ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: فضائی عملے کی گھنٹہ زندگی
اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے
یہ نوکری دنوں کے حساب سے نہیں ہوتی بلکہ گھنٹوں کے حساب سے کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر ماہ کے شروع میں جو لائحہ عمل عملے کو روسٹر کے نام پر دیا جاتا ہے، اس میں ہر ماہ کی نوکری کے گھنٹے درج ہوتے ہیں۔ کُل ملا کر کتنے گھنٹے فضا میں رہنا ہے اور کتنے گھنٹے زمین پر۔ اس کے علاوہ آرام کے دن اور دوسرے شہروں یا ممالک میں ایک پرواز سے دوسری پرواز کے درمیان گزارے جانے والے دن جن کو عرفِ عام میں 'لے-اوور' کہا جاتا ہے، کے گھنٹے بھی درج ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں زندگی ایک طرح سے گھنٹہ ایڈونچر بن جاتی ہے۔
یہ تمام حدود ایئر لائن طے کرتی ہے کہ عملے کے اراکین کے لیے ہر ماہ پرواز کرنے، آرام اور چھٹی پر رہنے کے لیے کتنے گھنٹے مختص کرنے ہیں۔ پرواز کے گھنٹوں میں اڑان بھرنے سے لے کر زمین پر واپس اترنے تک کے گھنٹے شامل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر ان کو ایک ماہ میں 100 گھنٹوں سے اوپر نہیں جانے دیا جاتا۔ اس پرواز کے وقت میں 2 گھنٹے جمع کیے جاتے ہیں اور یوں یہ مکمل ڈیوٹی ٹائم کہلاتا ہے۔
یہ 2 گھنٹے پرواز شروع ہونے سے قبل کی تیاری اور اترنے کے بعد کے انتظامات کے لیے ہوتے ہیں۔ اس تمام وقت کو دُگنا کرکے عملے کو آرام کا وقت دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر 13 گھنٹے نوکری کی ہے تو 26 گھنٹے آرام فرمائیے۔ یہ 26 گھنٹے گزار کر آپ کو پھر یاد کیا جاتا ہے اور یہ مکمل طور پر آپ کی قسمت پر منحصر ہوتا ہے کہ آرام کا یہ وقت انسانوں کے جاگنے کے وقت ختم ہوتا ہے یا چمگادڑوں کے۔ باقی رہا چھٹی کا دن تو اس میں بھی گھنٹہ گھسا ہوا ہے یعنی وہ دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ کئی ماہ تک بڑے ظالم روسٹر آئے۔ یعنی اندرونِ ملک پروازوں سے لبالب بھرے ہوئے۔ اِدھر آرام کا وقت ختم ہوتا اُدھر بلاوا آجاتا۔ اکثر مسافر تو مجھے پہچاننے لگے تھے جو لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے درمیان زیادہ سفر کرتے تھے۔ اور اکثر ان کا وہی 32 نمبر کی ویگن والا سوال ہوتا تھا کہ کیا آپ اسی روٹ پر ہوتے ہیں؟
خیر جون کا مہینہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک رات پرواز سے واپسی پر تھکا ہارا بریفنگ روم میں داخل ہوا تو نئے روسٹر سامنے پڑے تھے۔ اپنا روسٹر ڈھونڈ کر نکالا اور دیکھتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔ بائیں ہاتھ میں روسٹر پکڑے ہوئے میں نے اپنے دائیں ہاتھ پر ایک چک مارا کہ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ دوبارہ نام پڑھا تو میرا ہی تھا۔ یہ کیسے ہوگیا؟ بارسلونا کی پرواز کیسے آگئی؟ وہ بھی 75 گھنٹے کی۔ اس کا مطلب تقریباً 3 دن وہاں رہنا تھا۔ اس رات مجھے معلوم ہوا کہ کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو انسان کتنا اچھا ناچ سکتا ہے۔
پرواز کے دن جہاز پر پہنچا تو سوچ رہا تھا کہ آج ہسپانوی لوگوں سے ملاقات ہوگی مگر معزز مہمانانِ گرامی کو دیکھ کر لگا کہ اندرونِ شہر، معاف کیجیے گا اندرونِ ملک پرواز ہے۔ میں نے دو تین لفظ اسپینش کے بھی یاد کرلیے تھے، ایک 'پورفاوور'مطلب براہِ مہربانی اور 'دوسرا گراسی-اس' یعنی شکریہ۔ تیسرا لفظ کچھ نازیبا تھا لیکن اردو کے لفظ 'پوتا' سے ملتا جلتا تھا۔
جدید فرہنگ ہسپانویہ میں اس کا مطلب حلال زادے کا عین متضاد ہے اور کہیں کہیں اس کے معنی 'ابنِ سگ آوارہ' کے بھی معلوم ہوئے ہیں۔ یہ یقیناً کسی ہسپانوی دادے نے اپنے نالائق پوتے کو غصے میں کہا ہوگا جو اپنے بیٹے سے بھی نالاں ہوگا۔ خیر کسی اندرونِ ملک پرواز کی طرح وقت گزرا اور بارسلونا آن پہنچے۔ ہوٹل جاتے ہوئے راستے میں ساحلِ سمندر پر نظر پڑتے ہی ہم دوستوں نے آپس میں معنی خیز اشارے کیے۔ ہلٹن ہوٹل میں قیام تھا۔
