فضائی میزبان کی آپ بیتی: جسم کی گھڑی اور ملائشین کھابے
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
جس طرح وقت معلوم کرنے کے لیے ہم سب گھڑیاں استعمال کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے جسم کی بھی ایک گھڑی ہوتی ہے جس کو عرفِ عام میں ’باڈی کلاک‘ کہا جاتا ہے، یعنی جسم کی گھڑی۔
اگر وقت پر نیند پوری کی جائے تو باقی کے معاملات صحیح طور پر چلتے رہتے ہیں بالکل آپ کے موبائل کی چارجنگ کی طرح۔ جیسے 10 فیصد بیٹری کے ساتھ آپ کا موبائل پورا دن نہیں نکال سکتا اسی طرح آپ 2 یا 3 گھنٹے کی نیند کے ساتھ پورا دن نہیں چل سکتے۔ فضائی میزبان کی نوکری میں یہ معاملہ مزید گھمبیر ہوجاتا ہے۔
تربیتی مراحل کے دوران بنیادی باتوں میں سے ایک یہ بتائی جاتی ہے کہ پرواز سے پہلے اور بعد میں نیند اور آرام کو ہر صورت مکمل رکھنا فرض ہے۔ دنیا بھر کے مسافر اور خاص کر برِصغیر پاک و ہند کے معزز فضائی مسافروں کو جس طرح کی مہمان نوازی کی عادت ہوچکی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس خطے کے فضائی میزبانوں کے پاس سروس نمٹانے کے لیے روشنی جیسی رفتار، ہرکولیس جیسی جسمانی طاقت اور چانکیہ کوٹلیہ جیسی دماغی طاقت موجود ہو۔ یہ تمام چیزیں نوکری کے اشتہار میں قابلیت کے معیار کے لیے تو نہیں مانگی جاتیں لیکن اگر مانگ لی جائیں تو کافی اچھا ہو۔
خیر نیند اور آرام کی بات ہو رہی تھی تو اگر آپ کا کوئی عزیز فضائی میزبان ہے اور آپ کے خیال میں وہ ہر وقت بلاوجہ سوتا یا آرام کرتا رہتا ہے تو مایوس نہ ہوں۔ وہ بہت ضروری کام سے سو رہا ہوتا ہے۔
ایک دوست جو آئی ٹی پروفیشنل ہیں، وہ ایک امریکی سافٹ ویئر کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ایک پراجیکٹ جو کافی لمبا ہوگیا اور ان کو کلائنٹ سے رات گئے بات کرنی پڑتی تھی کہ یہاں رات ہوتی تو وہاں دن چڑھتا۔ اس لیل و النہار کی تبدیلی کا شکار ہوکر وہ قدرتی اوقات حاجت کھو بیٹھے اور معاملہ سنگین نوعیت اختیار کرگیا۔
مقبوضہ انتڑیاں لیے انہوں نے باس کو ای میل لکھی کہ مجھے اس پراجیکٹ سے ہٹا دیا جائے یا اوقاتِ کار میں تبدیلی کی جائے کہ نیچر کال وقت پر نہیں آتی بلکہ اس کا فون ہی انگیج ہو چلا ہے۔ غنیمت تھی کہ باس گورا تھا، معاملہ سمجھ گیا۔ اگر مسلسل رات کی پروازیں کی جائیں تو یہی کام فضائی عملے کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہر فرد کے لیے نوکری کے رات اور دن کے گھنٹے مخصوص ہوتے ہیں تاکہ گھس بیٹھیے بیکٹیریا آنتوں پر قابض نہ ہوسکیں۔
زیادہ تر پروازیں یورپ اور امریکا کی جانب ہونے کی وجہ سے مجھ سمیت فضائی عملے کے ارکان وقت سے پیچھے چلنے والے جیٹ لیگ کے عادی ہوتے ہیں۔ اس حساب سے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے علاوہ باقی معاملات کے لیے ہم لوگ باڈی کلاک کو مناتے رہتے ہیں اور کچھ کامیابی بھی ہوجاتی ہے۔ مزہ تب آتا ہے جب ہمیں مشرق بعید کی کوئی پرواز کرنی پڑجائے۔ سونے پر سہاگے والی بات یہ ہوتی ہے کہ لندن سے آنے کے دو دن بعد ملائیشیا یا چین جانا پڑجائے۔ لندن پاکستان کے مقامی وقت سے 5 گھنٹے پیچھے اور کوالا لمپور، ملائیشیا 3 گھنٹے آگے ہے۔
