نقطہ نظر

فضائی میزبان کی آپ بیتی: نیویارک کی سیکیورٹی اور ملتانی حلوہ

فضائی عملے کے لیے امریکا کے ویزے کی کیٹیگری الگ ہے۔ سفارت خانے میں جس چالاک شخص نے میرا انٹرویو لیا وہ سی آئی اے کا ایجنٹ سا لگا۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


دنیا بھر میں فضائی عملے کو ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کہیں بھی جانے کے لیے کچھ متعلقہ اداروں کی باہم معاونت سے تیار کردہ ایک دستاویز ہر جگہ جانے کے لیے ویزا کی حیثیت رکھتی ہے جس کو عرفِ عام میں 'جنرل ڈیکلیریشن' کہا جاتا ہے۔ مگر امریکا جانے کے لیے بہرحال ویزا لینا ضروری ہے، جس کی الگ کیٹیگری ہوتی ہے۔ آخر پتا کیسے چلے کہ امریکا جانا ہے۔

بہرحال اسلام آباد جاکر امریکی سفارت خانے میں انٹرویو دیا۔ شاید واقعی ایسا تھا یا یہ زیادہ انگریزی فلمیں دیکھنے کا اثر ہے کہ جس چالاک شخص نے میرا انٹرویو لیا مجھے وہ ایویں سی آئی اے کا ایجنٹ لگنے لگا۔

وہ پہلے ایک بندے سے اردو میں انٹرویو لے رہا تھا۔ پھر جب مجھ سے سوالات شروع کیے تو وہ سب جہازوں اور ہوا بازی سے متعلق تھے۔ اس کو ایک ایک چیز معلوم تھی۔ یہاں تک کہ ہر جہاز کا ماڈل، کس میں کتنے مسافر لے جانے کی گنجائش ہے اور کون سا جہاز امریکا نہیں لے جایا جاسکتا۔ اس انٹرویو کے بعد امریکی فلموں پر میرا اعتقاد مزید مستحکم ہوگیا کہ وہ جو دکھاتے ہیں ٹھیک دکھاتے ہیں۔

ویزا مل جانے کے بعد 'کلیئرنس' کا مرحلہ ہوتا ہے جو شکر ہے جلد عبور ہوگیا کیونکہ میرا معصوم نام کسی 'خاص' شخصیت سے ملتا جلتا نہیں تھا۔ خدا خدا کرکے روسٹر میں نیو یارک کی پرواز آئی۔ لاہور سے پہلے مانچسٹر جانا تھا اور اس کے ایک دن کے بعد نیو یارک کی پرواز تھی۔

جان ایف کینیڈی ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد سامان لیا اور عملے کی مخصوص قطار میں کھڑے ہوگئے۔ اترنے سے پہلے ایک کارڈ ہمیں سینئر نے تھما دیا کہ اگر کوئی ایسی ویسی چیز ہے تمہارے پاس تو اس پر لکھ دو۔ حیران ہوکر پوچھا کہ وہ کون سی چیزیں ہوتی ہیں؟

کہنے لگے جو اگر کوئی اور تمہارے سامان میں دیکھ لے تو تمہیں شرمندگی ہو۔

میں نے کہا وہ چیزیں تو میں پاکستان چھوڑ کر آیا ہوں۔

اس پر وہ مطمئن ہوکر کہنے لگے کہ بس پھر ٹھیک ہے، میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں۔ تاہم ایک دوست نے اپنے کسی دوست کے لیے ملتان کا سوہن حلوہ منگوایا تھا جس کو میں نے سوئٹس کا نام دے کر کارڈ میں لکھ دیا۔

سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے جب میری باری آئی تو ایک کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون نے مجھ سے کارڈ مانگا اور انگریزی میں پوچھا کہ کون سی سوئٹس لے کر آئے ہو۔ میں نے جواب دیا پاکستانی سوئٹس۔ پھر گویا ہوئیں کہ 'وَٹ کائینڈ' یعنی کون سی قسم کی مٹھائی۔ میں نے ان کا نام پڑھا تو 'پی - کور' لکھا تھا۔ غالباً سکھ خاتون تھیں۔ اتنے میں ان کو لگا کہ میں ان کا سوال سمجھ نہیں پا رہا تو پنجابی میں کہنے لگیں، 'کیڑی مٹھایاں لے آئے او پاکستانوں؟' یعنی کون سی مٹھائی لے آئے ہو پاکستان سے۔ میں نے فٹ سے کہا کہ سوہن حلوہ لے کر آیا ہوں۔ یہاں میں نے حاضر دماغی سے کام لیا اور پاس کھڑے قوی الحبثہ افریقی النسل کانسٹیبل کو دیکھتے ہوئے حبشی حلوہ کہنے سے احتراز کیا کیونکہ وہ کاؤنٹر پر 2 منٹ زیادہ لگنے کی وجہ سے مجھے گھور رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے شاید وہ مٹھائی مجھے سمجھ رہا تھا۔

باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ہمیں ہوٹل لے جانے والی بس ابھی تک نہیں آئی۔ مجبوراً اپنے ہی سامان پر بیٹھ کر انتظار کیا۔ تقریباً گھنٹے بعد 'سرمئی شکاری کتے' یعنی 'گرے ہاؤنڈ بس سروس' نامی کمپنی کی ایک بس ہمارے پاس آکر رُکی۔ ایک سگِ تیز رفتار کا علامتی اسٹیکر بھی بس کے اطراف چسپاں تھا جس کو دیکھ کر مجھے پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے وارث کے مرکزی کردار چوہدری حشمت کے کتے یاد آگئے۔

دل تو کیا کہ ڈرائیور کو بھی چوہدری حشمت والا غصہ دکھاؤں لیکن وہ بھی بالکل سیکیورٹی کانسٹیبل جیسا تھا۔ مجھے مٹھائی والا خیال دوبارہ آیا اور میں خاموشی سے بس میں باقی عملے کے ساتھ سوار ہوگیا۔ ویسے بھی لڑائی جھگڑا کرنا اچھی بات نہیں ہے اور وہ بھی پردیس میں۔

قیام مین ہیٹن کے علاقے میں پینسلوانیا ہوٹل میں تھا۔ زیادہ تر راستہ ہائی وے پر گزرا لیکن جیسے ہی مین ہیٹن شروع ہوا ایسا لگا عمارتوں کے جنگل میں آگیا ہوں۔ مجھے سب کچھ کسی فلم کا سیٹ لگ رہا تھا۔ وہ اس لیے کہ امریکی فلموں میں کوئی بھی آفت، آسمانی بلا، دھماکا، دہشتگرد یا غیر مرئی مخلوق جس نے بھی آنا ہو وہ زیادہ تر نیویارک کے اسی علاقے کو پسند کرتے ہیں۔

ہوٹل مین ہیٹن کے بیچ میں واقع زبردست جگہ پر تھا جس کے بالکل سامنے المشہور 'میڈیسن اسکوائر گارڈن' کی عمارت تھی جس کی وجہ شہرت مجھے بس یہ معلوم تھی کہ یہاں 'فرنگیوں کے دنگل' ہوتے ہیں۔ یعنی 'ڈبلیو ڈبلیو ای' کے ریسلنگ میچ۔

ہوٹل تقریباً 90 سال پُرانا تھا لیکن شہر کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کی خطائیں معاف کردی گئیں۔ کمرے کا دروازہ کم و بیش جہاز کے دروازے جیسا مضبوط اور بھاری تھا، شاید اس لیے کہ ہنگامی صورتحال میں کوئی بندہ کمرے سے نہ نکل سکے۔

ابھی کپڑے تبدیل ہی کیے تھے کہ ایک ساتھی کا فون آگیا کہ سب ٹائمز اسکوائر جا رہے ہیں جلدی آجاؤ۔ ہفتے کی رات تھی، رونقیں عروج پر تھیں۔ وہاں دنیا ہی الگ تھی۔ لال سیڑھیوں پر بیٹھ کر تصاویر بنوائیں اور پھر تھکے ہارے ہوٹل کی راہ لی۔ ساتھیوں سے واپسی پر پھر وہی کہانی سُنی کہ ہوٹل اتنا پُرانا ہے یقیناً رات کو کوئی گڑبڑ ہوگی۔ میں نے کہا میری بلا سے اب کوئی بلا جتنا بھی کرے واویلا، مجھے فرق نہیں پڑتا۔

سب نے میری تعریف کی جس کے بعد میں نے کمرے میں جاکر نماز کے بعد خصوصی دعائے ردِ بلا کی اور امریکی بلاؤں سے معافی مانگ کر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ میں ان تمام کا شکر گزار ہوں کہ پورے قیام کے دوران کسی نے میرے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامنے کی کوشش نہیں کی۔

