نقطہ نظر

ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: یونانی کھنڈرات کی سیر

مقررہ اسٹاپ سے دو اسٹاپ پہلے ہی اترگیا۔ یا خدا یہ کہاں آگیا ہوں؟ جہاں قدیم تہذیب کےآثار ہونے چاہیے تھےوہاں تو کوئی مال بنا ہوا تھا

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


فضائی عملے کی نوکری کرتے ہوئے کسی کو سالوں ہوجائیں یا پہلا مہینہ ہو، سب کو ایک چیز کا شدت سے انتظار رہتا ہے، اور وہ ہوتا ہے اگلے مہینے کا شیڈول۔ کون سی پروازیں آئیں گی؟ بین الاقوامی کتنی ہوں گی اور قومی کتنی؟ چھٹیاں کون کون سی تاریخوں میں آئی ہیں؟ پروازوں کے بعد آرام کے دن اور اوقات صحیح طریقے سے درج ہیں یا ان میں ڈنڈی ماری گئی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا دوستوں کے ساتھ کوئی پرواز آئی ہے یا نہیں؟

ان سب باتوں کو جاننے کہ لیے سینئر ترین عملے سے لے کر جونیئر ترین عملہ مہینے کی آخری تاریخوں میں بے تاب ہوتا ہے۔

فضائی عملے کی عید، شب برات، محرم، ہولی، کرسمس یا 12 ربیع الاول یعنی گزٹ تعطیلات نہیں ہوتیں۔ مہینے میں چھٹی کے 8 دن ملتے ہیں اور وہ مختلف تاریخوں میں ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ 3 بھی ہوسکتے ہیں مگر مسلسل کام کرتے ہوئے 7 دن ہوجائیں تو چھٹی لازمی ہوجاتی ہے۔

پچھلی اقساط میں واضح کرچکا ہوں کہ یہ کوئی عام 9 سے 5 والی روٹین کی نوکری نہیں ہے۔ اب روسٹر دیکھ کر ہی تمام عملے کو اپنے سارے مہینے کے معاملات طے کرنے پڑتے ہیں کہ بچے کی سالگرہ کرنی ہے تو کس دن کریں یا پکنک کا پروگرام ہے تو کون سی تاریخ ٹھیک رہے گی وغیرہ وغیرہ۔

عملے کی کائنات میں ہفتہ اتوار نہیں ہوتا، بس چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سب لوگ سوموار کو نوکری پر جارہے ہیں اور آپ گھر پر چھٹی منا رہے ہیں۔ اتوار کو ساری خلقت سو رہی ہے اور آپ بیچ رات میں اٹھ کر شیو بنا رہے ہیں کہ علی الصبح نیویارک روانہ ہونا ہے۔ 23 مارچ کو سب ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر پریڈ دیکھ رہے ہیں اور آپ اسلام آباد سے گلگت جانے والی پرواز میں خراب موسم کے سبب ہچکولے کھا رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ عید کی نماز پڑھنے جا رہے ہوتے ہیں اور آپ جدہ سے کراچی پہنچنے والے مسافروں کو ملتان کی منسلک پرواز کے ذریعے ان کے گھر پہنچانے کے لیے تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔

سال 2005ء کی عید ایسے ہی گزری۔ چاند رات کو فون آیا کہ صبح آپ اسلام آباد سے ملتان، ملتان سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد پرواز کریں گے۔ نوکر کی تے نخرا کی۔ علی الصبح تیار ہوکر پہنچ گئے۔ لیکن دل بڑا ڈوبا کہ یہ کیا عید ہوئی۔ ملتان پہنچا تو بھائی کا فون آیا کہ میں اور ابو ملنے آئے ہیں۔ لاؤنج سے باہر آیا اور ملاقات کی۔ بھائی کا دل بھی اداس تھا، اس نے عید کا جوڑا بھی نہیں پہنا تھا۔ بس نوکیا کے موبائل غالباً 6600 یا کوئی اور سیٹ تھا جس سے میری کینڈڈ تصاویر بناتا رہا کہ گھر جاکر امی کو دکھائے گا۔ فٹافٹ مل ملا کر واپس جہاز پر پہنچا کہ ابھی کراچی اور واپس اسلام آباد بھی جانا تھا۔

