نقطہ نظر

فضائی میزبان کی آپ بیتی: مسافروں کی روٹی اور عملے کی ذمہ داریاں

جب نوکری لگی تو حیران رہ گیا کہ یہ لوگ بھی انسان ہوتےہیں ورنہ باقیوں کی طرح میں بھی فضائی عملےکو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتا تھا

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


فضائی عملے کو اگر کوئی عام آدمی فون پر یا آپس میں ہی، خاص طور پر وردی کے بغیر بات کرتا ہوا سن لے تو یہی سمجھے گا کہ یہ لوگ دیوانے ہیں یا بہت ہی لمبی چھوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری باتیں کچھ ایسی ہوتی ہیں:

'یار میں کل صبح لندن جا رہا ہوں، پرسوں شام کراچی آجاؤں گا پھر ملتے ہیں انشاء اللہ۔'

'سر میں آج رات جدہ جا رہا ہوں، کل دوپہر میں واپس آکر آپ کے پاس حاضر ہوتا ہوں۔'

'ابھی تو دبئی جا رہا ہوں۔ شام کو آتا ہوں تو پھر ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔'

اور اسی قسم کی اور باتیں جن کو سن کر عوام ایک لمحے کے لیے تو سُن ہی ہوجاتے ہیں کہ ایسا تو کوئی بزنس مین بھی کیا سفر کرتا ہوگا کہ آج دنیا کے اس حصے میں ہے اور کل دوسری طرف۔

لیکن حقیقت میں عملے کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ناشتہ لاہور میں، دوپہر کا کھانا کہیں روس کے اوپر 36000 فٹ کی بلندی پر گزرتے ہوئے اور رات کا کھانا لندن میں۔ لیکن اس تیز رفتار سفر کے اثرات اس طرح سامنے آتے ہیں کہ سو کر اٹھنے کے بعد ہوٹل کے بیڈ پر لیٹے ہوئے ہی کچھ دیر کے لیے سوچنا پڑتا ہے کہ میں لندن میں ہوں یا اسلام آباد میں؟

یہ حقیقت ہے کہ زیادہ فضائی سفر کرنے سے یادداشت پر اثر پڑتا ہے۔ جہاں تک میں نے نوٹ کیا ہے، پرانی باتیں تو یاد رہتی ہیں لیکن ماضی قریب کے واقعات ذہن میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے نام بھول جاتے ہیں، مخصوص جگہوں کے نام اس لمحے بالکل دماغ سے غائب ہوجاتے ہیں جب کسی کو بتانا مقصود ہوں۔

ایک مرتبہ سو کر اٹھا تو دماغ بالکل سُن تھا۔ کمرے کی چھت پر نظر پڑی، پھر دیواروں کو دیکھا۔ دماغ نے قبول کیا کہ کراچی کے ہوٹل میں ہوں۔ ہیڈ آفس میں کچھ کام تھا چنانچہ متعلقہ دفتر میں فون ملایا۔ بندہ سیٹ پر موجود تھا۔ سوچا آج تو فٹافٹ کام ہوجائے گا۔ نہا دھو کر تیار ہوا اور کمرے سے نکلا تو سامنے لفٹ کو دیکھتے ہی ذہن میں بجلی کوندی لیکن گری میرے اوپر۔ نینو سیکنڈ کے اندر مجھے ادراک ہوا کہ یہ لفٹ تو اسلام آباد کے ہوٹل کی ہے۔ کام تو ہونے سے رہ گیا لیکن میں نے ایک عادت اپنائی۔ سوتے وقت سائیڈ ٹیبل پر پانی کی بوتل کے ساتھ ہوٹل کا نوٹ پیڈ رکھ دیا کرتا تھا تاکہ پھر کبھی ایسی صورتحال پیش آئے تو مجھے کم از کم یہ پہلے سے معلوم ہو کہ میں کہاں پایا جاتا ہوں۔

مسلسل ایک ہی جگہ توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے باقی باتوں کا دھیان نہ رہنا ایک عام بات ہے۔ بنیادی طور پر فضائی عملہ جہاز کے اندر مسافروں کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔ تربیت کے دوران سیفٹی پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ باقی چیزیں ثانوی حیثیت اختیار کرجاتی ہیں۔ مجھے تو تربیت کے دوران خواب بھی یہی آتے تھے کہ جہاز میں آگ لگ گئی ہے یا کہیں کریش لینڈنگ ہو رہی ہے اور میں مسافروں کو بچا رہا ہوں۔ بس اس دن کے بعد میں نے تربیت پر بہت زیادہ دھیان دیا کیونکہ تربیت اور تربت میں صرف 'چھوٹی یے' کا فرق ہے۔

چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر کبھی پرواز پر ہنگامی حالات درپیش ہوں تو مسافروں کو بچانے کے لیے اللہ میاں اور مسافروں کے ماں باپ کی دعاؤں کے بعد میرا مکمل طور پر تربیت یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ یہی چیز عملے کی زندگی میں ایسے پنجے گاڑتی ہے کہ جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔

فضائی عملہ کھانا کھانا بھول سکتا ہے، کسی ہوٹل کے کمرے میں اپنا چارجر چھوڑ کر جاسکتا ہے لیکن جہاز پر آکر آگ بجھانے کے آلات اور ابتدائی طبّی امداد کے باکس کی موجودگی کو یقینی بنانا نہیں بھولتا اور ہر پرواز سے پہلے ہنگامی حالات میں سب مسافروں کو باحفاظت جہاز سے باہر نکالنے کے عمل کو دہرانا بھی نہیں بھولتا۔ اس لیے اپنے فضائی میزبان کی قدر کیا کریں اور سرورق دیکھ کر کتاب کو جانچنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں جیسے ایک بار میں نے کی تھی۔

بورڈنگ کے دوران ایک شخص کو میں نے انگشت بہ نتھناں دیکھا تو دوسری طرف رخ کرکے بُرا سا منہ بنایا۔ لیکن اچانک آنکھیں سکیڑ اور پھر بھنویں اچکا کر میں نے سوچا کہ یہ میں نے ابھی کیا دیکھا ہے۔ واپس گھوم کر ان صاحب کو دیکھا تو وہ ہنوز 'کارناکیوں' میں مصروف تھے۔ مجھے حیرانی اس بات پر نہیں تھی کہ وہ اپنے ناک نخرے اٹھا رہے تھے بلکہ اس بات پر تھی کہ ان کی آدھی سے زیادہ انگلی داہنے نتھنے کے دہانے میں غائب تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر تاثرات ایسے تھے کہ نہایت غور وفکر کرنے کے بعد وہ کسی نتیجے پر پہنچنے ہی والے ہیں۔ یکایک ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انگشت شہادت 'تیرہ ناکیوں' سے نکل کر عالم رنگ و بو میں وارد ہوئی۔ ان کی آدھی انگلی کٹی ہوئی تھی۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ نہ جانے میں کیا کیا سوچ رہا تھا اور وہ کس مشکل میں مبتلا تھے۔

اسی طرح لوگوں کو بھی فضائی عملے کا خیال کرنا چاہیے۔ بعض اوقات صورتحال ایسی ہوجاتی ہے کہ مسافر یہ سمجھنے لگتے ہیں جیسے عملے کے اندر 50 جی بی کی ریم لگی ہو اور 256 جی بی کا میموری کارڈ۔ یہ خاص اس وقت ہوتا ہے جب کھانے کی سروس دی جا رہی ہو۔ نا تو راونڑ کی طرح 11 سر اور 22 کان ہوتے ہیں کہ بیک وقت ہر کسی کی بات سنی جاسکے اور نہ ہی کسی آکٹوپس کی طرح لاتعداد ہاتھ ہوتے ہیں کہ چائے، پانی، بوتل اور گولی ایک ساتھ آٹھ دس لوگوں کو اکٹھی دی جاسکیں۔ گولی سے مراد یہاں ڈسپرین کی گولی ہے لیکن آپ بھی ٹھیک سمجھے ہیں۔

میں نے جب اس نوکری کے لیے درخواست دی تو میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ یہ لوگ بھی انسان ہوتے ہیں ورنہ پہلے میں بھی سب کی طرح فضائی عملے کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتا تھا۔ ہر لحاظ سے مکمل اور غلطیوں سے مبرا۔ بعد میں میری اس غلط فہمی کی تصحیح ہوگئی اور میں بھرتی ہوگیا۔

ایک مرتبہ آدھی رات کو لاہور تا کراچی پرواز پر اسنیک سروس دے رہا تھا۔ ایک صاحب کو جگانے کی ہلکی سی بھرپور کوشش کے بعد سوتا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ آخری قطار میں پہنچا تو کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پنجابی لہجے میں اردو بولتے ہوئے کہا 'بھائی مجھے روٹی نہیں ملی'۔

روٹی کا لفظ سن کر مجھے لگا جیسے میں نے ٹرالی کے اندر تندور دہکایا ہوا ہے اور اوپر خمیری روٹی کے پیڑے رکھے ہوئے ہیں جو میں جھپاک سے تندور کے اندر لگا رہا ہوں اور اس کے بعد لمبوتری آہنی ڈنڈیوں کے ذریعے پک جانے والی روٹیاں نکال کر مہارت سے گول گھماتے ہوئے ان کے سامنے دھرتا جا رہا ہوں۔

ان تندوری خیالوں سے نکلنے کے لیے میں نے گیس کی لُو کو انہی آہنی ڈنڈیوں سے دھیما کیا اور تندور سے باہر نکل کر ان سے کہا آپ جاکر اپنی نشست پر بیٹھیں، میں روٹی لے کر آتا ہوں۔ بعد میں جب ان کو میں نے سوکھی روٹی (کولڈ سینڈوچ اور کیک پیس) پیش کی تو بہت پچھتائے کہ اس کے لیے میں نے اپنی نیند خراب کی۔

میں نے ان کے غم میں برابر شرکت کرکے رات کے اس پہر ان کی دل جوئی کی کیونکہ تندور سے نکلی تازی گرما گرم کڑک خمیری روٹی کھانے کا میرا بھی دل کرنے لگا تھا۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