یہاں ایک ساتھی جن کو میں شاہ جی کہوں گا، فرمانے لگے کہ مجھے پکی رپورٹ ملی ہے کہ ہوٹل آسیب زدہ ہے۔ خیر قرعہ اندازی ہوئی اور میرا نام نکل آیا۔ انعام کے طور پر شاہ جی نے میرے کمرے میں ڈیرہ جمایا۔ مجھے بچپن سے جو سلیپ پیرالسز (نیند کے فالج) کا مسئلہ ہے، اس بارے میں شاہ جی کو نہیں معلوم تھا۔ زیادہ تھکاوٹ کی وجہ سے اکثر یہ مسئلہ اس نوکری کے دوران مجھے درپیش رہا۔ اس رات بھی میں نیند میں شدید طریقے سے ہلتا اور باتیں کرتا رہا جس کی بنا پر شاہ جی کا خاطر خواہ 'تراہ' نکالنے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔
اگلے دن ناشتے کا آغاز بحیرہ روم کے ذرخیز ساحلوں کی معجزاتی مٹی سے پیدا، انواع و اقسام کے پھل کھا کر کیا۔ جذبات میں اتنے پھل کھالیے کہ اس کے بعد انڈا ڈبل روٹی کھانے کی جگہ نہ بچی۔ پھر ساحلِ سمندر کی راہ لی جو ہوٹل کے بالکل ہی پاس تھا۔ آنکھیں گرم ہوگئیں کیونکہ جون کا مہینہ تھا اور دھوپ بہت تھی لیکن ہم نے بالکل پرواہ نہ کی اور گھومتے رہے۔ اچانک مجھے ایک تقریباً 'الف' لیلوی حسینہ، دوشیزگی کے اعلیٰ مقام پر فائز اس حالت میں نظر آئی کہ جس پر یہ مثال صادق آتی تھی کہ 'اماں باوا نے بس دو کپڑوں میں بیاہ دیا'۔
اس کے بعد شہر کی راہ لی۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ کوئی کلیسا بڑی حیرت انگیز ہے جو 127 سال گزرنے کے بعد بھی نامکمل ہے۔ خیال آیا کہ یقیناً ہمارے ملک میں کسی پارٹی کو ٹھیکیدار بنایا ہوگا لیکن نہیں بھئی، یہ تو مشہور معمار انتونی گاودی کا نامکمل تخلیقی شاہکار 'سگرادا فیمیلیا' نکلا۔ قدیم چیز تھی چنانچہ میرا دیکھنا لازم ٹھہرا۔ نقشہ اٹھایا اور دوستوں کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ واقعی یہ 'بسیلیکا' ایک شاندار عمارت ہے لیکن ابھی تک نامکمل ہے۔ سوچ رہا تھا عجیب 'گاودی' شخص تھا، کیوں مکمل نہ کیا؟ تو مجھے چچا گوگل نے بتایا کہ اس کی زیادہ تر تعمیر چندے پر منحصر ہے۔
پھر المشہور 'رمبلہ گلی' کا چکر لگا۔ نام مشکوک لگ رہا ہوگا آپ کو، پریشان نہ ہوں۔ یہ رمبلہ اسٹریٹ ایک لمبی سڑک نما ہے۔ اطراف میں طرح طرح کے میلے ٹھیلے ہیں۔ کہیں کوئی فنکار جسم پر میک اپ کرکے کسی خوفناک بلا کا روپ دھارے ہوئے ہے تو کہیں کوئی مصور 5 منٹ کے اندر سادہ کاغذ پر مختلف رنگوں کی پھوار ڈال کر آپ کو ساحل پر ڈوبتے شفق رنگ سورج کا منظر چند یورو کے عوض تھما دینے کو تیار ہے۔ کہیں کوئی حیرت انگیز کرتب چل رہا ہے تو کہیں کوئی سیکھا ہوا مشاق سازندہ موسیقی کو اس حد تک زندہ کیے ہوئے ہے کہ سن کر آپ کا جسم خود بخود تھرکنے پر مجبور ہوجائے۔ غرض یہ کہ رات گئے تک خوب گہما گہمی کا عالم رہتا ہے۔
رمبلہ گلی کے آخر میں بھائی کولمبس کا ایک مجسمہ نصب ہے جو ایک 'نئی دنیا' کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو اس نے دریافت کی تھی۔ اس مجسمے کے نیچے 3، 4 شیروں کے مجسمے بھی موجود ہیں۔ یہاں سے نکل کر ہم نے بارسلونا کے فٹ بال کلب کا دورہ کیا یعنی ایف سی بی بارسلونا۔ کھلاڑیوں کے لاکر روم اور چھوٹا سا چرچ جو کہ اسٹیڈیم کے اندر ہی موجود ہے، ملاحظہ فرمایا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ اتفاق سے ہم 7 لڑکے اکٹھے سیر کرنے کو نکل پڑے۔ ساحل سمندر سے ذرا ہٹ کر ایک راستہ تھا جس پر تجریدی فن پر مشتمل مجسمے مناسب فاصلے سے رکھے تھے۔ ہم مجسموں کی تعریف کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں پولیس نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
انگریزی فلمیں زیادہ دیکھنے کا اثر یہ ہوا کہ ایک ساتھی نے اخلاقاً دونوں ہاتھ بھی اوپر کرلیے۔ خیر ایک پری زاد افسرنی گاڑی سے اتری اور مسکرا کر ہم سے ہسپانوی زبان میں کچھ پوچھا۔ وہ مہ جبین نفاذ قانونی ہماری شناخت کو پوچھتی تھی۔ جھٹ سے اپنا آفیشل کارڈ اور ہوٹل کی چابی دکھائی اور اسے مطمئن کیا۔ کچھ ساتھی تو گرفتار ہونے کو تیار تھے لیکن وہ آخری دن تھا اور اگلے دن روانگی تھی۔ دو ایک دن اور ہوتے تو گرفتاری کا سوچا جاسکتا تھا۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