دنیا

پینڈورا پیپرز میں شامل عالمی رہنماؤں پر ایک نظر

پینڈورا پیپرز کے نام سے یہ تحقیق 3 اکتوبر کو شائع ہوئی جس میں 117 ممالک کے 150 میڈیا آؤٹ لیٹس کے 600 صحافیوں نے حصہ لیا۔

ایک عالمی تحقیقات نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح امیر اور طاقتور افراد گزشتہ چوتھائی صدی سے محل نما گھروں، خصوصاً ساحل سمندر کے سامنے جائیداد، جدید کشتیوں اور دیگر اثاثوں میں اپنی سرمایہ کاری کو چھپا رہے ہیں، مجموعی طور پر ان اثاثوں کی مالیت کھربوں ڈالر ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ’اے پی' کی رپورٹ کے مطابق پینڈورا پیپرز کے نام سے یہ تحقیق اتوار 3 اکتوبر کو شائع ہوئی اور اس میں 117 ممالک کے 150 میڈیا آؤٹ لیٹس کے 600 صحافی شامل تھے۔

بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی رپورٹ میں ٹیکس اصلاحات کے وعدے، استعفوں اور تحقیقات کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ہدف بنائے گئے افراد کی وضاحت اور تردید شامل ہیں۔

یہاں کچھ افراد کا ذکر ہے جن کے نام اس تحقیقاتی رپورٹ میں شامل ہیں:

اردن

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مشیروں نے اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو 1995 سے 2017 تک کم از کم 3 درجن شیل کمپنیاں قائم کرنے میں مدد کی جس سے بادشاہ نے امریکا اور برطانیہ میں 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کے 14 گھر خریدے۔

اس میں ایک کیلیفورنیا میں 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر مالیت کی ساحل سمندر پر جائیداد شامل تھی جو 2017 میں برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) میں ایک کمپنی کے ذریعے خریدی گئی تھی، جو کیریبین میں ٹیکس کی جنت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی رہنما پینڈورا پیپرز کے نقصانات کو محدود کرنے کیلئے کوشاں

تاہم شاہ عبداللہ نے بیرون ملک لگژری گھروں کی خریداری میں کسی قسم کی غلط عمل کی تردید کی۔

یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے جب شاہ عبداللہ اپنے غریب ملک کو کساد بازاری سے نکالنے کے لیے بین الاقوامی امداد کے حصول کی کوشش کررہے ہیں اور عالمی برادری کے ساتھ اردن کے نازک تعلقات کو خراب کر سکتے ہیں۔

اس ملک کو ایک غیر مستحکم خطے میں ایک مستحکم اور مغرب کے حامی ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہ اربوں کی امداد پر انحصار کرتا ہے۔

برطانیہ

سال 1997 سے 2007 تک برطانیہ کے وزیراعظم رہنے والے ٹونی بلیئر ایک بی وی آئی کمپنی خرید کر 2017 میں 88 لاکھ ڈالر کی وکٹورین عمارت کے مالک بنے جس کی ملکیت میں یہ جائیداد تھی۔

تحقیقات کے مطابق اب اس عمارت میں ان کی اہلیہ کی قانونی کمپنی کام کرتی ہے۔

ان دونوں نے یہ کمپنی بحرین کے وزیر صنعت اور سیاحت زید بن راشد الزیانی کے خاندان سے خریدی۔

تحقیقات میں معلوم ہوا کہ لندن کی عمارت کے بجائے کمپنی کے حصص خریدنے سے بلیئرز کو پراپرٹی ٹیکس میں 4 لاکھ ڈالر سے زیادہ کی بچت ہوئی۔

مزید پڑھیں: آف شور کمپنیاں کسے کہتے ہیں اور کیا یہ قانونی ہیں؟

تاہم ٹونی بلیئرز نے کسی غلط کام کی تردید کی اور جوڑے کے ترجمان نے کہا کہ ’وہ اپنی تمام کمائی پر مکمل ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ اور کبھی لین دین کو چھپانے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے آف شور اسکیموں کا استعمال نہیں کیا۔

پاکستان

صحافیوں کی تحقیقات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے کے اراکین پر لاکھوں ڈالر کی دولت خفیہ کمپنیوں یا ٹرسٹس میں چھپانے کا الزام ہے۔

