ایک 'موقع' جو بھارت کو نہیں مل رہا
'آج در پہ چل کے آیا ہے موقع!' یہ سُن سُن کر ہمارے کان پک چکے تھے۔ ٹی20 ورلڈ کپ 2021ء میں بالآخر پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر نہ صرف 'موقعے کے بھوت' کو ہمیشہ کے لیے دفنا دیا بلکہ بھارت کو ایک ایسی پوزیشن پر کھڑا کردیا جہاں وہ ہرگز، ہرگز نہیں آنا چاہتا تھا یعنی نیوزی لینڈ کے خلاف مقابلے میں لازمی کامیابی پر۔ یہ ایسا 'موقع' ہے جو بھارت کو عرصہ دراز سے نہیں ملا۔
ٹی20 ورلڈ کپ کی تاریخ دیکھیں تو 2007ء سے لے کر آج تک بھارت کبھی اس ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کو شکست نہیں دے پایا۔ یہاں تک کہ 2007ء میں جب وہ چیمپئن بنا تھا، تب بھی اسے نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں 10 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ پھر آخری ٹی20 ورلڈ کپ 2016ء میں بھی جب دونوں ٹیمیں سامنے آئی تھیں تو نیوزی لینڈ نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔
اب 2021ء میں بھارت کو دبئی میں ایک اور 'موقع' ملا، جسے ہمیشہ کی طرح اس نے بُری طرح گنوا دیا۔ سب کو انتظار تھا پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانے والے 'زخمی شیروں' کے زبردست مقابلے کا، لیکن 'کھودا پہاڑ نکلا چوہا'، یہ تو پاک-بھارت میچ سے بھی زیادہ یک طرفہ ثابت ہوا۔
نیوزی لینڈ کے فیلڈر کے ہاتھوں چند مواقع ملنے کے بعد بھی بھارت اس 'موقعے' کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ بھارتی ٹیم کے رویّے، مزاج اور انداز میں کوئی رتّی برابر تبدیلی نظر نہیں آئی۔ پاکستان کے خلاف مقابلے میں پاور پلے میں صرف 36 رنز پر 3 وکٹیں گنوانے والی ٹیم نیوزی لینڈ کے سامنے انہی اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر صرف 32 رنز بناسکی۔
پاکستان کے خلاف تو پھر کپتان ویرات کوہلی چل گئے تھے اور 150 سے زیادہ کا نسبتاً بہتر مجموعہ اکٹھا کرلیا تھا، لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف تو اُن کی بھی ایک نہ چلی۔ ایش سوڈھی نے ٹی20 کرکٹ میں تیسری مرتبہ کوہلی کا شکار کیا اور ایسا کرنے والے وہ پہلے باؤلر بن گئے۔ ان کی باؤلنگ نے بھارت کو ایسا دھچکا پہنچایا کہ وہ آخر تک سنبھل نہیں پایا۔
بھارت کی بیٹنگ لائن اتنی بُجھی ہوئی نظر آئی کہ اس کی اننگ کے دوران مسلسل 71 گیندیں ایسی تھیں جن پر کوئی باؤنڈری تک نہیں لگی۔ چھٹے اوور کی پہلی گیند پر کے ایل راہول نے ایک چوکا لگایا تھا جس کے بعد 17ویں اوور کی آخری گیند پر جا کر کسی بھارتی بلے باز کو باؤنڈری لگانے کی توفیق ملی۔
مقررہ 20 اوورز کے اختتام پر بھارت صرف اور صرف 110 رنز بنا پایا، جو نیوزی لینڈ کے لیے 'بائیں ہاتھ کا کھیل' تھا۔ اس نے 15ویں اوور میں صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر ہی یہ ہدف حاصل کرلیا اور یوں بھارت کو ورلڈ کپ سے اخراج کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
گوکہ تکنیکی طور پر بھارت اب بھی اعزاز کی دوڑ سے باہر نہیں ہوا، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس کی قسمت اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اب اس کا تمام تر انحصار اپنی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی کے علاوہ دوسری ٹیموں کے نتائج پر ہے۔
