پاکستان

حکومت الجھن میں نہیں، 13 مارچ سے آج تک میرے کسی بیان میں تضاد نہیں، عمران خان

دہرے مسائل درپیش ہیں ایک طرف لوگوں کو کورونا سے دوسری طرف بھوک سے بچانا ہے، وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں خطاب

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے متعلق فیصلوں میں حکومت میں کوئی کنفیوژن (الجھن) نہیں، 13 مارچ سے آج تک میرے کسی بیان میں تضاد نہیں ہے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 31 جنوری سے ٹڈی دل کے حملوں کو ایمرجنسی ڈیکلیئر کیا تھا اور نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو ٹڈی دل پر قابو پانے سے متعلق اخراجات کے لیے مکمل اختیارات دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے برطانیہ سے آنے والی سپلائیز رک گئیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ کئی چیزیں ہماری ہاتھ میں نہیں افریقہ سے غیر معمولی جھنڈ آرہے ہیں جبکہ ایران اور بھارت سے بھی ٹڈی دل کا خطرہ ہے، ہم اس پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں۔

'ملک میں 26 کیسز سامنے آنے پر لاک ڈاؤن کیا گیا'

کورونا وائرس سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کے 26 کیسز سامنے آنے پر لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس وقت اس سے کوئی اموات نہیں ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ چین کے شہر ووہان اور یورپ کے منظرنامے کو دیکھتے ہوئے صوبوں نے لاک ڈاؤن شروع کیا اور اپنے اقدامات اٹھائے اس وقت کوئی مرکزی منصوبہ بندی نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اور میری ٹیم کو پہلے روز سے خدشہ تھا کہ اگر ہم ووہان اور مغربی ممالک کے نقش قدم پر چلے تو مشکل ہوجائے گی، پاکستان اور بھارت کی صورتحال ان سے بہت مختلف تھی۔

انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں سماجی فاصلے کی مثال دی جاتی ہے وہاں تو ویسے ہی سماجی فاصلہ ہے، ان کی آبادی پھیلی ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں گنجان آبادی، کچی بستیاں، غریب افراد ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے پہلے روز ہی اس پر بات کی تھی کہ ہمیں دہرے مسائل درپیش ہیں ایک طرف ہمیں لوگوں کو کورونا سے جبکہ دوسری طرف انہیں بھوک سے بچانا ہے۔

'جو 13مارچ کو کہا تھا آج بھی وہی کہہ رہا ہوں'

عمران خان نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ مزید سخت لاک ڈاؤن کرنا چاہیے تھا جس پر شروع میں ہم نے بہت تنقید بھی برداشت کی، مجھ پر بہت دباؤ تھا اور کابینہ میں موجود افراد سمجھتے تھے کہ ہم نے ویسا لاک ڈاؤن نہیں کیا جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا لاک ڈاؤن بھارت نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اپنا ڈیٹا آچکا ہے پہلے ہر ملک اپنے طریقے سے اس وبا کو دیکھ رہا تھا، کسی کو اندازہ نہیں تھا، برطانیہ نے پہلے لاک ڈاؤن نہیں کیا جب کیسز بڑھے تو کیا، برازیل نے لاک ڈاؤن نہیں کیا اور آج وہاں 50 ہزار لوگ مرچکے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ بار بار کہا جارہا ہے کہ کنفیوژن تھی، میں کہنا چاہتا ہوں کہ پہلے دن اگر کسی ملک کی حکومت میں کنفیوژن نہیں تھی تو وہ ہماری حکومت تھی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن کیا تھا، 13 مارچ سے لے کر آج تک میرا کوئی بیان بتادیں جس میں تضاد ہو، میں چیلنج کرتا ہوں، جو میں 13مارچ کو کہہ رہا تھا آج بھی وہی کہہ رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں : کورونا فنڈ میں عطیہ کیے گئے ایک روپے کو 5 گنا کرکے بیروزگار افراد کو دیں گے، وزیراعظم

