یہی وجہ ہے کہ امریکا کے طبی ماہرین کی ایک حالیہ پیشرفت سے توقع پیدا ہوئی کہ کسی فرد میں کینسر کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ممکن ہوجائے گی۔
برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں ایک خون کے ٹیسٹ کی آزمائش کی جارہی ہے جس کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ وہ 50 سے زیادہ اقسام کے کینسر کی تشخیص کرسکے گا۔
ایسا ہونے پر ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں مدد مل سکے گی کیونکہ ابتدای مرحلے میں علاج زیادہ کامیاب ہوسکے گا۔
اس ٹیسٹ کو امریکا کی ایک کمپنی گریل نے تیار کیا ہے اور اسے گالیری بلڈ ٹیسٹ کا نام دیا گیا ہے اور این ایچ ایس کی جانب سے اس کی آزمائش ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد مریضوں پر کی جارہی ہے، جسے 'ورلڈ فرسٹ ڈیل' کا نام دیا گیا ہے۔
گریل کی جانب سے کینسر کی جلد تشخیص پر کافی عرصے سے کام کیا جارہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو سرمایہ کاروں جیسے بل گیٹس اور ایمیزون کے بانی جیف بیزوز کی حمایت حاصل ہے۔
این ایچ ایس کو توقع ہے کہ یہ بلڈ ٹیسٹ ان اقسام کے کینسر کی تشخیص کے لیے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوگا جن کو ابتدا میں پکڑنا اس وقت بہت مشکل ہے۔
این ایچ ایس کے چیف ایگزیکیٹیو سائمن اسٹیونز نے بتایا 'جلد تشخیص، خاص طور پر ایسے کینسر جن کا علاج بہت مشکل ثابت ہوتا ہے، کو ابتدائی مرحلے میں پکڑنے سے متعدد جانیں بچائی جاسکیں گی'۔
اس پائلٹ پروگرام کا آغاز 2021 کے وسط میں ہوگا جس میں شامل ایک لاکھ 40 ہزار افراد کی عمر 50 سے 79 سال کے درمیان ہوگی، جن میں کینسر کی کوی علامات نہیں مگر 3 سال تک ان کا سالانہ بنیادوں پر بلڈ ٹیسٹ کیا جائے گا۔
باقی 25 ہزار افراد ایسے ہوں گے جن میں کینسر کی ممکنہ علامات موجود ہوں گی اور اس بلڈ ٹیسٹ سے تشخیص کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس ٹرائل کے نتائج 2023 تک جاری ہونے ہونے کا امکان ہے اور این ایچ ایس کے مطابق توقع ہے کہ 2025 تک 10 لاکھ افراد کا یہ ٹیسٹ کیا جائے گا۔
اس ٹیسٹ کو تیار کرنے والی کمپنی گریل کے مطابق ماڈلنگ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ اس ٹیسٹ سے کینسر کے ایسے کیسز کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ہوسکے گی، جن کی تشخیص اب ایڈوانس اسٹیج میں ہوتی ہے۔
اس سے قبل رواں سال جولائی میں طبی جریدے جرنل کمیونیکشن میں شائع ایک تحقیق میں چین میں تیار ہونے والے ایک بلڈ ٹیسٹ کی تیاری کے بارے میں بتایا گیا جو مختلف اقسام کے کینسر کی تشخیص علامات ابھرنے سے 4 سال قبل کرسکتا ہے۔
پان سیر نامی بلڈ ٹیسٹ سے ماہرین نے 95 فیصد افراد میں کینسر کی تشخیص کی جن میں علامات نہیں تھیں مگر کافی عرصے بعد بیماری کو دریافت کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 اقسام کے کینسر کو ڈی این اے میتھائی لیشن پر مبنی بلڈ ٹیسٹ کو پکڑنے میں روایتی تشخیص سے 4 سال قبل کامیابی حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ٹیسٹ کینسر کی پیشگوئی کی بجائے کی سرطان کی نشوونما کو پکڑتا ہے جو اس وقت علامات کا باعث نہیں بنتا یا دیگر طریقوں سے اس کی تشخیص ممکن نہیں ہوتی۔
اس طرح کے ٹیسٹوں کو لیکوئیڈ بائیوپسیز کا نام دیا گیا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔
کینسر کی جلد تشخیص کے لیے کسی بلڈ ٹیسٹ کی مدد لینے کا خیال نیا نہیں، تاہم نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ان کا کام اچھا رہا کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کینسر کی تشخیص کئی سال قبل بھی ممکن ہے۔
محققین کے مطابق اس نئے بلڈ ٹیسٹ میں مخصوص حصوں کے بلڈ پلازما میں ڈی این اے میں میتھائل گروپس کو دیکھا جاتا ہے جو عموماً ڈی این اے میں رسولی کا باعث بنتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس تیکنیک سے وہ بہت چھوٹے حصوں کا بھی معائنہ کرسکتے ہیں۔