ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: پہلی پرواز کی روداد
اس سلسلے کی گزشتہ قسط یہاں پڑھیے۔
پرواز کی روانگی کے وقت سے 3 گھنٹے پہلے عملے کا پک اپ لازمی ہوتا ہے۔ یعنی اگر پرواز کی روانگی کا وقت صبح 8 بجے ہے تو عملے کی گاڑی آپ کو لینے کے لیے 5 بجے آپ کے گھر موجود ہوگی، اس لیے اگر آپ سو رہے ہیں تو آپ کو 4 گھنٹے پہلے اٹھنا ہے۔
اگر رات کو پرواز کی روانگی 2 بجے ہے تو 11 بجے پک اپ وین موجود ہوگی۔ اب ان اوقات میں آپ نے سونا ہے، جاگتے رہنا ہے، کھانا پکانا ہے یا برتن دھونے ہیں یہ آپ کی مرضی، بس یہ واضح رہے کہ پرواز پر آپ نے تر و تازہ پہنچنا ہے کیونکہ اگر آپ سوکھے اور باسی پہنچے تو نہ آپ یہ نوکری صحیح طور سے انجام دے پائیں گے اور اپنے ساتھ ساتھ مسافروں کی زندگی بھی داؤ پر لگانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
جی ہاں، عملے کی جہاز پر موجودگی کی سب سے پہلی وجہ اور ذمہ داری مسافروں کی حفاظت اور ہنگامی حالات میں جان بچانا ہے۔ یہ جو دورانِ پرواز ولیمہ چل رہا ہوتا ہے یہ ثانوی چیز ہے مگر ہمارے یہاں اس کو ترجیحات اوّل میں شمار کیا جاتا ہے۔
36 ہزار فٹ کی بلندی پر اگر آپ کو طبّی امداد کی اشد ضرورت پیش آجاتی ہے تو خدا کے بعد فضائی میزبان ہی آپ کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہی آپ کے جہاز کو حادثے نے آلیا ہے اور ہنگامی اخراج متوقع ہے، تو امید کی واحد کرن آپ کا فضائی میزبان ہی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مسافر خاتون حاملہ ہے اور پیدائش متوقع ہے تو جب تک جہاز کسی قریب ترین مقام پر اتر نہیں جاتا جہاں ڈاکٹر اور اسپتال میسر ہوں، آپ کے یہ فضائی میزبان ہی آپ کی دائی ماں ہوتے ہیں۔
انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ سوشل ہیں؟ لوگوں سے میل ملاقات کرتے ہیں؟ جواب دیا ہاں جی کیوں نہیں۔ سوچا لوگوں سے کیا مسئلہ، مل ول لیں گے بھئی۔ لیکن یار سیکڑوں افراد سے ملنے کی بات تو نہیں ہوئی تھی۔ وہ بھی درجہ ہائے اقسام کے۔ ایسے ایسے لوگوں سے پالا پڑتا ہے کہ دل چاہتا ہے آدمی جہاز سے چھلانگ لگا دے۔ پاکستان میں آپ کو ڈاکٹر، انجینیئر اور بینکر تو بہت ملیں گے لیکن فضائی میزبان بہت کم۔ دنیا میں بھی یہ تناسب بہت کم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں لوگوں میں سے ایک فضائی میزبان ہوتا ہے۔
پہلی پرواز کی روانگی کا وقت صبح 9 بجے تھا۔ میں 5 بجے اٹھا۔ ویسے تو جس صبح پرواز ہو، اس رات نیند ایسے غائب ہوتی ہے جیسے مہینے کی 10 تاریخ کو میڈیوکر آدمی کے بینک اکاؤنٹ سے تنخواہ۔ 6 بجے گاڑی آگئی اور ہوائی اڈے پہنچ گئے۔
وہاں مرتضیٰ اور عدنان سے بھی ملاقات ہوئی اور ہم تینوں ہی ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ہمیں ٹریننگ میں بتایا گیا تھا کہ پہلی 2 پروازیں ’آبزرویٹری فلائٹس‘ کہلاتی ہیں یعنی ان پر کام نہیں کرنا ہوتا، بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کام کیسے ہوتا ہے۔ لیکن تیسری دنیا میں کام کرتی تمام کمپنیوں کی طرح ہمیں یہاں یہ بتایا گیا کہ بیٹا، عملے کی کمی کی وجہ سے آپ کو ہی کام کرنا پڑے گا۔
ہم تینوں کو جہاز کے ایک ہی حصے میں تعینات کردیا گیا جو جہاز کا سب سے پچھلا ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا حصہ بھی تھا۔ یعنی کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑے اور وہ بھی ایک ایک من کے۔