عمران خان نے کہا کہ میں نے 2 چیزوں پر بات کی کہ اگر ملک میں سنگاپور جتنی آبادی ہے، 50 ہزار پر کیپٹا انکم ہے، قدرتی سماجی فاصلہ موجود ہے تو وائرس کو روکنے کے لیے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ کرفیو لگادیا جائے لیکن یہ بھی کہا تھا کہ جو ہمارے ملک کے حالات ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو غریب طبقے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ساری تقریریں آپ کے سامنے ہیں، اس حوالے سے کبھی کنفیوژن نہیں آئی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسد عمر کی قیادت میں تشکیل کردہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی ٹیم کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ یومیہ بنیادوں پر ہونے والے اجلاسوں میں دنیا میں وائرس کے رجحانات کو دیکھا گیا، ماہرین کی رائے لی جاتی، دیگر صوبوں کے ساتھ تعاون قائم کیا جس کے باعث ہمارے فیصلوں میں تضاد نہیں آیا اور ہم مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ آج نیویارک ٹائمز کی رپورٹ آئی ہے جس کے مطابق بھارت میں مکمل لاک ڈاؤن سے تباہی ہوئی اور 34 فیصد لوگ شدید غربت کا شکار ہوگئے، غریب کچلا گیا کیونکہ وہاں لاک ڈاؤن لگایا گیا اور سوچا نہیں کہ غریب آدمی کہاں جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے کیونکہ ٹرانسپورٹ بند کردی تھی، لوگ سڑکوں پر مرگئے۔

عمران خان نے کہا کہ اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں جس طرح کا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا کہا جارہا تھا اس سے کیسے اثرات مرتب ہوئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ پاکستان سے زیادہ ہے، وہاں بھی ہسپتالوں میں مشکل صورتحال ہے ممبئی اور دہلی میں لوگ ہسپتالوں کے باہر کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہسپتال بھرے ہوئے ہیں۔

انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ حکومت میں کوئی کنفیوژن نہیں تھی۔

'اگر احتیاط نہیں کی گئی تو ہسپتالوں پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا'

عمران خان نے کہا کہ میں عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے سامنے بہت مشکل مرحلہ موجود ہے سب سے پہلے ہم نے تعمیراتی صنعت کھولی تھی اور آج ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ لاک ڈاؤن سے کورونا پر اتنا کنٹرول نہیں ہوتا بلکہ نقصان زیادہ ہوتا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کے علاوہ امریکا کی مثال دیکھ لیں جو دنیا کا سب سے امیر ملک ہے ان کی 23 ریاستوں میں کورونا وائرس بھی بڑھ رہا ہے اور وہ لاک ڈاؤن بھی کھول رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے سب سے امیر ملک کو بھی یہ احساس ہورہا ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور معیشت کو بھی جب بند کردیا جائے تو وہ بھی اس کے اثرات برداشت نہیں کرسکتی، ہم نے سب سے پہلے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کی کہ 22 کروڑ لوگوں کو بند نہ کریں بلکہ ہاٹ اسپاٹس کو دیکھا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پر ابھی تک اللہ کا بہت کرم ہے لیکن اگلا مرحلہ بہت مشکل ہے ، ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ عوام کو سمجھ آئے کہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے، ہمارے ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور اگر احتیاط نہیں کی گئی تو یہ دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا ملک گیر لاک ڈاؤن میں 2 ہفتے توسیع کا اعلان

عمران خان نے کہا کہ ہم سب کے اوپر لازم ہے کہ اپنے طور پر لوگوں کو احساس دلائیں کہ بوڑھے، بیمار، بلڈپریشر (فشار خون)، ذیابیطس کا شکار افراد کو بچانا کتنا ضروری ہے یہ اسمارٹ لاک ڈاؤن اسی لیے نافذ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اب تک 4 ہزار کے قریب افراد کورونا سے انتقال کرچکے ہیں ہمیں اس پر افسوس ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگلا مرحلہ اس لیے اہم ہے کیونکہ ہمارے پاس 2 راستے ہیں اگر ہم احتیاط کرگئے تو ہماری سہولیات اتنی ہیں کہ ہمارا نظام صحت برداشت کرجائے گا اگر ہم نے یہ مہینہ احتیاط سے گزار لیا تو اس کے برے اثرات سے بچ جائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ این سی او سی میں روزانہ کی بنیادوں پر جائزہ لیا جاتا ہے کہ کن علاقوں میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور اب ٹائیگر فورس کے رضاکار اس پر عمل کروائیں گے۔

'100 سالوں میں سب سے بڑا معاشی بحران آیا ہے'