تاہم وزیراعظم پر کسی غلط کام کا الزام نہیں ہے اور انہوں نے ’ناجائز فوائد‘ کی وصولی کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ حکومت دستاویزات میں درج تمام شہریوں کا جائزہ لے گی اور ضرورت پڑنے پر کارروائی کرے گی۔

جمہوریہ چیک

سال 2009 میں جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم آندرج بیبس نے شیل کمپنیوں میں 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ڈالے تاکہ کانز کے قریب فرانس کے علاقے موگنس کے ایک پہاڑی گاؤں میں چیٹو پراپرٹی خریدیں۔

جرنلزم گروپ کے چیک شراکت دار انویسٹیگیس سی زی کی جانب سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق شیل کمپنیوں اور چیٹیو کو وزیراعظم کے اثاثوں کے اعلانات میں ظاہر نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں شامل 300 بھارتیوں میں سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی بھی شامل

تحقیقات میں سامنے آیا کہ چیک وزیراعظم کی بالواسطہ ملکیت میں ایک ریئل اسٹیٹ گروپ نے موناکو کمپنی خریدی جو کہ 2018 میں چیٹیو کی ملکیت تھی۔

تاہم آندرج بیبس نے کسی غلط کام کی تردید کی اور کہا کہ اس رپورٹ کا مقصد ملک اور ہفتہ کو ہونے والے چیک جمہوریہ کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے انہیں نقصان پہنچانا تھا۔

مونٹی نیگرو

تحقیقات کے مطابق مونٹی نیگرو کے صدر میلو جوکانووچ اور ان کے بیٹے نے 2012 میں مبینہ طور پر ایک ٹرسٹ قائم کیا اور کمپنیوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک میں اپنی دولت چھپائی۔

میلو جوکانووچ کے دفتر نے کہا کہ انہوں نے 2012 میں اپنے بیٹے کے ساتھ کاروباری ٹرسٹ اس وقت قائم کیا تھا جب ان کے پاس عہدہ نہیں تھا۔

دفتر نے بتایا کہ اسی سال کے آخر میں وزیر اعظم بننے کے بعد میلو جوکانووچ نے تمام حقوق اپنے بیٹے کو منتقل کردیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میلو جوکانووچ ان مالکان میں سے تھے جہاں کوئی کاروباری لین دین نہیں ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: اردن کی عدالت نے پینڈورا پیپرز کا دعویٰ 'مسخ شدہ'، سیکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دے دیا

میلو جوکانووچ بلقان کے علاقے کو یورو-اٹلانٹک انضمام کے قریب لانے اور روس سے دور رکھنے کی کوششوں میں مغرب کے ایک اہم اتحادی رہے ہیں۔

2006 میں مونٹی نیگرو کو سربیا سے آزادی کی طرف لے جانے کے بعد میلو جوکانووچ نے 2017 میں اپنی 6 لاکھ کی آبادی والی قوم کو نیٹو میں شامل کیا تھا۔

مونٹی نیگرو اب یورپی یونین کی رکنیت کے لیے کوشاں ہے۔

انہیں پیر کو استعفیٰ دینے کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا۔

چلی

لیک ہونے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ چلی کے صدر سیباسٹیان پینارا، جو ملک کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں، نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیوں کو ڈومنگا مائننگ پراجیکٹ سے متعلق معاملات کے لیے استعمال کیا جس میں ان کے خاندان اور ایک دوست مشترکہ ملکیت رکھتے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 2011 میں کان کی فروخت پر حتمی ادائیگی حکومت کی جانب سے شمالی وسطی چلی میں اس کے مقام کو محفوظ قدرتی ذخیرہ قرار دینے سے انکار سے جڑی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز' کیا ہیں؟

حکومت نے اس وقت سیباسٹیان پینارا کی سربراہی میں ماحولیاتی ماہرین کی اپیلوں کے باوجود اسے محفوظ قدرتی ذخیرہ قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی بعد کی حکومتوں نے ایسا کیا۔