رات 3 بجے گاڑی میں سوار ہوئے کہ صبح 6 بجے پرواز نے کوالالمپور کے لیے روانہ ہونا تھا۔ موت اور پرواز کا ایک دن معین ہے لیکن جس صبح پرواز ہو اس رات عملے کو نیند نہیں آتی اور ویسے بھی وردی پہنتے ہی بندہ ایک دم خواہ مخواہ اتنا الرٹ ہوجاتا ہے کہ نیند آنے لگتی ہے۔
اسی ’چستی‘ کے عالم میں گاڑی میں سوار ہوا تو ڈرائیور صاحب نے 1990ء کی دہائی کے گانوں کی گیت مالا اپنے موبائل پر لگا رکھی تھی جس میں کمار سانو اپنی خواب ’ناکی‘ آواز میں کسی حسینہ کی بے وفائی کا رونا رو رہے تھے۔ میں یہ گیت سنتا ہوا غنودگی کے عالم میں اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گیا۔
ایسے گانے زیادہ تر لوکل بسوں یا پھر نائیوں کی دکانوں پر سننے کو ملتے ہیں جن کے شٹر پر ’گرم حمام کا انتظام ہے‘ لکھا ہوتا تھا اور حمام کے کواڑ پر ایک طرف کالی بنیان اور بالوں میں ملبوس انیل کپور اور دوسرے کواڑ پر مادھوری کا پوسٹر چسپاں ہوتا تھا۔ میں ابھی گرم حمام میں داخل ہونے ہی والا تھا کہ ڈرائیور صاحب نے گانے بند کرکے ایسی بات پوچھی کہ نیند ہی اڑ گئی۔
کہنے لگے ’سر آپ ’بلوئینگ‘ ٹرپل سیون میں جارہے ہیں فلیٹ پر‘ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ان کے رو اسود کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے ان کی زبان دیکھنے کی درخواست کی جو شکر ہے کالی نہ نکلی۔ میں نے کہا بھائی کیوں مارنے پر تلے ہو ہمیں، اچھے بھلے ’بوئینگ‘ طیارے کو تم نے ’بلوئینگ‘ بنا کر میرا تو تراہ نکال دیا ہے۔ کہنے لگے ’ساری سر میرا وہ مطلب نہیں تھا‘ میں بولا جو بھی مطلب تھا آپ کا لیکن یہ اچھا ہوا کہ میری نیند اڑ گئی۔
پرواز نے اڑان بھری تو سروس کا آغاز کیا۔ چونکہ ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ ’لنگر کا وسیع انتظام ہے‘ تو ناشتہ پیش کرنے پر کافی لوگوں نے بُرا منایا کہ علی الصبح بریانی کیوں پیش نہیں کی گئی۔ اس طرح ہر ایک مسافر کو علیحدہ سے بتانا پڑا کہ عوام اس وقت ناشتہ کرتے ہیں۔ آپ چونکہ بہت خاص ہیں اور صبح 7 بجے بریانی کے ساتھ پیپسی کی لیٹر بوتل پسند فرماتے ہیں تو ہم وہ پیش نہ کرسکنے پر معذرت خواہ ہیں۔
لینڈنگ کے دوران کھڑکی سے نیچے جھانکا تو سارا شہر سبزے سے ڈھکا ہوا نظر آیا لیکن ہوائی اڈے کی خوبصورت عمارت سے نکلتے ہی ایسے ’حبس بے جا‘ نے آ لیا کہ سانس لینا دشوار ہونے لگا۔ جلدی سے ہوٹل لے جانے والی بس میں سوار ہوئے جس میں ٹھنڈی مشین چلنے کی وجہ سے موسم کافی خوشگوار تھا۔
بس ہوٹل کے سامنے رکی تو مجھے یقین نہیں آیا کہ ہمارا قیام یہاں ہے۔ مانچسٹر کے ہوٹل میں قیام کے بعد اس پنج ستارہ ہوٹل کا کمرہ فردوسِ بریں لگتا تھا۔ بیڈ کی ایک طرف موجود میز پر نصب نظام کی بدولت بٹن دباتے ہی روشنی کم، بہت کم اور پھر گھپ اندھیرا کرنے کی اور ساتھ ساتھ ائیر کنڈیشنر کو کنٹرول کرنے کی سہولت موجود تھی۔
کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو مشہور جڑواں مینار بالکل سامنے نظر آئے۔ نیچے دیکھا تو ہمارے گھر سے گلی کے نکڑ والی دکان تک کے فاصلے جتنا سوئمنگ پول۔ یعنی اتنا طویل کہ پورا دیکھنے کے لیے باقاعدہ گردن گھمانی پڑے۔