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایک اور بات ہوئی کہ ہم کورونا وائرس کے پیچھے چھپ رہے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ( 25 جون) بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں کہ دنیا کی معیشت کو کورونا وائرس سے 120 کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، انفرادی معیشتوں میں برطانیہ کی معیشت 20 فیصد گرنے کے بعد منفی شرح نمو میں چلی گئی ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ 100سالوں میں سب سے بڑا معاشی بحران آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کو آپ کی ضرورت ہے،سب پیسے بھیجیں، وزیراعظم کی بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ برطانیہ میں معاشی بحران آیا تو وہاں 40 ہزار اموات ہوئی ہیں لیکن اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، جتنی دیر تک لاک ڈاؤن نافذ ہوا ہے تو فرق نہیں پڑتا کہ کتنی اموات ہوئیں اصل نکتہ یہ ہے کہ معیشت پر کیا فرق پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہوئی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ مزید کتنا نقصان ہوگا، آج کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کو ہونے والے اس خسارے پر قابو پانے میں کتنا وقت لگے گا۔

عمران خان نے کہا کہ آج کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ کتنی معیشتیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں جنہیں بحال نہیں کیا جاسکتا، پوری دنیا کے خدمات، سیاحت اور ایئرلائن کے شعبے بحران کا شکار ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں وہ کب بحال ہوں گے لہذا یہ کہنا کہ ہم کورونا کے پیچھے چھپ رہے ہیں بہت عجیب لگا۔

'ملک کا وزیراعظم باپ کی طرح ہوتا ہے قوم اس کے بچے ہوتے ہیں'

وزیراعظم نے کہا کہ معیشت پر بہت بات چیت ہوئی کہ ہماری معیشت کا بہت برا حال تھا ہم پہلے ہی ناکام ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئی تو کیسی معیشت ملی تھی، مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ ہمیں سوئٹزرلینڈ کی معیشت ملی تھی ہم نے اسی میں کارکردگی دکھانی تھی جو معیشت ہمیں ملی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ ہمیں20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملا تھا جو اس لیے ہوا کہ برآمدات 20 ارب ڈالر پر رک گئی لیکن درآمدات 60ارب ڈالر پر پہنچ گئی تھیں، جس سے ڈالر کی قیمت زیادہ اور روپے کی قدر کم ہوگئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا تھا، جب روپے کی قدر میں کمی ہوئی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور ہر چیز پر اثرات پڑے یہ مشکل وقت تو آنا تھا۔

مزید پڑھیں: ترقی پذیر ممالک قرضوں میں چھوٹ کیلئے قدم اٹھائیں، وزیراعظم کی عالمی برادری سے اپیل

عمران خان نے کہا کہ 2013 میں 16 ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا اور ہماری باری آنے تک 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا، ہم نے پہلے سال میں جو ٹیکس ادا کیا اس کا آدھا حصہ قرضوں کی اقساط کی ادائیگیوں میں چلا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہمیں حکومت ملی تو زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب سے کم ہو کر 10ارب ڈالر تک آگئے تھے اور ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم دنیا میں گئے، اپنے دوستوں کے پاس پیسے مانگنے گئے کہ ہماری مدد کریں، میں اس ملک کا سب سے بڑا فنڈ ریزر ہوں اور 30 سال سے پیسے اکٹھے کررہا ہوں مجھے اس میں کبھی شرم نہیں آئی جب میں پاکستانیوں سے اپنے ملک کے لیے پیسے اکٹھا کرتا ہوں لیکن جب دوسرے لوگوں سے اپنے ملک کے لیے پیسے مانگے تو مجھے شرم آئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ آپ جو مرضی کرلیں کوئی کتنا مرضی خیرخواہ یا دوست ہو اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں جو چیز آتی ہے وہ میرے لیے نہیں ہمارے ملک کے لیے شرم کی بات ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ڈیفالٹ کی طرف جارہے تھے ہم 3 ماہ تک مختلف ممالک سے پیسے مانگ رہے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ ملک کا وزیراعظم باپ کی طرح ہوتا ہے قوم اس کے بچے ہوتے ہیں، کیا اگر میرے بچے بھوکے ہیں میں ان کا صحیح سے علاج نہیں کرواسکتا تو کیا میں ایک بادشاہ کی طرح رہوں گا اور میرے بچے بھوکے رہیں گے؟ کیا میں اپنے خرچے کم نہیں کروں گا؟