بھارت کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست کی یہ داستان بہت پرانی ہے اور محض ٹی20 ورلڈ کپ تک محدود نہیں۔ 2007ء کے ٹی20 ورلڈ کپ کے بعد کسی آئی سی سی ٹرافی میں دونوں ٹیموں کا مقابلہ 2016ء میں ناگ پور میں ہوا تھا اور وہ بھی کیا بھیانک مقابلہ تھا۔ بھارت صرف 127 رنز کے تعاقب میں 79 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا۔ وہاں بھی بھارتی بلے باز 7ویں سے 15ویں اوور کے درمیان ایک چوکا تک نہیں لگا پائے تھے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ سلسلہ ناگ پور میں جہاں سے ٹوٹا تھا، دبئی میں بالکل وہیں سے جڑا۔
اس کے علاوہ ورلڈ کپ 2019ء کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست بھی ابھی تک بھارتی تماشائی بھول نہیں پائے ہوں گے۔ ٹی20 اور ایک روزہ کے ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کے علاوہ آئی سی سی کی جدید ترین ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں بھی بھارت نیوزی لینڈ کے سامنے بھیگی بلّی بنا نظر آیا۔ اس چیمپیئن شپ کے ویلنگٹن اور کرائسٹ چرچ میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ اور پھر رواں سال جون میں کھیلے گئے فائنل میں بھی کراری شکستیں بھارت کی منتظر نظر آئیں۔ لیکن کیوں؟
ورلڈ کپ 2021ء میں بھارت سے ہرگز اتنی خراب کارکردگی کی توقع نہیں تھی۔ اب سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر ایسا ہوا کیوں؟ زیادہ تر انگلیاں انڈین پریمیئر لیگ کی جانب اٹھ رہی ہیں کہ اس کے بے وقت انعقاد نے بھارت کے کھلاڑیوں کو ضرورت سے زیادہ تھکا دیا۔
گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی آئی پی ایل 2 حصوں میں کھیلی گئی۔ دوسرا مرحلہ تقریباً ایک ماہ جاری رہنے کے بعد ٹی20 ورلڈ کپ کے آغاز سے صرف 2 دن پہلے یعنی 15 اکتوبر کو اختتام پذیر ہوا۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ کیونکہ آئی پی ایل کا یہ مرحلہ متحدہ عرب امارات میں کھیلا جا رہا ہے، اس لیے بھارت کو ورلڈ کپ کی تیاری کا زبردست موقع مل رہا ہے لیکن ابھی تک اس تیاری کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔
ایک اہم سبب روایتی حریف پاکستان کے ہاتھوں غیر متوقع شکست بھی ہے۔ کاغذ پر چاہے بھارت کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہوں لیکن پاکستان کے خلاف مقابلہ ہمیشہ بہت سخت دباؤ میں کھیلا جاتا ہے۔ اس مرتبہ پاکستان کے ابتدائی وار سہنے کے بعد بھارت ایسی ذہنی کیفیت میں چلا گیا ہے کہ اس سے نکلنا اگرچہ ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور نظر آتا ہے۔
پاکستان کے ہاتھوں شکست آسانی سے ہضم ہونے والی چیز نہیں گو کہ بھارت کے کھلاڑیوں کے پاس تقریباً ایک ہفتے کا وقت تھا۔ اس دوران وہ خود کو ذہنی طور پر نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے لیے تیار کرسکتے تھے لیکن یہاں بھی وہی دباؤ والی کیفیت غالب نظر آئی اور نتیجہ نکلا وہی ڈھاک کے تین پات۔
ویسے مجموعی طور پر دیکھیں تو ٹی20 ورلڈ کپ میں عرصہ دراز سے بھارت کی کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی ہے۔ 2007ء میں ایک تاریخی کامیابی سمیٹنے کے بعد بھارت 2009ء اور 2010ء میں دوسرے مرحلے کے تمام میچز ہارا اور 2012ء میں بھی اسی اسٹیج پر باہر ہوگیا۔