خیر بات تو روسٹر کی ہو رہی تھی۔ مئی 2007ء میں ایسا شاندار روسٹر آیا کہ دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔ اس مہینے مجھے یونان کے شہر ایتھنز جانا تھا۔ بچپن سے شہر کی دیواروں پر کافی جگہ یونانی دواخانہ کے اشتہارات نظر آتے تھے تو سوچتا تھا کہ یہ 'یونانی' کون بندہ ہے؟ اور کیسا نام ہے یہ؟ بعد میں پڑھتے پڑھاتے معلوم ہوا کہ یہ کوئی بندہ نہیں ایک ملک کا نام ہے اور اس کا وجود تاریخ قبل مسیح میں جا ملتا ہے۔

بس پھر روسٹر میں ایتھنز کی پرواز دیکھ کر منصوبہ ہائے سیرِ کھنڈرات بنانے میں لگ گیا۔ پہلے مجھے افسوس ہوا کہ کوئی دوست ساتھ نہیں تھا۔ لیکن بعد میں سوچا یہ بہتر ہی ہوا، مجھے تو کھنڈرات اور پرانی جگہوں پر گھومنے کا شوق ہے لیکن جو غریب میرے ساتھ آتا اسے کس جرم کی سزا ملنی تھی کہ قبل مسیح کے ویرانوں میں میری ہم نشینی کرے وہ بھی اپنے ذاتی خرچ پر۔

میرے ذہن میں بس ایک بات تھی کہ مجھے یونانی زبان نہیں آتی تھی۔ اس بارے میں ابّا سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ تم نے انگریزی زبان بولنا سیکھ رکھا ہے تو کیا مسئلہ ہے۔ میں نے سوچا یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن جب میں ایتھنز میں ہوٹل سے باہر نکلا تو اندازہ ہوا کے وہاں کے لوگوں کے ابّوؤں نے انہیں کہہ رکھا تھا کہ 'تم نے یونانی زبان بولنا سیکھ رکھا ہے تو کیا مسئلہ ہے، یہاں کس نے انگریزی بولنی ہے'۔

انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پرواز کا دن آن پہنچا۔ میں نے سوچا تھا یونان جا رہا ہوں تو مسافروں میں یونانی تہذیب و تمدن اور عظمت رفتہ کی امین حسینائیں نہیں تو کوئی اکا دکا دوشیزہ تو جلوہ افروز ہوگی مگر مجال ہے کہ عام مسافروں کے ’بلوہ افروز‘ ہونے کے علاوہ کسی ایک بھی فرنگی (یہاں مراد یونانی مرد کم اور خواتین زیادہ ہیں) نے جہاز پر قدم رکھا ہو۔ خیر اس صدمے کے بعد میں نے اپنے آپ کو کام میں غرق کرلیا اور ایتھنز اترنے کے وقت تک اپنے آپ کو مصروف رکھا۔

پرواز اتری۔ مسافر اترے۔ سامان لیا۔ کسٹم سے ہوتے ہوئے ایئرپورٹ سے باہر نکلے اور آرمونیا ہوٹل کی بس میں سوار ہوگئے۔ کیا ہی شاندار ہوٹل تھا اور وہ بھی ساحلِ سمندر پر۔ مناسب سائز کے کمرے اور ساتھ میں یہ بڑی سی بالکونی۔ سوچا صبح اس کا جائزہ لوں گا۔

صبح تازہ ہوا کھانے کے لیے کمرے سے منسلک بالکونی کا دروازہ کھولا، لیکن میرے کمرے کی جانب سے نظر آنے والے ’بیچ‘ کے بیچوں بیچ پتھر بھرے ہوئے تھے اور عوام الناس کی کوئی خاص ’آمدورفت‘ نہ تھی۔ شریف آدمی کی کوئی زندگی نہیں بھائی۔ واپس پلٹا، کمرے میں آیا اور ناشتے پر جانے کی تیاری کرنے لگا۔

