فضائی میزبان کی آپ بیتی: لندن کا پل گر رہا ہے اے خانم دل پذیر
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
'خواتین و حضرات، آپ سے گزارش ہے کہ حفاظتی بند باندھ لیں، نشست کی پشت سیدھی رکھیں اور کھانے کی میز صحیح طریقے سے بند کرلیں'۔
یہ وہ حفاظتی اعلان ہے جو ہر پرواز میں جہاز کے اڑان بھرنے سے پہلے معزز مسافروں کے گوش گزار کرکے عملہ اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے کیبن کا چکر بھی لگاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود زیادہ تر مسافر اس کو خاص اہمیت نہیں دیتے۔ نشست کی پشت سیدھی اس لیے کروائی جاتی ہے کہ اگر ٹیک آف کے لیے دوڑتے جہاز کو بریک لگ جائے تو آپ کی 60 یا 70 کے زاویے پر استراحت فرماتی پشت کو ایسا جھٹکا لگے گا کہ کمر تو کمر آپ کے مہرے بھی دہرے ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
اسی جھٹکے کے عوض جب آپ کے سینے اور پیٹ کا درمیانی حصہ کھانے کی میز سے ٹکرائے گا تو وہ چھوٹی سی میز ٹوٹ جائے گی اور آپ کو بریانی ہاتھ میں پکڑ کر کھانی پڑے گی، اگر آپ اس قابل رہے تو۔ باقی حفاظتی بند تو دورانِ پرواز بھی باندھ کر رکھنے چاہئیں۔
فرض کریں آپ نے حفاظتی بند نہیں باندھا ہوا اور خدا نخواستہ اڑتے جہاز کا دروازہ یا کھڑکی ایک دھماکے سے نکل جائے تو کیا ہوگا؟ جہاز اگر تقریباً 36 ہزار فٹ کی بلندی پر محو پرواز ہو تو اس بلندی پر ہوا کا دباؤ، اور جہاز کے اندر قائم کردہ ہوا کا 6 سے 8 ہزار فٹ تک کی بلندی کا دباؤ جب آپس میں ٹکرائیں گے، تو پھر جن مسافروں نے حفاظتی بند نہیں باندھے ہوں گے 'وہ نظر نہیں آئیں گے'۔
آپ نے یقیناً زندگی کے کسی موڑ یا نکڑ پر سڑپ سڑپ کرکے نوڈلز یا اسپیگیٹی ضرور کھائی ہوگی۔ بس اسی طرح وہ تمام مسافر جو حفاظتی بند کو بے کار کہتے ہیں اور پیٹ پر بوجھ سمجھتے ہیں، وہ اس وقت سڑپ سڑپ کرکے جہاز سے باہر تشریف لے جا رہے ہوں گے۔ تو اے جہازوں میں سفر کرنے والو، اپنے حفاظتی بند باندھ کر بیٹھا کرو اور عملے کی بات غور سے سُنا کرو تاکہ جان کی امان پاؤ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ جہاز میں عملہ کیوں گھومتا پھرتا ہے، سروس کرتا ہے اور مسافروں کی دیکھ بھال بھی۔ دراصل عملے کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ سکھایا جاتا ہے کہ کیسے اپنے آپ کو اور مسافروں کو بیک وقت بچانا ہے۔ اگر مسافر بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کریں تو یہ کام نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔ ورنہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آئیں نا پھر جہاز پر خوشبو لگا کے۔
آج لندن کی بات کرلیتے ہیں۔ مجھے یہ شہر بہت پسند ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کا وقت جی ایم ٹی کے مطابق ہے اور تمام ایئرلائنز جی ایم ٹی کے مطابق پروازوں کے اوقات کار ترتیب دیتی ہیں۔ یعنی یوں سمجھیں کہ یہاں وقت پر نیند آجاتی ہے اگر بندہ غیر سرکاری کاروائیوں میں ملوث نہ ہو تو۔ اور دوسری وجہ یہاں کی آب و ہوا، خریداری کے مواقع اور کچھ دوستیاں ہیں۔ پھر تیسرا سبب یہ ہے کہ مجھے شروع سے برطانوی لب و لہجہ بہت پسند ہے۔ ڈراموں اور فلموں میں بھی سلسلہ برطانویہ کے اداکاروں کا جواب نہیں۔
پہلی مرتبہ لندن جانا ہوا تو دوست فرخ ساتھ تھا۔ پروگرام بنایا اور صبح ملکہ الزبتھ کا شہر گھومنے نکل کھڑے ہوئے۔ فرخ کے توسط سے امین بھائی سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمیں لندن کی سیر کروانے میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ بچپن سے ایک نظم سنتے آ رہے تھے جس کا ترجمہ میں نے کچھ یوں کیا ہے کہ
لندن کا پل گر رہا ہے
گر رہا ہے، گر رہا ہے
لندن کا پل گر رہا ہے
اے خانم دل پذیر
(London Bridge is falling down
Falling down, falling down
London Bridge is falling down
My fair lady)
تو سب سے پہلے لندن کا وہ مشہورِ زمانہ پل دیکھنا تھا۔ پہنچ گئے وہاں اور تصاویر بنوائیں اور پھر مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں جس کو لندن برج سمجھتا تھا وہ اصل میں ٹاور برج ہے۔ لندن برج تو بے چارہ سیدھا سادہ سے پل ہے۔