2014ء میں بنگلہ دیش میں ہونے والا ورلڈ کپ بھارت کے لیے نسبتاً بہتر تھا کہ جہاں اس نے فائنل تک رسائی حاصل کی لیکن ایک مرتبہ پھر چیمپیئن نہیں بن پایا۔ 2016ء میں ہونے والے آخری ٹی20 ورلڈ کپ میں اسے سیمی فائنل میں اپنے ہی شہر ممبئی میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
گزشتہ چند سالوں سے آئی سی سی ٹورنامنٹس میں بھی اس کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ 2014ء میں ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل ہارنے کے بعد اگلے ہی سال وہ ورلڈ کپ 2015ء اور پھر ٹی20 ورلڈ کپ 2016ء میں سیمی فائنل ہارا۔ 2017ء میں اسے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں ایک ایسی شکست جھیلنا پڑی، جس کی گونج آج تک کم نہیں ہوئی۔ 2019ء کے ورلڈ کپ میں بھی 'مین اِن بلوز' کی تان سیمی فائنل میں جا کر ٹوٹ گئی اور رواں سال ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل بھی ہارا۔
موجودہ صورتحال میں بھارت کی موہوم سی امیدیں بھی دوسری ٹیموں سے ہیں کہ وہ کوئی ایسا منظرنامہ تشکیل دے دیں کہ جس میں بھارت کی سیمی فائنل کی راہ ہموار ہوجائے۔ یہی نہیں بلکہ اسے خود بھی افغانستان، نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف اپنے باقی ماندہ میچز میں غیر معمولی کارکردگی دکھانا ہوگی۔ مگر، فی الحال تو ایسی کارکردگی افغانستان دکھا رہا ہے کہ جس کا نیٹ رن ریٹ بھی ایسا ہے کہ معاملہ پوائنٹس کی برابری پر آیا بھی تو افغانستان ہی آگے نکل جائے گا اور بھارت اور نیوزی لینڈ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
ورلڈ کپ 2021ء میں اب تک افغانستان نے اپنا لوہا خوب منوایا ہے۔ وارم اپ میچ میں دفاعی چیمپیئن ویسٹ انڈیز کو شکست دینے کے بعد ٹورنامنٹ کے پہلے مقابلے میں اسکاٹ لینڈ کو بُری طرح کچلا۔ 190 رنز بنانے کے بعد انہیں صرف 60 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ پھر پاکستان کے خلاف بھی مقابلہ انتہائی سنسنی خیز مرحلے تک پہنچا۔ اگر آصف علی ایک اوور میں 4 چھکے نہ لگا پاتے تو شاید اس میچ کا نتیجہ بھی مختلف ہوتا۔
نمیبیا کے خلاف اپنے میچ میں افغانستان نے 160 رنز بنائے اور حریف کو 98 رنز پر محدود کرکے 62 رنز کی ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی۔ یہی وجہ ہے کہ پوائنٹس ٹیبل پر نیٹ رن ریٹ میں کوئی اس کا مقابل نہیں ہے۔ اس کے رن ریٹ 3.097 کے مقابلے میں پاکستان 0.638 پر کھڑا ہے جبکہ باقی سب ٹیموں کا رن ریٹ منفی میں ہے۔
اگر افغانستان نے اپنے باقی ماندہ میچز میں کوئی اپ سیٹ کردیا، یعنی نیوزی لینڈ یا بھارت میں سے کسی کے بھی خلاف کامیابی حاصل کرلی تو انہونی بھی ہوسکتی ہے اور نیٹ رن ریٹ پر افغانستان سیمی فائنل تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان نے تو افغانستان کے خطرے کو بہت قریب سے دیکھ لیا ہے، اب نیوزی لینڈ اور بھارت کی باری ہے، دیکھتے ہیں اگلے مقابلوں میں کیا ہوتا ہے۔ فی الحال گروپ 2 بہت دلچسپ صورت اختیار کرچکا ہے جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