'اسٹیٹ بینک کا 6 ہزار ارب روپے قرضہ ختم کردیا'

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک سے 6 ہزار ارب روپے قرض لیا گیا تھا ہم نے اس کو ختم کردیا اور اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 70 فیصد قرضے قلیل المدتی تھے ہم نے انہیں تبدیل کرتے ہوئے 76 فیصد قرضوں کو طویل المدتی کردیا کیونکہ طویل المدتی قرضے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ بجلی مہنگی پیدا ہورہی ہے اور سستی فروخت ہورہی ہے جس کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھ گیا تھا، ایل این جی کا 15 سال کا کنٹریکٹ کیا گیا تھا، ان لوگوں سے جواب مانگا جائیں جو اس حالت میں معیشت کو چھوڑ کر گئے تھے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے 3 ارب ہوگیا، حکومت کے اخراجات میں کمی سے پرائمری ڈیفیسیٹ سرپلس کیا گیا، پاک فوج نے اپنے اخراجات میں کمی جبکہ بھارت نے اپنے اخراجات میں اضافہ کیا تھا، کورونا کے اس برے وقت میں احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے رکھے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کورونا وائرس سے متعلق قرضوں کے بحران کو روکنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولی میں 17فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو میں 33 فیصد اضافہ ہوا، براہ راست غیر ملکی برآمدات دگنی ہوگئی، زرمبادلہ میں 3 فیصد اضافہ ہوا، کورونا وائرس سے قبل برآمدات 10 سال میں سب سے زیادہ تھیں، ہماری ریٹنگ بی-3 میں چلی گئی اور اب تک ہم پچھلی حکومتوں کے 5 ہزار ارب روپے کے قرضے واپس کرچکے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اثرات ہوٹلز اور سیاحت کی صنعت پر مرتب ہوئے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ایس او پیز کے ساتھ سیاحت کو کھولیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ بجٹ میں تعمیرات کی صنعت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں تاکہ وہ لوگ جو گھر خرید نہیں سکتے قرض لے کر خرید سکیں، کھاد کی قیمتوں پر رعایت دی ہے اور زراعت کے لیے 50ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ زراعت اور تعمیراتی صنعت کو ترجیح دینے پر مرکوز ہے اور زراعت کے لیے چین کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔

عمران خان نے کہا کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی، ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی نہیں کی تاکہ اس سے ہماری معیشت چلے اور لوگوں کو روزگار ملے، صنعت کے لیے ہزاروں خام مال پر سے ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے تاکہ صنعتیں بحال ہوں۔

انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کے ذریعے شفاف طریقے سے رقم تقسیم کی گئی اور اسے ایک کروڑ 60 لاکھ خاندانوں تک توسیع دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ریاست چھوٹے قرض داروں کا تحفظ یقینی بنائے، عدالت

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق فاٹا کے علاقوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے اور بلوچستان کو پی ایس ڈی پی میں ریکارڈ رقم دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت، پاکستان میں عدم استحکام کی پوری کوشش کررہا ہے، آج بھارت کو انتہاپسند حکومت کا سامنا ہے جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستان کو گرایا جائے اور اس حوالے سے ان کے تھنک ٹیکس سرعام بات کرتے ہیں لہذا سابق فاٹا کے علاقوں کی ترقی کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وزیر تعلیم شفقت محمود کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، شفقت محمود نے تعلیم کے شعبے میں 2 اہم کام کیے پاکستان میں انگلش میڈیم، اردو میڈیم اور دینی مدارس الگ نظام چل رہا ہے تو مارچ 2021 میں پورے ملک میں یکساں نصاب ناٖفذ ہوجائے گا اور دوسری چیز یہ کہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کیا جارہا ہے۔

'پاکستانی تاریخ کے 2 واقعات جنہوں نے شرمندہ کیا'

انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اور پاکستان کو جو ذلت اٹھانی پڑی تو میں نہیں سمجھتا کہ جو ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دے تو اسے برا بھلا کہا جائے کہ افغانستان میں امریکا کو کامیابی نہیں ملی تو اس کا ذمہ دار بھی پاکستان کو قرار دیا گیا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کی تاریخ میں 2 واقعات ہوئے جس پر ہم بہت شرمندہ ہوئے، ایک واقعہ وہ جب امریکا نے ایبٹ آباد میں آکر اسامہ بن لادن کو مارا، شہید کردیا'۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے ساری دنیا نے ہمیں برا بھلا کہا یعنی ہمارا اتحادی ہمارے ہی ملک میں آکر کسی کو مار رہا ہے اور ہمیں نہیں بتارہا اور ان کی جنگ کے لیے 70 ہزار پاکستانی بھی مرگئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 2010 کی بات ہے دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی تھے ان پر کیا گزری ہوگی؟

