ٹی20 ورلڈکپ 2021ء کے پہلے دن شائقین تو باؤنڈریز کے انتظار میں ہی رہ گئے
ٹی20 ورلڈکپ 2021ء میں سپر 12 مرحلے کا آغاز ایک نہایت سنسنی خیز مقابلے سے تو ہوا مگر اس میچ میں تماشائیوں کے لیے وہ چوکے چھکے نہ تھے جس کے لیے ٹی20 کرکٹ مشہور ہے۔
پورے میچ میں صرف 2 ہی چھکے لگ سکے اور وہ بھی ہارنے والی ٹیم کے کھلاڑیوں نے لگائے۔ پچ بیٹنگ کے لیے کچھ ایسی مشکل تھی کہ دونوں ٹیموں کے بیٹسمین بڑے شاٹس کھیلنے کے لیے ترستے ہی رہے۔
یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ صرف 3 میدانوں پر مسلسل میچوں کے انعقاد کی وجہ سے امکان یہی ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں تماشائیوں کو بڑے بڑے اسکور دیکھنے کو شاید نہ ملیں۔
جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باووما کو ٹاس ہارنے کے بعد بیٹنگ کی دعوت ملی تو وہ کشمکش کا شکار دکھائی دیے۔ مگر جب انہوں نے پہلے ہی اوور میں مچل اسٹارک کو 2 خوبصورت چوکے لگائے تو محسوس ہوا کہ وہ وکٹ کو سمجھ گئے ہیں اور پہلے بیٹنگ کی دعوت کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں، مگر یہ تاثر صرف پہلے ہی اوور تک قائم رہا اور اس کے بعد ایڈن مارکرم کے علاوہ کوئی بھی وکٹ پر ٹھہر نہ سکا۔
افریقہ کے بلے بازوں کو شاید یہ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اسکور بنائیں یا وکٹیں روکیں۔ وہ کبھی رنز بنانے کی کوشش کرتے اور کبھی وکٹیں روکنے کی اور اس کشمکش میں وہ یہ دونوں ہی کام نہ کرسکے۔
جنوبی افریقہ کی اس اننگ نے کبھی مومینٹم نہ پکڑا اور ٹیم مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 118 رنز ہی بناسکی۔ اس وجہ سے آسٹریلوی ٹیم جو ٹی20 کرکٹ میں پچھلے ڈیڑھ سال سے انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کے خلاف مسلسل شکست کا سامنا کرتی آرہی تھی وہ پہلی اننگ کے اختتام پر ہی یہ میچ جیتنے کے لیے فیورٹ نظر آ رہی تھی۔
لیکن کہتے ہیں کہ کسی بھی کرکٹ پچ کے بارے میں تب تک اندازہ نہیں لگانا چاہیے جب تک اس پر دونوں ٹیمیں نہ کھیل لیں اور اس میچ میں پچ نے یہ ثابت کردیا۔
ڈیوڈ وارنر کو آئی پی ایل کے دوران مسلسل باہر بٹھایا جاتا رہا، پھر دونوں وارم اپ میچوں میں بھی وہ ناکام رہے مگر اس اننگ میں ان کا آغاز اچھا تھا اور 3 چوکوں سے لگ رہا تھا کہ وارنر کی فارم واپس آ رہی ہے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
آسٹریلیا کی اننگ جنوبی افریقہ کی اننگ سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ آسٹریلیا نے وکٹیں کم گنوائیں جس کا فائدہ انہیں میچ کے آخر میں ہوا۔
وکٹ کچھ ایسی تھی کہ گلین میکسویل جو عموماً تیز کھیلنا پسند کرتے ہیں وہ بھی بڑے شاٹس نہ کھیل سکے مگر اسٹیو اسمتھ کے ساتھ ایک اچھی پارٹنرشپ میں میچ کو اتنا طویل ضرور کردیا کہ میتھیو ویڈ اور مارکس اسٹائنز کی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے آسٹریلیا یہ میچ 5 وکٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔
آسٹریلیا کی ٹیم ابھی تک کوئی بھی ٹی20 ورلڈکپ جیتنے میں ناکام رہی ہے تاہم اس نے ٹورنامنٹ کا آغاز فاتحانہ انداز میں کردیا ہے۔ لیکن دونوں ٹیموں کی بیٹنگ دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ انہیں سیمی فائنل تک پہنچنے میں کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