جہاز پر پہنچ کر ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے تمام آلات کا جائزہ لینا پہلا اور بے حد ضروری کام ہوتا ہے۔ اس کے بعد دیگوں کا انتظام سنبھالنا ہوتا ہے۔ معاف کیجیے، یہ میرے دل کی آواز زیب قرطاس ہوگئی، میرا کہنے کا مقصد تھا کہ کیٹرنگ کا چارج لینا پڑتا ہے کہ آنے والے ’معزز مہمانوں‘ کے طعام کا بندوبست کیا جاسکے۔
جہاز اڑا۔ کوئٹہ کی جانب رخ کرکے سیدھا ہوا۔ ہم نے بھی کمر کسی اور لگے دکان سجانے۔ سروس ٹرالیاں تیار کیں، جان تو پہلے ہی ہتھیلی پر تھی لہٰذا نکل پڑے راہِ پُر خطر پر۔ یہ دو طرفہ راہداری والا ائیر بس کمپنی کا بڑا جہاز تھا۔ پوری کوشش تھی کہ ایک گھنٹہ 20 منٹ کی اس پرواز پر 115 مسافروں کو کھانے کی ٹرے اور مشروبات دے کر وہ ٹرے واپس لے لی جائے اور پھر اچھی طرح ٹرالیوں کو دوبارہ اپنی جگہ لگا کر کچھ کھا لیا جائے مگر ایسا شاید فلموں میں ہی ممکن ہوتا ہو۔
جہاز نے کوئٹہ کے لیے اترنا شروع کردیا اور ہم خیر سے ابھی گرم مشروبات دینا شروع کرنے لگے تھے۔ ہمیں رہ رہ کر وہ دوست یاد آرہے تھے جن کا ہم نے سنگل سیکٹر فلائٹ ملنے پر مذاق اڑایا تھا۔ اب دل کر رہا تھا کہ ہمیں بھی کوئی سنگل سیکٹر فلائٹ مل جاتی کیونکہ ابھی تو کراچی اور پھر اسلام آباد واپس بھی جانا تھا۔ بس پھر جہاز کے درمیانی حصے میں کام کرنے والے سینئر عملے نے ہماری کسمپرسی پر رحم کھایا۔ خدا کی مدد آپہنچی۔ بزنس کلاس سے 2 خواتین بجلی کی سی تیزی سے آئیں اور سارا کام لینڈنگ سے پہلے نمٹا کر چلی گئیں۔
کوئٹہ اترے۔ موسم خراب تھا لہٰذا جہاز کی لینڈنگ مشہور فلم دیوداس کے گانے ’ڈولا رے‘ کی طرز کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہوسکی تھی۔ خیر ہم نے دوسری جنگِ عظیم کے کسی سخت جان فوجی کی طرح ہمت جمع کرکے پھر سے مورچہ تیار کرنا شروع کردیا کیونکہ اب جنگ کا دوسرا حصہ شروع ہونے والا تھا اور اس مرتبہ ہتھیار کے طور پر ہمارے پاس دوپہر کا کھانا تھا لیکن پرواز کا وقت پہلے سے بھی کم۔ چنانچہ اس سیکٹر پر بھی بیرونی امداد کے سہارے کام چلانا پڑا۔
ایک مسافر نے مجھ سے کافی کا مطالبہ کیا جو میں پرواز کے آخر تک اس کو نہ پہنچا سکا کیونکہ مجھے اس کو کافی دینا اس وقت یاد آیا جب وہ کافی نہ ملنے پر طنزاً میرا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ میں نے بھی اس کو دل سے ’ویلکم‘ کہہ کر اپنی راہ لی کیونکہ جہاز کی لینڈنگ کا اعلان ہوچکا تھا۔ اپنے دفاع میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پہلی پرواز پر کافی لوگوں نے کافی کے علاوہ مجھ سے کافی کچھ مانگ رکھا تھا۔ ایک گھنٹہ 20 منٹ میں تقریباً 20 منٹ ٹیک آف اور لینڈنگ میں نکل جاتے ہیں۔ اب ایک گھنٹے کے اندر سب کی شکم پری جوئے شیر لانے بلکہ جوئے بہت زیادہ سارا شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس لیے لوگوں سے گزازش یہی ہے کہ اپنے فضائی میزبانوں کی قدر کریں اور انہیں حقیر نہ جانیں۔
کراچی سے اسلام آباد کی پرواز تقریباً 2 گھنٹے کی تھی جس میں کچھ سمجھ آئی کہ استاد یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ حالت کافی پتلی ہوگئی۔ تھوڑا بہت کھایا اور اسلام آباد اترے۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