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان کے ساتھ معاشی سرگرمیاں بڑھانے کا عندیہ

عمران خان نے کہا کہ اس کے بعد پاکستان میں ڈرون حملے ہوئے اور ہماری حکومت نے اس کی مذمت کی دوسری جانب امریکی سینیٹر کارل لیون نے سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجی تعلقات کی سماعت میں ایڈمرل ملن سے پوچھا کہ جب پاکستانی حکومت مذمت کرتی ہے تو ڈرون حملے کیوں کیے جارہے ہیں جس پر ایڈمرل ملن نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کی حکومت کی اجازت سے حملے کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایڈمرل ملن نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت اپنی قوم کے ساتھ جھوٹ کیوں بولتی ہے۔

وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 10 سال ذلت اٹھائی کہ ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہم ان کے اتحادی ہیں یا دشمن۔

عمران خان نے کہا کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہماری پالیسی تھی کہ امریکا کی جنگ میں نہیں بلکہ امن مذاکرات میں شرکت کریں گے اورسخت موقف رکھنےوالے امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے پاکستان آکر پی ٹی آئی کے موقف کی توثیق کی کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں اور آج ہم کسی کی جنگ نہیں لڑرہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا سے تعلقات اب اعتماد کی بنیاد پر ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ جب بھی ملتا ہے عزت سے ملتے ہیں بلکہ درخواست کرتے ہیں کہ افغانستان میں ہماری مدد کریں، انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی حکومت، خارجہ پالیسی اور وزیر خارجہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن مذاکرات میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

'کچھ لوگ ایران اور سعودی عرب میں تنازع چاہتے ہیں'

خارجہ پالیسی سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے زبردست تعلقات رہے ہیں اور دوسری طرف ایران ہمارا ہمسایہ ہے، ہم نے پوری کوشش کی اور کررہے ہیں کہ ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں بہتری ہو کیونکہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ان دونوں ممالک میں تنازع پیدا ہو۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیبیا سے لے کر ہر جگہ تباہی پھیلی ہوئی ہے، شام، صومالیہ اور افغانستان کو دیکھ لیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازع پیدا ہوجائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان، سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث بن گئے

وزیراعظم نے کہا کہ میں بہت فخر سے کہتا ہوں کہ ایران اور سعودی عرب نے تعلقات میں بہتری کی کوشش کے لیے درخواست کی کچھ مسائل بھی ہیں لیکن ہم کوشش کررہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم وہ ملک بنیں گے جو دنیا کے ممالک کو اکٹھا کرے گا اور امت مسلمہ کو یکجا کرنے کی کوشش کریں گے۔

'مسئلہ کشمیر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا ہے'

بھارت سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پہلے تو میں نریندر مودی سے بات کی اور کوشش کی کہ بات چیت ست کشمیر کا مسئلہ ہے تو وہ حل ہوجائے تو دونوں ممالک کا بہت فائدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر غربت کم کرنی ہے تو آپس میں تجارت کی جائے کیونکہ جتنی تجارت بڑھتی ہے معیار زندگی اتنا اوپر جاتا ہے لیک بھارت میں تکبر تھا جس کے بعد پلوامہ ہوگیا پھر ان کے انتخابات آگئے جس میں انہوں نے ہندو انتہا پسند موقف اپنایا لہذا ہم نے انتظار کیا لیکن الیکشنز کے بعد ان کا تکبر کسی اور سمت چلا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ پھر جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے غیرقانونی الحاق کیا اور آرٹیکل 370 ختم کیا میں نے قومی اسمبلی می تقریر کی تھی اور اپوزیشن نے تنقید کی تھی کہ میں نے تاریخی باتیں کیں، میں نے اس دن کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ مفادات کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہمارا مقابلہ ایک ہندتوا، فاشسٹ اور نازیوں سے متاثر نظریے کا مقابلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے دراندازی کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو مسترد کر دیا

