے اگر 5 ہزار آسامیاں ہوں تو اس پر 10 سے 15 لاکھ درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں۔ اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ۔ پھر انٹرویو لیے جاتے ہیں جو 2 سے 3 مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تعلیمی قابلیت بیچلر ڈگری مانگی جاتی ہے۔ کہیں کہیں 12ویں پاس بھی چل جاتے ہیں۔ پھر ہر کمپنی اپنے مطابق تربیتی کورس کرواتی ہے جو 3 سے 6 مہینوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

تربیت کے دوران جہاز اور ہوائی سفر کی بنیادی سائنس پر مشتمل مواد پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کشش ثقل کے خلاف سر اٹھاتا جہاز جب ہوا کو چیرتا پھاڑتا بلندی کی طرف اٹھتا ہے تو اس وقت جہاز کے انجن، پروں اور دم کے اندر کون کون سی طاقتیں قدرت سے نبردآزما ہو رہی ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ آپ کو بھی اپنی طاقت جمع رکھنی پڑتی ہے قدرتی نظام کے خلاف جانے کے لیے۔ اس نوکری میں ‘یہ تو ہوگا‘۔

قدرتی نظام کے خلاف ایسے کہ اگر صبح 6 بجے پرواز ہے تو 3 بجے گھر سے نکلنا ہوگا۔ مطلب 2 بجے اٹھ کر تیاری کرنی ہوگی۔ گل گئی نا ساری رات؟ اب جہاں پہنچیں گے، بھلے لاہور سے کراچی، ہوائی اڈے سے ہوٹل جائیں گے، ساری رات کے جاگے ہوں گے۔ اب نیند بھی آئے گی اور بھوک بھی لگی ہوگی۔ ایسے مواقع پر بھوک کو گولی مار کر بندہ نیند کے ساتھ بھاگنے کی کرتا ہے۔ کھانا کہ جس کو آپ ‘میجر میل’ کہتے ہیں، نہیں کھایا اور صبح ناشتہ بھی ایسے ہی بھاگتے دوڑتے کیا تھا۔ اب آپ رات کو اٹھیں گے اور اچھا خاصا مزیدار سا کچھ کھا کر سونے کی ناکام کوشش کریں گے کیونکہ نیند پوری ہوچکی ہوگی۔ اور سویرے پھر پرواز۔ پس ثابت ہوا آپ کو اس نوکری کے دوران اپنے کھانے پینے اور نیند کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنانا پڑے گا۔

ابتدائی طبّی امداد فراہم کرنے کے بارے میں مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر پرواز کے دوران کسی کو طبّی امداد کی ضرورت پڑجائے تو عملہ اس قابل ہوتا ہے کہ جہاز اترنے تک وہ بیمار مسافر کا خیال رکھ سکے اور جہاز اترنے کے بعد ہوائی اڈے پر موجود ڈاکٹر کو مریض کے بارے میں اس کے علاج کے لیے مفید معلومات فراہم کرسکے۔ سر درد کے شکار مسافر سے لے کر پرواز کے دوران انتقال کر جانے والے مسافر کے جسم کو کیسے سنبھالنا ہے، یہ دنیا کا ہر فضائی میزبان جانتا ہے۔ مصنوعی تنفس کے طریقے یعنی سی پی آر کی تربیت بھی ابتدائی طبّی امداد کا اہم حصہ ہیں۔ ان میں جیسے جیسے جدت آتی ہے اسی طرح عملے کو اس کی تربیت دورانِ ملازمت بھی دینا جاری رہتی ہے کہ اس سے زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

عملے کو آگ پر قابو پانے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ زبان سے لگی آگ اور جہاز پر لگی آگ برابر درجے کی خطرناک اور جان لیوا ہوتی ہیں۔ زبان سے لگائی گئی آگ کو بجھانے کے لیے وقت لگتا ہے لیکن جہاز پر لگی آگ کو انتہائی قلیل وقت میں قابو نہ کیا جائے تو یہ آپ کو قابو کرلیتی ہے۔ جہاز کے ہر حصے میں آگ بجھانے کے آلات موجود ہوتے ہیں اور عملے کو اس بات کی تربیت دی جاتی ہے کہ آگ کی قسم جانچ کر اس پر موافق آلہ یعنی ‘fire extinguisher’ استعمال کیا جائے۔ مثلاً کپڑے پر لگی آگ تیل سے لگنے والی آگ سے مختلف ہوتی ہے۔

