ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: ہوائی نوکری کا آغاز
جس طرح شراب اور جوئے کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں اسی طرح فضائی عملے میں بھرتی ہونے کا معاملہ ہے۔ دُور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ دنیا دیکھیں گے، سیر کریں گے، فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام اور ناجانے کیا کیا خواب۔
پھر پتا چلا بلکہ لگ پتا گیا کہ یہ ایک انتہائی عجیب قسم کی نوکری ہے۔ نہ دن کا پتا نہ رات کا۔ نہ کوئی کھانے کا وقت نہ سونے جاگنے کا۔ دن رات کا کوئی حساب نہیں استاد۔ صبح 6 بجے فلائٹ ہے تو 2 بجے رات اٹھ کر شیو کرو، نہا دھو کر بیبے بچے بن کر بیٹھ جاؤ کہ 3 بجے گاڑی لینے آجائے گی۔ سارا جہان خوابِ خرگوش میں ہے اور آپ کام پر جا رہے ہیں۔
اس نوکری سے پہلے بہت سیدھی سیدھی زندگی گزاری۔ گھر سے اسکول، اسکول سے گھر، گھر سے کالج، کالج سے گھر۔ سچی بات ہے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس نوکری میں ہوتا کیا ہے اور اس شعبے میں بھرتی کیسے ہوا جاتا ہے۔
بچپن میں جب جہاز کا سفر کیا تو بس یہی معلوم تھا کہ ایک انکل یا آنٹی آتے ہیں اور کھانا دے کر چلے جاتے ہیں (جیسا کہ ہمارے زیادہ تر عوام سمجھتے ہیں) لیکن یہ تو دنیا ہی اور ہے۔ شوق دراصل بڑے بھائی حسنین کا تھا، لیکن انتخاب میرا ہوگیا۔ پھر میں دنیا میں گھومنے لگا اور وہ کتابوں میں۔
ایک دن کالج سے واپس آیا تو دیکھا بھائی ایک فارم بھر رہا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فلائٹ اسٹیورڈ کے لیے اپلائی کیا جا رہا ہے۔ میں نے ’اچھا! چلو گریٹ‘ کہہ کر دوسری طرف رخ کیا ہی تھا کہ بھائی کی آواز آئی، ’تو نے بی ایس سی کر تو لی ہے، ساتھ ہی اپلائی کردے‘۔ میں نے کہا مجھے کون لے گا؟ کہنے لگا کیا معلوم میرے بجائے تیری نوکری لگ جائے۔ بس یہی وہ گھڑی تھی کہ کوئی فرشتہ اس بات کو لے کر پرسنل ہوگیا اور روشنی کی رفتار سے عرش معلیٰ پہنچ کر کاتب تقدیر سے ’منظور ہے‘ کا ٹھپہ لگوا کر واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔
فارم کی قیمت مبلغ 500 روپے سکہ رائج الوقت تھی۔ ابّا نے تو کہا کہ ’500 ضائع ہوجائیں گے، خاور کو پڑھائی پوری کرنے دو‘۔ میں اس وقت ایم بی اے کر رہا تھا اور ویسے بھی کوئی خاص گھومنے کا شوق نہیں رکھتا تھا۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ اگلے 15 سال میں نے ایسا گھومنا ہے کہ میرے بارے میں یہ مقولہ جائز طور پر استعمال کیا جاسکے گا کہ ’ہاں بھئی، اس نے تو دنیا دیکھی ہے‘۔ بھائی نے اپنی جیب سے میرا فارم خرید کر بھیج دیا۔ ہم دونوں کو ہی بلا لیا گیا۔ انٹرویو ہوا۔ بھائی کامیاب نہ ہوسکا اور میری بھرتی ہوگئی۔
کراچی میں 2 مہینے کی ٹریننگ کے بعد پاسنگ آؤٹ کی تقریب تھی۔ والد صاحب خصوصی طور پر ملتان سے تشریف لائے تھے۔ ان کو اور مجھے یکساں طور پر حیرت کے سمندر میں غوطہ لگانا پڑ گیا جب میرا نام تیسری پوزیشن کے لیے پکارا گیا کیونکہ ابّا اور میرا مشترکہ خیال تھا کہ میں کبھی کوئی پوزیشن، نصابی یا غیر نصابی، لانے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ یقیناً یہ غوطہ بعد میں میرے بھائی نے بھی لگایا ہوگا کیونکہ وہ بھی تو مجھے بچپن سے جانتا ہے۔