باٹو کے غار ہمارا پہلا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہاں ہندو دیوتا موروگا سے منسوب مندر، ہندوستان کے بعد کسی بھی ملک میں اس دیوتا کا سب سے اہم مندر مانا جاتا ہے۔ 140 فٹ اونچائی کے ساتھ موروگا کا دنیا میں سب سے اونچا مجسمہ باٹو غاروں کے باہر واقع ہے۔ یہ مجسمہ جس پر تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ روپے لاگت آئی ہے، 1550 کیوبک میٹر کنکریٹ، 250 ٹن اسٹیل اور 300 لیٹر سونے کے پینٹ سے بنا ہے جو پڑوسی ملک تھائی لینڈ سے لایا گیا ہے۔
یہاں وقت بہت جلدی گزر رہا تھا کیونکہ پاکستان سے ادھر کا وقت 3 گھنٹے آگے تھا۔ اسٹریٹ فوڈ میں سب سے پہلے ہمیں دوسا کھانے کو ملا۔ اس کے بعد ’ناسی لی-ماک‘ نامی ایک چاولوں کی دیسی ڈش جسے ناریل کے دودھ میں بنایا جاتا ہے۔ پھر ایک مزیدار چیز ’ٹوفو‘ کھانے کو ملی۔ یہ غالباً سویا بین کے دودھ سے بنتی ہے اور پنیر جیسی ہوتی ہے اور سالن میں اور روکھا دونوں طرح کھائی جاتی ہے۔ سب جگہ کی طرح پاکستانی آم یہاں بھی بہت مشہور ہیں اور بڑی مانگ رکھتے ہیں۔
سوچا کہ اتنا کھا لیا ہے صبح ناشتہ رہنے دیتے ہیں مگر ایک ساتھی نے علی الصبح فون کرکے کہا ’کے جے، ناشتہ مس نا کریں‘۔ چنانچہ جب میں گرتا پڑتا اس کے ساتھ ’ناشتہ گاہ‘ میں پہنچا تو میری آنکھیں ہالی وڈ اداکار جم کیری کی مشہور فلم ماسک کے کردار کی طرح ابل کر اپنے اسپرنگ سمیت باہر کو آ گئیں اور زبان منہ سے نکل کر زمین پر لال قالین بن گئی۔ یہاں میں قارئین کو یہ بتانا فرض سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں کوئی غریب آدمی نہیں تھا لیکن متنوع کھانے دیکھ کر اور اتنا زیادہ دیکھ کر مجھ سے رہا نا گیا۔ چین سے لے کر امریکا تک ناشتے میں کھائے جانے والے لوازمات سے بھرے ہال سے ہم کچھ کلو اور وزن بڑھا کر نکلے۔
وہاں کے لوگ اچھے ہیں۔ تفریح بہت زیادہ مہنگی نہیں، وہاں سے تقریباً ایک گھنٹے کی پرواز پر جزیرہ لنکاوی واقع ہے۔ خوبصورت ساحلوں اور گھنے جنگلات سے مزین یہ جگہ دیکھنے لائق ہے۔ سستے مگر صاف ستھرے ہوٹلوں کی بکنگ آن لائن ہوجاتی ہے۔ یہاں کا ایک تفریحی دورہ میں اپنی فیملی کے ساتھ کرچکا ہوں جس میں ہم ملائیشیا کے ایک اور شہر جوہر باہرو میں واقع ’لیگو لینڈ‘ بھی گئے تھے، وہ بچوں کے لیے بہت اعلیٰ جگہ ہے۔
واپسی کی پرواز سکون سے گزر گئی۔ بیگ گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پاس پہنچا تو خیر سے وہی ڈرائیور صاحب گھر پہنچانے کو موجود تھے جو پرواز پر جاتے وقت ایئرپورٹ کے لیے لینے آئے تھے۔
راستے میں میسنی سی شکل بنا کر کہنے لگے ’اور سر، پھر؟‘ میں نے بھی بھنویں اچکا کر ایسا منہ بنایا جیسا کچھ سونگھتے ہوئے بنتا ہے یعنی کہو کیا کہنا چاہتے ہو کیونکہ ساری رات کا جاگا ہوا تھا اور اوپر سے جیٹ لیگ نے تباہی مچا رکھی تھی۔ میرا بولنے کا کوئی موڈ نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے ایسی بات کردی کہ بولتے ہی بنی۔ کہنے لگے سر اچھا رہا ٹؤر آپ کا؟ گھر والوں کے لیے تحفے ’طوائف‘ بھی لائے ہوں گے آپ؟ ہیں سر؟
بس پھر میں نے ان کو ’تحائف‘ کہنا سکھایا اور انہوں نے کہا ’ساری سر! میرا یہ مطلب نہیں تھا ‘۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