فضائی میزبان کا بنیادی کام اور ذمہ داری جہاز پر موجود مسافروں کی حفاظت کرنا اور ہنگامی حالات میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ باقی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں مگر اس بات کا ادراک ہمارے یہاں بہت ہی کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرکے یہ نوکری کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو بہت سا پانی اور پوری نیند کے علاوہ بہت زیادہ تحمل اور برداشت کے ساتھ عفو و درگزر کی فراوانی اپنے آنگن میں رکھنی پڑے گی۔ پانی اس لیے کہ جہاز میں 3 گھنٹے کی پرواز کرنے سے آپ کے جسم میں ڈیڑھ لیٹر پانی کی کمی ہوجانے کا امکان ہوتا ہے۔ اگر یہ روش سالہا سال جاری رہے تو بعید نہیں کہ آپ بنجر زمین کے ٹکڑے کی مانند نظر آئیں۔

پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام، مختلف ملکوں کی سیر اور ان کی ثقافت کو قریب سے پرکھنے کے علاوہ ایک الگ طریقے کا لائف اسٹائل بھی اسی نوکری کا خاصہ ہے۔ دنیا کے ان تمام ہوٹلوں میں خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ عملے کو ایسے کمرے دیے جائیں جن میں ٹریفک اور ہوٹلوں کے اندر منعقدہ تقریبات کا شور شرابہ کم پہنچے کیونکہ پُرسکون نیند اور آرام عملے کے لیے اگلی پرواز پر بہتر طور پر کام کرنے کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔

اگر آپ ایک بین الاقوامی فضائی کمپنی کے ساتھ کام کرتے ہیں تو دنیا کے مشہور شہر مثلاً لندن، پیرس اور نیویارک وغیرہ آپ کے لیے ایسے ہوجائیں گے جیسے آپ کی خالہ یا پھوپی کا گھر۔ سوموار کو اگر آپ لندن میں ہیں تو عین ممکن ہے جمعرات کو آپ نیویارک میں ہوں اور اتوار کی صجح واپس لاہور آکر کزن کی شادی کا کھانا کھا رہے ہوں۔ اس نوکری میں زندگی بہت تیز چلنے لگتی ہے۔

فضائی عملے کے لیے دنیا کے تمام ہوائی اڈوں کی ڈیوٹی فری شاپس پر ڈسکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ دنیا کے اکثر شہروں کے ‘بیت الرقص’ یعنی ڈسکو کلب وغیرہ میں داخلہ آسان اور مفت ہوتا ہے۔ چھٹی لے کر آپ مفت ٹکٹ پر دنیا کے کسی حصے میں بھی گھومنے جاسکتے ہیں۔ طرح طرح کے ذائقے چکھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں میری مراد صرف کھانے پینے سے ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب آپ مختلف ذائقوں کے کھانے کھانے کی کوشش کریں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیرس اور نیویارک جاکر بھی ساگ اور دال ہی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ نوکری گھر تک نہیں آتی۔ آفس کے کام، فائلیں، اسائنمنٹس اور ان سب کے ساتھ ڈیڈ لائن کے چکر لوگوں کو گھر پر بھی پریشان کیے رکھتے ہیں جبکہ یہ نوکری جہاز پر شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ اس نوکری میں روز نیا باس اور نئے ساتھی ہوتے ہیں۔ عملے کے سردار کو ‘Senior purser’ کہا جاتا ہے اور کہیں ‘Flight manager’ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک کمپنی میں اگر 3 سے 4 ہزار فضائی میزبانوں کا عملہ ہو تو روز نئے ساتھیوں کے ساتھ پرواز پر جانے کا موقع ملتا ہے۔

بس دل لگا کر کام کریں اور اپنا بہت زیادہ خیال رکھیں تو یہ نوکری بہترین ہے۔ باقی غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور انسان روز کچھ نیا سیکھتا ہے۔ جیسے کہ نوکری کے شروع کے دنوں میں مسافروں کے حفاظتی بند چیک کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ 3 اکٹھے بیٹھے ہوئے شلوار قمیض میں ملبوس لوگوں نے حفاظتی بند نہیں باندھے۔ میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے باندھا ہوا ہے۔ مجھے نظر نہیں آئے تو میں بھی وہیں کھڑا ہوگیا کہ دکھاؤ کہاں باندھا ہے۔ تینوں نے بیک وقت قمیضیں اٹھا دیں اور شلواروں کے عین نیفوں پر بندھے حفاظتی بند میرا منہ چڑانے لگے۔ میں نے تسلی کروانے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ سیکھا کہ کبھی کبھی زیادہ اصرار بھی اچھا نہیں ہوتا۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