ادب

شاعر مشرق، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی 83 ویں برسی

علامہ اقبال نے بانگِ درا، ضربِ کلیم، بالِ جبرل، زیور عجم، ارمخان حجاز، شکوہ، جوابِ شکوہ سے ادب میں ایک نام پیدا کیا۔

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 83 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے، آپ نے 1930 میں ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھا اور اپنی شاعری سے برصغیر کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح پھونک دی۔

علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے اور والدین نے ان کا نام محمد اقبال رکھا تھا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی، مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو وہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔

مزید پڑھیں: شاعر مشرق کا یوم ولادت: ‘ملکی مسائل کا حل اقبال کا پیغام‘

ایف اے کرنے کے بعد محمد اقبال اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے، انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔

جس کے بعد 1905 میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، پھر وہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ابتدا میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔

وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922 میں حکومت کی طرف سے سَر کا خطاب ملا۔

آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

1930 میں آپ کا الہٰ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔

علامہ اقبال کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔

پاکستان کی آزادی سے قبل ہی علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے، آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو انسانیت کے لیے ہمیشہ مشعل راہ بنی رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حکیم الامت علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین

یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔

علامہ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

علامہ اقبال نے بانگِ درا، ضربِ کلیم، بالِ جبرل، زیور عجم، ارمخان حجاز،اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، شکوہ، جوابِ شکوہ سے ادب میں ایک نام پیدا کیا۔

قوم کے اس عظیم شاعر کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے احاطے میں واقع ہے۔