واٹر لو کا ریلوے اسٹیشن دیکھا اور نپولین کو ہلکا سا اور امیتابھ بچن کو زیادہ یاد کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ امیتابھ بچن کو زیادہ اس لیے یاد کیا کہ ان دنوں وہاں تازہ تازہ ان کے گانے 'جھوم برابر جھوم' کی عکاسی کی گئی تھی۔ چونکہ فلموں کا اثر قبول کرنے میں مجھے کافی عروج حاصل رہا ہے تو ٹریفالگر اسکوائر کے بیچ کبوتروں کے درمیان کھڑے ہوکر میں نے بھی فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں امریش پوری کا ڈائیلاگ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ دہرایا کہ, 'یہ لندن ہے اور میں پہلی بار یہاں آیا ہوں'۔
بگ بین کے گھڑیال جو پارلیمنٹ ہاؤس کے شمال میں واقع ہے اور لندن آئی کے گول چکریلے جھولے کے نظارے کیے۔ ملکہ برطانیہ سے ملاقات نہ ہوسکی حالانکہ میں ان کے گھر تک گیا۔ شاید مصروف ہوں گی اس دن۔ ویسے ان کا گھر اچھا تھا۔ محل نما تھا اور بجائے 'آشیانہ الزبتھ' کے اس کا نام بکنگھم پیلس رکھا ہوا تھا۔ اور باہر ڈیوک فلپ، شہزادہ چارلس، شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کے مشترکہ نام کی تختی بھی نہیں لگی ہوئی تھی۔ بڑا تعجب ہوا کہ انہوں نے ہماری روایات کو کیوں نہیں اپنایا۔
خیر ہم ہائیڈ پارک کی طرف چل پڑے۔ مجھے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ پارک بالکل بھی کسی سے 'ہائیڈ' نہیں کیا گیا۔ سب کے سامنے رکھا گیا ہے اور کوئی بھی اسے دیکھ سکتا ہے۔ لندن کی مشہورِ زمانہ زیرِ زمین ٹرینوں میں سفر کیا اور دانش فرنگ کے جلوے دیکھے۔
لندن میں بہت عرصے تک 'میڈا ویل' نامی ہوٹل کے علاقے میں رہا۔ مجھے پہلی بار یہ نام سن کر بہت اچھا لگا کہ لندن میں بھی سرائیکی وسیب کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ انگریزی نام ہے۔
رات کا کھانا ہم نے 'چرواہے کی جھاڑیاں' (شیفرڈز بش) نامی علاقے کے ایک ریسٹورینٹ میں کھایا جس کا نام ووڈی گِرل تھا۔ یہ افغانی اور ایرانی طعام کا مرکز تو تھا ہی ساتھ میں وہاں کی ملازمائیں بھی انہی ملکوں سے تعلق رکھتی تھیں جن کے چکر میں اکثر ساتھی وہیں سے کھانا کھاتے تھے اور ظاہر ہے کہ مل کے کھانے میں برکت ہوتی ہے تو میں بھی اخلاقاً ان کے ساتھ چلا جاتا تھا۔
پھر ایک مرتبہ لندن آنا ہوا تو بس کا ڈرائیور کسی اور راستے سے ہوٹل لے کر آیا۔ راستے میں ایک علاقے سے گزر ہوا جس کا نام وائٹ چیپل تھا۔ فوراً ذہن میں آیا کہ یہ تو 18ویں صدی کے مشہورِ زمانہ قاتل 'پھاڑ دینے والے جیک' (جیک دا ریپر) کا علاقہ ہے ۔ ابھی دل گھبرایا بھی نہیں تھا کہ مجھے شلوار قمیض میں ملبوس اور پشاوری چپل پہنے متنوع انکل چلتے پھرتے اور سڑک کنارے بیٹھے خوش گپیوں میں معروف نظر آئے۔ غور کیا تو آس پاس ماحول بالکل دیسی پایا۔ اب اس علاقے کا نام میرے خیال سے کالا نہیں تو سانولا چیپل رکھ دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں اس وقت میں نے ٹونی بلئیر سے بات کرنے کا سوچا مگر جب میں اگلی بار لندن آیا تو ان کی جگہ گورڈن براؤن آچکا تھا۔
وہ بندہ ڈھیلا سا لگ رہا تھا لہٰذا میرا ارادہ بدل گیا۔
اگلی مرتبہ دوست لئیق ساتھ تھا۔ اس بار ہم نے المشہور سراغ رساں شرلاک ہومز کے عجائب گھر کا سراغ لگانے کی ٹھانی۔ چچا گوگل نے فوراً مشکل آسان کردی اور 221 بی، بیکر اسٹریٹ پہنچ گئے۔
تازہ تازہ شرلاک ہومز کی فلم دیکھی تھی اور ایک عدد ڈرامہ بھی، اس لیے ایک ایک چیز کو دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی کہ جیسے میں خود اسی زمانے میں پہنچ گیا ہوں۔ عجائب گھر کا تمام عملہ اسی زمانے کے کپڑوں میں ملبوس تھا یہاں تک کہ باہر کھڑا ہوا سپاہی بھی۔
اندر مختلف اسٹالز پر کھڑی خواتین نے اس زمانے کی ہاؤس میڈز جیسا سفید فراک نما گاؤن پہن رکھا تھا اور حضرات تھری پیس سوٹ اور منہ میں سگار یا پائپ دبائے ٹہل رہے تھے۔ وہاں بھائی شرلاک کے نام سے ایک فارمیسی بھی نظر آئی۔ ظاہر ہے ان کا علاقہ ہے، یہ تو ہوگا۔
مقاماتِ گناہ کی کشش بھی بہرحال ساتھ ساتھ رہی، مگر ان کا ذکر پھر سہی۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