20 منٹ تاخیر ہوتی تو سانس اور خوراک کی نالیاں پھٹ جاتیں، رضوان
قومی ٹیم کے نوجوان وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے انکشاف کیا ہے آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میچ سے قبل خوراک اور سانس والی نالیاں بند ہوچکی تھیں اور ڈاکٹر نے کہا تھا 20 منٹ تاخیر ہو جاتی تو دونوں نالیاں پھٹ جاتیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری ویڈیو میں محمد رضوان نے کہا کہ جہاں تک ریکارڈ کی بات ہے تو مجھے اپنی ذات سے بڑھ کر اس بات کی زیادہ خوشی ہے کہ یہ ریکارڈ ہمارے پاکستان کے لیے ہیں اور اس ریکارڈ میں رچرڈ پائی بس، انضمام الحق اور شاہد اسلم میرے حصے دار ہیں۔
مزید پڑھیں: بابر اعظم ٹی20 ورلڈ کپ 2021 کی بہترین ٹیم کے کپتان مقرر
انہوں نے کہا کہ رچرڈ پائی بس نے ٹی20 میں ذہنی طور پر میری مدد کی، انزی بھائی (انضمام الحق) نے بیٹنگ کے حوالے سے کچھ آئیڈیاز دیے تھے جبکہ تیسرے فرد شاہد اسلم ہیں جنہوں نے پورا سال میری مدد کی، اس ریکارڈ میں وہ بھی حصے دار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی20 کرکٹ کھیلنا ایک چیلنج تھا کیونکہ یہ بات کی جاتی تھی کہ میں چھوٹے فارمیٹ کا کھلاڑی نہیں ہے، ان سب باتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چیلنج لینا پڑتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیم مینجمنٹ نے مجھے اوپننگ پر بھیجنے کا فیصلہ کیا جو میرے لیے موزوں رہا۔
وکٹ کیپر بلے باز نے کہا کہ میں اپنی حالت کے بارے میں بتانا نہیں چاہ رہا تھا، عجیب سی حالت تھی، جب ہسپتال گئے تو میری سانس بالکل رکی ہوئی تھی اور ڈاکٹرز نے کہا کہ میری دونوں خوراک اور سانس والی نالیاں بند ہوچکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز نے مجھے اس بارے میں نہیں بتایا تھا، میں نے ان سے کئی مرتبہ پوچھا لیکن وہ ٹالتے رہے البتہ ایک نرس نے پوچھنے پر بتایا کہ اگر آپ 20 منٹ لیٹ ہو جاتے تو آپ کی دونوں نالیاں پھٹ جاتیں، آپ کو اب دو راتیں یہاں رہنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے ای سی جی سمیت کئی ٹیسٹ کیے اور میں وہ سب اس لیے بخوشی کروا رہا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں ان کی بدولت ٹھیک ہو جاؤں گا اور ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ رضوان آپ پاکستان کے لیے سیمی فائنل کھیلیں جس سے مجھے ہمت ملی۔
یہ بھی پڑھیں: سیمی فائنل سے قبل محمد رضوان کے ’آئی سی یو‘ میں رہنے کا انکشاف
رضوان نے کہا کہ ہسپتال میں ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپ کی حالت ایسی نہیں ہے کہ آپ سیمی فائنل کھیل سکیں جس سے مجھے مایوسی ہوئی، ڈاکٹر نے کہا کہ سیمی فائنل کھیلنا رسک ہو سکتا ہے لیکن میں نے ان سے کہا کہ اگر میچ کے بعد مجھے کچھ ہوتا ہے تو مجھے دکھ نہیں ہو گا کیونکہ وہ پاکستان کے لیے ہو گا جس سے ڈاکٹرز کو بھی ہمت ملی اور انہوں نے کچھ ایسی چیزیں کیں جس سے مجھے ریکوری میں مدد ملی۔
سفر میں تکیہ اپنے ساتھ رکھنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے بھی ہیلمٹ پہننے کی وجہ سے گردن سکڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز نے مجھے میڈیکیٹڈ تکیہ تجویز کیا ہے جس سے سونے میں کافی سکون ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تکیہ نظر اس لیے آجاتا ہے کہ میں ایک رات بھی اس کے بغیر سونے کا رسک نہیں لینا چاہتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کی بدولت میں جلد صحتیاب ہو سکوں گا۔
رضوان نے کہاکہ پاور پلے میں بیٹنگ ہماری ’اسٹرینتھ‘ ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ دنیا بھر کے سابق کھلاڑی اور مبصر کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے اوپنرز مخالف ٹیم کے اہم باؤلرز کو وکٹ نہیں دیتے، وکٹ ہاتھ میں رکھتے ہیں جس کی بدولت 160 سے 170رنز کر لیتے ہیں جو دبئی میں ان کنڈیشنز میں کرنا کافی مشکل ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ورلڈکپ تو ہار گیا لیکن بہت کچھ جیت گیا
انہوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ پاور پلے میں اس طرح سے رنز نہیں بنے جس طرح بننے چاہئیں مگر آپ دیکھیں تو جن ٹیموں کے پاور ہٹرز ہیں ان کا پاور پلے بھی 42 سے 45 رنز کے درمیان ختم ہو رہا ہے، اگر ہماری اوسط نکالیں تو وہ 40 بنتی ہوگی اور سب سے اہم چیز یہ کہ ہم نے اس میں وکٹ بھی نہیں گنوائی ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ میری اور کپتان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنے منصوبے کو عملی جامع پہنائیں، ہمارے رنز کم نظر آتے ہیں لیکن اگر تمام ٹیموں کا جائزہ لیں تو بقیہ ٹیموں کی اوسط 45 اور ہماری 40 بنے گی لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ ہم نے کتنی وکٹیں گنوائیں اور حریف ٹیم کی پاور پلے میں کتنی وکٹیں حاصل کیں تو ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔
وکٹ کیپر بلے باز نے کہا کہ ڈھاکا میں ورلڈ کپ سے قبل تو گیند بہت زیادہ گرپ اور اسپن کررہا تھا جس میں کھیلنا کافی مشکل تھا لیکن اب یہاں کنڈیشنز دیکھ کر اندازہ ہو گا کہ ان لوگوں نے پچ کیسی تیار کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر کوئی آپ کو بلا پکڑنا نہیں سکھاتا لیکن یونس خان نے مجھے کچھ تجاویز دیں جس سے مجھے بہت مدد ملی، اسی طرح میتھیو ہیڈن نے بھی ہمیں ایسی چیزیں بتائیں کہ جو نہ صرف میرے لیے بلکہ پوری پاکستان ٹیم کے لیے انتہائی مددگار ثابت ہوں گی۔