جب تفتیش کاروں نے چند سال بعد اس معاملے کو دیکھا تو پنارا نے کہا کہ وہ کمپنیوں کے انتظام میں شامل نہیں تھے اور انہیں ڈومنگا کے ساتھ تعلق کا معلوم تک نہیں تھا۔

اتوار کو صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹرز اور عدالتوں نے 2017 میں فیصلہ کیا تھا کہ کوئی جرم نہیں کیا گیا اور سیباسٹیان پینارا ملوث نہیں تھا۔

انہوں نے نوٹ کیا تھا کہ 2010 میں فروخت پر رضامندی کے وقت ان کے پہلے دور کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔

لبنان

لبنان کے ارب پتی وزیر اعظم نجیب میکاتی کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہے جبکہ ملک ایک مالی بحران سے دوچار ہے۔

دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کاروباری شخص نجیب میکاتی، جنہوں نے گزشتہ ماہ نئی حکومت قائم کی تھی، پاناما میں قائم ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں جسے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے 2008 میں موناکو میں ایک کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کی جائیداد خریدی تھی۔

رپورٹ کے مطابق نجیب میکاتی کا بیٹا مہر کم از کم دو بی وی آئی میں قائم کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ ان کے والد کی موناکو میں قائم کمپنی ایم ون گروپ وسطی لندن میں ایک دفتر کی ملکیت رکھتی ہے۔

نجیب میکاتی کے میڈیا ایڈوائزر فارس جمیل نے اس بارے میں رائے دینے سے انکار کر دیا۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز: میڈیا مالکان، فوجی افسران کے اہلِ خانہ، کاروباری افراد کے مزید ناموں کا انکشاف

انہوں نے صحافتی کنسورشیئم کے لیے مہر میکاتی کے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لبنان میں رہنے والے لوگوں کے لیے آف شور کمپنیاں استعمال کرنا ایک عام عمل ہے، مہر مکاتی نے ٹیکس سے بچنے کے کسی ارادے کی تردید کی۔

برازیل

لیکن ہونے والی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ برازیل کے وزیر معیشت پاؤلو گیوڈس نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں ڈریڈنوٹس انٹرنیشنل نامی ایک آف شور کمپنی میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

اپنے پریس آفس کے ذریعے بھیجے گئے ایک بیان میں پاؤلو گیوڈس نے کہا کہ جب انہوں نے 2019 میں حکومت سنبھالی تو انہوں نے پبلک ایتھکس کمیشن کو تمام ضروری معلومات فراہم کردی تھیں۔

بیان میں کہا گیا کہ 'ان کے اقدامات نے ہمیشہ قوانین کا احترام کیا ہے اور اخلاقیات اور ذمہ داری سے رہنمائی حاصل کی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے اس کے بعد سے نجی مارکیٹ میں اپنی شمولیت کو ترک کردیا تھا'۔

روس

لیک ہونے والی دستاویزات کے مطابق روسی صدر ولادمیر پیوٹن کی تشہیر کرنے والے ملک کے معروف ٹی وی اسٹیشن کے چیف ایگزیکٹو کونسٹنٹین ارنسٹ نے سوچی میں 2014 کے ونٹر اولمپکس کرانے کے بعد ماسکو میں سوویت دور کے سینما گھروں اور آس پاس کی پراپرٹی خریدنے اور تیار کرنے میں رعایت حاصل کی تھی۔

کونسٹنٹین ارنسٹ نے بتایا کہ یہ معاہدہ خفیہ نہیں تھا اور ان تجاویز کو مسترد کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ خصوصی رویہ اپنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز': وزیرخزانہ شوکت ترین، مونس الہٰی سمیت 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ کریملن نے روس کے بارے میں پینڈورا پیپرز کے انکشافات میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں دیکھی۔

انہوں نے ان نتائج کو 'بے بنیاد بیانات کا ایک مجموعہ' قرار دیا اور سوالات اٹھائے کہ کیا معلومات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کوئی سنجیدہ اشاعتیں ہیں جو کسی چیز پر مبنی ہیں جو کسی خاص چیز کا حوالہ دیتی ہوں تو ہم دلچسپی کے ساتھ ان کا جائزہ لیں گے تاہم اس مقام پر ہمیں اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی'۔