اگلے دن آئی ڈی کارڈ اور ملازمت کا مخصوص نمبر الاٹ ہوگیا۔ گھر آکر پہلی پرواز کی تیاریاں شروع کردیں۔ ابّا کے ساتھ جاکر زینب مارکیٹ سے لش پش قسم کا ٹرالی بیگ خریدا اور بھرنا شروع کیا۔ آخر کار 2 گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد بیگ منہ تک بھر لیا۔ پھر سوچا ایک فلائٹ ہی تو کرنی ہے، کتنی چیزوں کی ضرورت پڑجائے گی زیادہ سے زیادہ۔ لہٰذا 2 پتلونیں، 4 قمیضیں، جوگر، چپل، بوٹ، شلوار قمیض، پشاوری چپل وغیرہ نکال کر ایک پتلون قمیض اور اضافی یونیفارم رکھ کر بستہ بند کردیا۔
اب انتظار تھا کہ کب کبوتر خط لے کر آئے کہ جس میں منزل کا پتا درج ہو۔ یہاں خط سے شاعر کی مراد ڈیوٹی لیٹر اور کبوتر سے مراد ڈسپیچر ہے۔ تقریباً 8 بجے بیل بجی۔ دروازہ کھولا تو ایک کالا کبوتر سفید لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے بولا کہ خاور صاحب کا لیٹر ہے ان کو دے دیں۔ بذاتِ خود خاور صاحب نے موصول پاکر لفافہ کھولا تو اندر ڈیوٹی لیٹر کے بجائے اسلام آباد تبادلے کی خبر پائی۔
اس زمانے میں نئی نئی موبائل تک رسائی ملی تھی۔ اپنے پاس بھی نوکیا کا 3330 کا سیٹ مثل اینٹ جیب میں پڑا رہ کر پتلون کا توازن بگاڑے رکھتا تھا۔ لہذا اسے نکال کر دوستوں کو ایس ایم ایس کیا اور یہی جواب پایا کہ سب کو اسلام آباد تبادلے کا لیٹر ہی ملا ہے۔ فوراً سے پہلے ’منہ ول ملتان شریف‘ کیا۔ اسلام آباد رپورٹ کرنے کے لیے 7 دن کا وقت تھا لہٰذا 6 دن ملتان میں گزار کر ساتویں دن اسلام آباد پہنچ کر ڈیوٹی کے لیے حاضر ہوگیا۔
ہر مہینے تمام عملے کو ایک مخصوص لائحہ عمل جس کو عرف عام میں روسٹر کہا جاتا ہے، دے دیا جاتا ہے۔ اس پر پروازوں کے دن اور تاریخ درج ہونے کے ساتھ ساتھ آرام، چھٹی اور اسٹینڈ بائے دنوں کی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں۔ اسٹینڈ بائے دنوں سے مراد یہ ہے کہ آپ اس دن وقت کے ایک مخصوص دورانیے میں گھر پر موجود رہیں گے۔ اگر آپ کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ کو پرواز کے لیے بلوا لیا جائے گا۔ اگر نہیں تو اس مخصوص دورانیے کے بعد باقی کا دن آپ کی چھٹی۔
ہمارے یہاں سمیت تمام دنیا کے فضائی میزبان یہ اسٹینڈ بائے دن اس برائلر مرغی کی طرح گزارتے ہیں جو مسلسل قصائی کو اپنے آس پاس کی مرغیاں ذبح کرتے ہوئے دھڑکتے دل کے ساتھ دیکھ رہی ہوتی ہے، مگر پنجرے سے باہر نہیں جاسکتی۔ عجیب بے ہودہ دن ہوتا ہے۔ سارا دن بستر پر لوٹیاں مارتے رہو کہ کہیں فلائٹ پر جانا پڑگیا تو کم از کم آرام تو کیا ہوا ہو۔ ایسے دن کوئی بلاوا نہیں آئے گا، مگر جس دن رسک لے کر آپ کوئی ضروری کام نمٹانے نکل پڑیں، جھٹ سے آپ کو یاد کرلیا جائے گا۔
چونکہ ہم لوگ مہینے کے درمیان میں نوکری شروع کرنے لگے تھے اس لیے سب کو 15، 20 دن اسی برائلر مرغی کی طرح نوکری کرنا پڑی۔ مجھے، عدنان اور مرتضیٰ کو اکٹھے ایک پرواز ملی۔ فلائٹ ملٹی سیکٹر تھی یعنی اسلام آباد سے کوئٹہ، کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد واپس۔
کسی کو صرف اپ اینڈ ڈاؤن پرواز ملی یعنی اسلام آباد سے لاہور اور لاہور سے واپس اسلام آباد۔ ہم تینوں نے سنگل سیکٹر فلائٹ والوں کو اپنے سے کمتر جان کر پھبتیاں ہائے کثیر کسیں کہ تم لوگ چھوٹی فلائٹ پر جاؤ ہم تو بڑی فلائٹس کرتے ہیں بھئی اور بڑے کروفر سے گھر کی راہ لی کہ کل نکلیں گے مزے سے کوئٹہ اور کراچی۔ لیکن اس پہلی پرواز پر جو درگت بنی وہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیے گا۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