اگلے دن وہ بارش ہوئی کہ سارے منصوبے زیرِ آب آگئے۔ یورپ کے بارے میں تو سُنا تھا کہ وہاں موسم کا کوئی بھروسہ نہیں۔ یہاں بھی کچھ یہی معاملہ لگتا تھا۔ سہہ پہر میں موسم بہتر ہوا تو ایک سینئر نے بطور گائیڈ اپنی خدمات پیش کیں اور یوں ہم 5 لوگ مین ہیٹن کی سڑکوں پر نکل پڑے۔ کفایت شعاری کے درجہ اولیٰ پر فائز ہمارے سینئر پیدل ہی چلے جا رہے تھے۔ ہماری منزل 'مجسمہ آزادی' تھی جس کے لیے ہمیں جزیرہ آزادی تک جانا تھا۔

ان کی جیبِ ویران سے یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اگر ممکن ہوتا تو وہ ہمیں تیرا کر ہی اس جزیرے پر لے جاتے۔ راستے میں ہم نے تباہ شدہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی باقیات ملاحظہ کیں۔ دوسری مشہور عمارت 'ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ' تھی جو ہوٹل سے قریب ہونے کی وجہ سے پہلے ہی دیکھ لی تھی۔ آخر میں نے پوچھا کہ سر جزیرے تک کیسے پہنچیں گے تو کہنے لگے نیویارک ہاربر سے 'فیری' ملتی ہے وہ ہمیں لے جائے گی۔ چل چل کر ہم اتنا تھک گئے تھے کہ دل کیا واقعی اب کوئی 'پری' ہی ہمیں اڑا کر لے جائے۔

فیری پر سوار ہوکر سفر شروع ہی کیا تھا کہ ایک دم پھر موسم خراب ہوگیا۔ آناً فاناً بادل جمع ہوگئے اور تابڑ توڑ بارش شروع ہوگئی۔ میں نے سوچا یہی فیری اگر اپنے یہاں چناب یا راوی پر چلتی ہوتی تو یقیناً اس میں چائے اور پکوڑوں کا اسٹال ہوتا جس کی بہت بکری ہونی تھی۔

خیر چند منٹ میں یہ طوفان تھم گیا اور ہم جزیرہ آزادی پر مجسمہ آزادی کے پہلو میں کھڑے یادگاری تصاویر بنوا رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خاتونِ آزادی کو ہم نے مکمل لباس میں ملبوس پایا۔ لگتا ہے امریکیوں نے اس کو کوئی 'خاص' آزادی نہیں دی۔ واپسی پر راستے میں ایک جمے ہوئے دہی کی دکان نظر آئی یعنی کہ 'فروزن یوگرٹ شاپ'۔ آئس کریم کے نام پر جما ہوا دہی کھا کر ہم نے بھی اپنا نام اس کے چاہنے والوں کی فہرست میں لکھوایا اور ہوٹل کی راہ لی۔

چونکہ میں انگریزی فلموں کا عاشق، سچا پاکستانی اور سائنس کا دلدادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی دل و جان سے عزیز رکھتا ہوں اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ مشہورِ زمانہ محاورے 'ایک ٹکٹ میں دو مزے' کا مفروضہ بناکر اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہ بات میں نے اپنے 3 ساتھیوں کے سامنے رکھی جو اوپر کی جانے والی تمام باتوں سے نابلد تھے۔ میں نے ان کو انٹرٹینمنٹ کا واسطہ دے کر راضی کیا اور نیویارک کی گلی نمبر 34 پر واقع سنیما گھر میں دوپہر کے وقت داخل ہوکر ہم نے ایک ایک ٹکٹ فلم کا خریدا۔

جب ہم رات گئے باہر نکلے تو وہ مفروضہ 2 کے بجائے 4 کے ہندسے سے ثابت ہوچکا تھا۔ سائنس کی اس کامیابی کا جشن منانے کے لیے ہم نے لمبی واک کی اور گلی نمبر 53 تک جاکر المشہور 'حلال گائیز' کا جائرو کھایا۔ جائرو گوشت کے پارچے، سلاد اور پیٹا بریڈ کے ساتھ مخصوص چٹنیاں ملا کر کھانے والی ایک سوغات ہے جس میں حلال گائیز اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

اگلے دن واپسی تھی اور ایک طویل سفر درپیش تھا کہ نیویارک سے لاہور واپسی ڈائریکٹ تھی۔ 12، 13 گھنٹے کی مسلسل پرواز کے لیے آرام ضروری تھا لہٰذا حرکات الاعضا کو درجہ صفر پر مقید کرکے نیند کی وادی میں بطور گھس بیٹھیا اندراج کروایا کیونکہ ٹائم زون مختلف ہونے کی وجہ سے نیند کا وقت بدل گیا تھا۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