پہلے میچ میں اگرچہ بڑے اسکور نہیں بنے اور چھکے بھی نہیں لگے لیکن میچ دلچسپ رہا اور آخری اوور تک گیا لیکن دن کا دوسرا میچ تو جیسے شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا۔ ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین جو بڑی ہٹس لگانے کے لیے مشہور ہیں اور 2 بار ٹی20 ورلڈکپ بھی جیت چکے ہیں وہ نہ جانے کیوں اس ٹورنامنٹ کے آغاز میں ہی فارم سے بہت دُور نظر آرہے ہیں۔
دونوں وارم اپ میچوں میں شکست کی تو خیر تھی لیکن کسی کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ سپر 12 مرحلے کے اپنے پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین اس طرح یکے بعد دیگر وکٹیں گنواتے چلے جائیں گے۔ ہوم سیزن میں آسٹریلیا کو سیریز میں شکست دینے اور جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کے باوجود ویسٹ انڈین بیٹسمین ہر بار بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے نظر آئے تھے لیکن کل کے میچ میں تو لائن ہی لگ گئی۔
جہاں جہاں انگلینڈ کے کپتان نے فیلڈرز کو بھیجا، ویسٹ انڈین بیٹسمین گیند کو وہیں ہوا میں کھیلتے نظر آئے۔ کہیں جو فیلڈرز سے دُور اونچا شاٹ کھیلا گیا تو وہاں بھی فیلڈرز نے اپنا کمال دکھایا جس کی مثال معین علی ہیں جنہوں نے ایون لوئس کا کیچ پکڑ کر ویسٹ انڈیز کی تباہی کا آغاز کیا تھا۔
ویسٹ انڈیز کی ٹیم ٹی20 ورلڈ کپ میں کسی ٹیسٹ ٹیم کی جانب سے سب سے کم اسکور یعنی 55 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے پاس تھا جو سری لنکا کے خلاف 2014ء کے ٹی20 ورلڈکپ میں 60 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ ٹی20 ورلڈکپ میں سب سے کم اسکور بھی سری لنکا کے ہی خلاف نیدرلینڈز کے 39 ہیں، یہ اسکور نیدرلینڈز نے 2014ء میں ہی ٹورنامنٹ کے پہلے مرحلے میں بنایا تھا۔
مگر صرف 56 رنز کے ہدف کے تعاقب میں انگلینڈ کا 4 وکٹوں کا نقصان اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ اگر ویسٹ انڈین بیٹسمین کسی طرح اسکور کو 110 یا 120 تک لے جاتے تو شاید مقابلہ دلچسپ ہوجاتا۔
انگلینڈ کی ٹیم اس ورلڈکپ کے لیے فیوریٹ ہے اور ون ڈے کرکٹ کی عالمی چیمپئن بھی ہے، اور اس نے جس انداز میں اپنے پہلے میچ میں کارکردگی دکھائی ہے، اس سے دیگر ٹیموں کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی بج گئی ہوگی۔
اگرچہ انگلینڈ کے باؤلرز نے تو زبردست کارکردگی کے ذریعے ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کرلیا، لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جب انہیں پہلے بیٹنگ کرنی پڑی تو کیا ان کے بیٹسمین بھی خود کو مناسب طریقے سے ڈھال پائیں گے یا نہیں کیونکہ ویسٹ انڈیز کے بیٹسمین تو اس کام میں بُری طرح ناکام نظر آئے ہیں۔
پہلے دن کے دونوں میچوں میں نظر آنے والی کارکردگی اور ان کے نتائج سے لگ رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں بڑے اسکور کم ہی بنیں گے۔ اگر وکٹیں ایسی ہی رہتی ہیں تو ٹیموں کو بیٹنگ حکمتِ عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ ضرورت پچوں میں تبدیلی کی ہے تاکہ شائقین کرکٹ کو کچھ چھکے چوکے دیکھنے کو ملیں جو ٹی20 کرکٹ کی پہچان ہیں۔
ایم بی اے مارکیٹنگ کرنے کے بعد نوکری سیلز کے شعبے میں کررہا ہوں۔ کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا بچپن سے جنون تھا ۔ پڑھنے کا بچپن سے شوق ہےاور اسی شوق نے لکھنے کا حوصلہ بھی دیا۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