اس وقت جب ٹک ٹاک امریکا میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اس چینی ایپ کے لیے موجودہ صورتحال پیدا کرنے میں مارک زکربرگ کا اہم کردار ہے۔
امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اکتوبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک نجی ملاقات کے دوران مارک زکربرگ نے ٹک ٹاک اور دیگر چینی انٹریٹ کمپنیوں سے امریکی اداروں کو درپیش خطرات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ فیس بک کے بانی نے ٹک ٹاک کے بارے میں ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن سے بھی بات کی تھی جن کی جانب سے گزشتہ سال اکتوبر میں ٹک ٹا کے حوالے سے نیشنل سیکیورٹی ریوو کے لیے خط لکھا گیا تھا۔
گزشتہ سال نومبر میں مارک زکربرگ سینیٹر جوش ہوالے سے بھی ملے تھے جو تمام فیڈرل ڈیوائسز میں اس ایپ پر پابندی کے خواہشمند ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹک ٹاک کے سی ای او کیون مایئر نے فیس بک کو ہدف بناتے ہوئے کہا تھا کہ کمپنی کو حب الوطنی کے روپ میں ایپ کو ہدف بنانے کی بجائے کھلے میدان میں اپنے حریف سے مقابلہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیس بک نے ایک اور کاپی کیٹ پراڈکٹ ریلز متعارف کرادی ہے کیونکہ اس کی ٹک ٹاک کی مکمل نقل لاسو بہت جلد ناکام ہوگئی تھی، مگر ہماری توجہ اور توانائیاں شفا اور کھلے مقابلے پر ہے، ناکہ اپنے حریف فیس بک کی طرح دھوکے سے حملے کرنے پر، جو حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر امریکا میں ہماری موجودگی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔
ٹک ٹاک اس وقت فیس بک کے چند بڑے حریفوں میں سے ایک ہے جس کے صرف امریکا میں ہی 10 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔
اس ایپ نے فیس بک کی ایپس سے نوجوانوں کو دور کردیا ہے اور اگر ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی عائد ہوتی ہے تو سب سے زیادہ فائدہ فیس بک کو ہی ہوگا، تو مارک زکربرگ کی جانب سے اس کے خلاف مہم ناقابل یقین نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں ماہ کے شروع میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارک زکربرگ نے ٹک ٹاک پر ممکنہ امریکی پابندی کے اثرات پر 'تشویش' کا اظہار کیا ہے۔
بز فیڈ کی رپورٹ کے مطابق مارک زکربرگ نے فیس بک کے ملازمین کو کہا کہ وہ ٹک ٹاک پر امریکا میں پابندی کے اثرات کا حوالے سے 'بہت زیادہ تشویش زدہ' ہیں۔
اس موقع پر مارک زکربرگ نے کہا 'میرے خیال میں یہ طویل المعیاد بنیادوں پر بہت بری نظیر ثابت ہوگی اور اسے بہت احتیاط سے سنبھالنے کی ضرورت ہے چاہے اس کا حل جو بھی ہو، میں بہت زیادہ تشیوش زدہ ہوں، کیونکہ اس معاملے کے دیگر ممالک میں طویل المعیاد اثرات مرتب ہوں گے'۔
دوسری جانب ممکنہ پابندی کو دیکھتے ہوئے پہلے دنیا بھر میں چینی ایپ کے فیچرز جیسے انسٹاگرام ریلز کو دنیا بھر میں متعارف کرایا گیا۔
اس کے بعد فیس بک کی مین ایپ پر بھی اس سے ملتے جلتے فیچر کی آزمائش شروع کردی۔
ٹیک کرنچ کی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے تصدیق کی ہے کہ وہ بھارت میں مرکزی بلیو ایپ (فیس بک ایپ) میں مختصر ویڈیو کی آزمائش کررہی ہے۔
بھارت فیس بک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور وہاں مختصر ویڈیوز کی آزمائش بھی قابل فہم ہے کیونکہ وہاں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔
موجودہ شکل میں ان شارٹ ویڈیوز کے لیے نیوزفیڈ میں ایک سیکشن مختص کیا جارہا ہے اور اوپر کریئٹ بٹن ہوگا جس پر کلک کرنے پر فیس بک کیمرا لانچ ہوگا اور صارفین ویڈیوز میں براؤز کرسکیں گے۔
فیس بک کے ترجمان نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم ہمیشہ نئے تخلیقی ٹولز کی آزمائش کرتے رہتے ہیں تاکہ جان سکیں کہ لوگ کس طرح اپنی ذات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، مختصر ویڈیوز انتہائی مقبول فارمیٹ ہے اور ہم لوگوں کو فیس بک پر مواد بنانے اور شیئر کرنے کے لیے نیا تجربہ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ 6 اگست کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو آئندہ 45 دن میں اپنے امریکی اثاثے کسی دوسری امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کی مہلت دی تھی۔
صدارتی حکم نامے میں کہا گیا تھا اگر چینی ایپلی کیشنز کو آئندہ 45 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت نہیں کیا گیا تو ان پر امریکا میں پابندی لگادی جائے گی۔
ٹک ٹاک کو 15 ستمبر 2020 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم بعد ازاں 16 اگست کو ٹرمپ انتظامیہ نے مذکورہ مدت میں مزید 45 دن کا اضافہ کردیا تھا۔
16 اگست کو امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے گئے نئے حکم نامے میں قومی سلامتی کے تحفظات کو جواز بناتے ہوئے بائیٹ ڈانس کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ امریکا میں اپنے کاروبار کو اگلے 90 دن میں کسی امریکی کمپنی کو فروخت کردے۔
امریکی صدر کی جانب سے ٹک ٹاک کے خلاف بندش کے ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جانے کے بعد مائیکرو سافٹ، ایپل، ٹوئٹر اور اوریکل نامی امریکی کمپنیوں نے ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے خریدنے میں دلچسپی بھی ظاہر کی تھی۔
جس کے بعد 24 اگست کو ٹک ٹاک کی جانب سے مجوزہ پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔
ٹک ٹاک کے مطابق اس مقدمے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 6 اگست کے ایگزیکٹیو آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 'بغیر کسی شواہد کے اتنا سخت فیصلہ کیا گیا اور وہ بھی مناسب طریقہ کار کے بغیر'۔
کمپنی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیئے سے اتفاق نہیں کرتی اور ٹرمپ انتظامیہ نے سوشل میڈیا ایپ کی جانب سے خدشات دور کرنے کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات کو نظرانداز کردیا۔
بیان کے مطابق کمپنی مقدمے بازی کی بجائے بات چیت کو ترجیح دینا چاہتی ہے، مگر اسے لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں۔