چونکہ میں اس پرواز پر اکیلا ’لڑکا‘ تھا لہٰذا خود ہی گھومنے پھرنے کا انتظام کرنا تھا۔ پہلے ایک دوست ایتھنز ہوکر جاچکا تھا۔ اس سے معلومات لے رکھی تھی کہ کون سی بس کہاں سے کس وقت کون سے مقام کے لیے ملتی ہے اور واپسی کی بس کا کیا نمبر ہوگا۔ ضروری کاغذات والا بیگ خالی کیا۔ اس میں پانی کی بوتل، چپس کا بڑا پیکٹ اور کچھ چاکلیٹ ڈالیں، شہر کا نقشہ ہوٹل سے لیا اور قبل مسیح کے کھنڈرات کا جائزہ لینے نکل کھڑا ہوا۔

خیر سے اتنی احتیاط سے نقشے پر نشان لگائے تھے کہ مقررہ اسٹاپ سے دو اسٹاپ پہلے ہی اتر گیا۔ یا خدا یہ کہاں آگیا ہوں؟ جہاں قدیم تہذیب کے آثار ہونے چاہیے تھے وہاں تو کوئی مال بنا ہوا تھا۔ اس کی ایک وجہ یونانی حروفِ تہجی بھی تھے۔ اگر آپ غور کریں تو اچھی بھلی انگریزی زبان لکھتے لکھتے بیچ میں ریاضی کے اعداد و شمار شروع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا فارمولہ غلط لگ گیا اور میں کسی اور جگہ ہی اتر گیا۔ خیر ایک بندے کو روک کر پوچھا کہ ایکروپولس جانا ہے۔ اس جوان کے کچھ پلے نہ پڑا، آخر نقشہ کھول کر ہاتھ رکھ کر دکھایا تو بھائی نے اشاروں سے بتایا کہ کچھ دُور پیدل چلو، پھر سڑک اوپر کی طرف جائے گی اور ایکروپولس آئے گا۔ چنانچہ پھر دو ایک کلومیٹر کی پیدل خواری ہوئی۔

آخرکار، تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا۔ تھوڑے فاصلے پر مجھے بوسیدہ کھنڈرات کا مجموعہ ایک ٹیلے نما پہاڑی پر نظر آرہا تھا۔ استقبالیہ سے ٹکٹ خریدا اور ٹبہ ارسطو پور تحصیل ایکروپولس میں داخل ہوگیا۔ زمانہ قبل مسیح میں تعمیر شدہ یہ ٹیلا جن عمارتوں پر مشتمل ہے ان کے نام یہ ہیں: پارتھینون، ایریکتھیون، قدیم ایگورا اور تھیٹر آف ڈایونیسس۔ یہ سارا علاقہ 7.4 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ ساری تعمیرات تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی قبل مسیح کی ہیں۔

ساتھ ہی ایک عجائب گھر بھی قائم ہے جس میں بہت سی اہم اور قیمتی اشیا رکھی ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر اس سارے علاقے کو اس زمانے کا ایکٹیویٹی سینٹر کہا جا سکتا ہے جہاں عبادت گاہ، کھیل کود کے میدان، ڈرامہ اور آرٹ کے لیے تھیٹر اور سیاسی امور نمٹانے کے لیے مقرر جگہیں ایک ہی مقام پر واقع تھیں۔

پھر پارلیمنٹ ہاؤس پر گارڈز کی تبدیلی کے مناظر دیکھنے کے لیے ایک لمبی واک کرنا پڑی اور ایک بازار میں پھر راستہ بھول گیا۔ خیر لوگوں کو نقشہ دکھاتا اور اشاراتی زبان میں راستہ پوچھتا ہوا آخرکار پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت تک پہنچ گیا جس کے سامنے لمبے تڑنگے جوان میرے منہ کے سائز کے گوڈے لیے پھندنے والے بوٹ اور چنٹوں والی فراک پہنے بندوق تھامے ایستادہ تھے۔ بالکل ٹھیک وقت پر پہنچا تھا کہ وہ سب اپنی پریڈ شروع کرچکے تھے۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بہت سے شترمرغ، مکمل حجامت بنوائے، کسی ماورائی طاقت کے نشے میں چور لنگڑاتے ہوئے اِدھر اُدھر پھدک رہے ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو یوٹیوب پر سرچ کرکے دیکھ لیں۔ ویسے میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

شام کے 7 بج رہے تھے چنانچہ بس پکڑ کر واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ ابھی یونانی حسن کی تلاش جاری تھی اور میرے پاس 2 دن اور تھے۔

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