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیں ایسا ملک نہیں سمجھتا جس سے انہیں اچھے تعلقات رکھنے چاہیئیں، وہ ہمیں ویسے دبانا چاہتے ہیں جیسے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی سوچ کچھ اور ہے اس کے بعد میں اقوام متحدہ گیا میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اور دیگر رہنماؤں کو سمجھایا کہ بھارت میں نریندر مودی کی صورت میں عذاب آگیا ہے، گجرات میں ایک وزیراعلیٰ نے 3 روز کے لیے اجازت دی تھی کہ مسلمانوں کو جیسے قتل کیا گیا اور ایک لاکھ لوگوں نے ہجرت کی تبھی سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ مودی نارمل آدمی نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کو سمجھایا کہ معلوم کریں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ( آر ایس ایس) ہٹلر سے کیسے متاثر تھے، انہوں نے خود تحقیقات کیں۔

عمران خان نے کہا کہ 1965کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2 مرتبہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ اٹھایا گیا اور یہ ہماری بہت بڑی کامیابی تھی اور آج مغربی میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ بھارت نے کیسے تباہی مچائی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اقوام متحدہ کے دورے سے واپس آئے تو ہمارا کام تھا کہ اس مسئلے کو اور آگے لے کر جاتے تو یہاں ایک ڈراما شروع ہوگیا کہ حکومت جارہی ہے جس کے باعث جب کشمیر کا معاملہ عروج پر جانا چاہیے تھا بدقسمتی سے نہیں جاسکا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں مسئلہ کشمیر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا ہے اور 8 لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کو دبانے کی کوشش غیر مستحکم ہے اور کورونا وائرس کے بعد یہ تحریک رک نہیں سکتی۔

وزیراعظم نے اپنی تقریر کے اختتام میں کہا کہ اس ملک کا ایک وژن ہے ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ کے اصولوں پر کھڑا کرنا ہے، جب سے کوئی حادثہ ہو یا کورونا وائرس آجائے تو کہا جاتا ہے کہ کدھر ہے مدینہ کی ریاست، میں کہتا ہوں جو قوم ریاست مدینہ کے اصولوں پرچلے گی کامیاب ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے بھارتی آرمی چیف کے 'غیرذمہ دارانہ اور جھوٹے' الزامات مسترد کردیے

انہوں نے کہا کہ ہم چین کے تجربے سے جو سیکھ سکتے ہیں وہ کسی اور سے نہیں سیکھ سکتے، چین نے30 سال میں 70 کروڑ افرادکو غربت سےنکالا ،ہم احساس پروگرام کے ذریعے غریب طبقےکواٹھائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ جب کسی پر کیس ہوتاہے تو کہتے ہیں سیاسی انتقام ہے، کہا جاتا ہے کہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے کرپشن کی وجہ سے عوام پر لگنے والا پیسہ لوگوں کی جیب میں جاتا ہے۔

شوگر انکوائری سے متعلق انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمت بڑھی تو ہم نے انکوائری کروائی اور معلوم ہوا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن فیصلہ کرتی ہے یعنی جو فائدہ اٹھارہے ہیں وہی فیصلہ کررہے ہیں فرانزک آڈٹ میں جو باتیں سامنے آئی اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں نہ بدلہ لینا چاہتا ہوں لیکن جب تک اس ملک میں قانون کی حکمرانی اور قیادت کا احتساب نہیں ہوگا تو غریبوں کا ایک سمندر ہوگا اور تھوڑے سے امیر لوگ ہوں گے۔

ٹڈی دل کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کیلئے وسائل میں کمی نہیں آئے گی، وزیر خارجہ

وزیراعظم سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں سینیٹرز کی جانب سے اٹھائے گئے نکات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے چیک ڈیمز خصوصاً بلوچستان کے علاقوں کا ذکر کیا، بلوچستان میں پانی کی قلت ہے اور ہمیں وہاں اور سندھ میں پانی کی قلت کا احساس ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومتوں نے مسلسل پانی کو وہ اہمیت نہیں دی جو ہمیں دینی چاہیے تھی اور پاکستان جہاں ایک زمانے میں پانی وافر مقدار میں ہوتا تھا ، آج وہ پانی کی کمی کا شکار ممالک کی فہرست میں آ چکا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے پانی پر توجہ دی ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آج زرعی پیداوار میں سب سے اہم عنصر پانی ہے اور اس کے لیے اس بجٹ میں خطیر رقم پانی کے وسائل اور ڈیمز کے لیے رکھی جا رہی ہے اور ہم اس سلسلے میں آپ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بروقت ایکشن نہ لیا تو ٹڈی دل کا بھرپور حملہ ہوسکتا ہے، ایف اے او کا انتباہ

انہوں نے ٹڈی دل کے حملے کے معاملے پر بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال کے بعد ٹڈی دل نے اس شدت سے ناصرف ہم پر بلکہ پورے خطے پر وار کیا ہے اور اس میں یہ ایران سمیت پورے جنوبی ایشیا کو متاثر کر سکتی ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں بھی اس پر بہت تشویش ہے اور صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان اس کی گہری زد میں آ سکتے ہیں اور ہم پاک فوج کے شکر گزار ہیں جنہوں نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے چیلنج کو سمجھتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹڈی دل کے خلاف منصوبہ سازی کر لی ہے اور میں ایوان کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ٹڈی دل کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے انشااللہ وسائل کی کمی نہیں آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری معیشت کا ایک بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے منسلک ہے اور ان کی پیداوار ہمیں عزیز ہے، زراعت اس حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ہے اور وزیر اعظم کی ترجیحی فہرست میں جو تین شعبے ہیں ان میں سے ایک زراعت ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ٹڈی دل پر قابو پانے کیلئے ایف اے او کی کرائسز اپیل کی تیاری

ان کا کہنا تھا کہ زراعت پر سبسڈی کی بات کی جائے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ اس کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے اور اس کو شفاف طریقے سے ہم کیسے بانٹیں، جیسے احساس پروگرام شفاف طریقے سے بانٹا گیا تو کوئی انگلی نہیں اٹھا رہا، اسی لیے ہم چاہتے ہیں فرٹیلائزر پر سبسڈی آپ سے مشاورت کے ساتھ شفاف طریقے سے بانٹنا چاہتے ہیں۔

وزیر خارجہ کہنا تھا کہ کھل پر جنرل سیلز ٹیکس کا معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بھی زیر بحث آ چکا ہے اور وہ بھی اسے غیرضروری قرار دے چکی ہے اور میں مشیر خزانہ سے اس معاملے پر غور کی درخواست کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس جنرل سیلز ٹیکس کی آڑ میں کارخانے دار طبقہ کاشت کار سے پھٹی کی قیمت میں کٹوتی کردیتا ہے، پھر چاہے وہ اسے آگے منتقل کرے یا نہ کرے۔

حکومت کے پاس 4 ماہ بعد بھی وبا سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں، بلاول

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کووڈ 19 کے خلاف حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت کے پاس پہلے، دوسرے، تیسرے دن سمیت آج 4 مہینے بعد بھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے'۔

قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا یہ مطلب نہیں تھا کہ عوام خود خیال رکھے، اس وقت کیا قدم اٹھانا تھا، اس وقت دوران کورونا ٹیسٹنگ صلاحیت میں اتنا اضافہ کرلینا چاہیے تھا کہ ہر کیسز کی نشاندہی کی جا سکتی اور اسے آئسولیٹ کرکے علاج کیا جا سکتا۔

انہوں نے پہلے دو ہفتے میں جنگی بنیاد پر کوئی اقدام نہیں لیا، صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ ٹیسٹنگ صلاحیت ہے اور سب سے زیادہ صحتیاب ہونے والے کی شرح بھی سندھ میں ہے۔ یہ بھی پڑھیں:

ان کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے وبا پھیل رہی ہے کسی صوبے کا صحت ڈھانچہ مریضوں کی تعداد کو برداشت نہیں کرسکے گا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کا شور کرتے رہے لیکن انہوں نے ایسا کیا نہیں، پہلے دن سے نہیں کررہے۔

ڈبلیو ایچ او نے دوہفتے قبل تمام صوبوں کو مراسلہ لکھا کہ متبادل ہفتوں میں لاک ڈاؤن کریں لیکن حکومت نے مسترد کردیا۔

کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کی زندگی مشکل بنادی ہے، اسامہ قادری

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن اسمبلی اسامہ قادری نے کہا کہ کے الیکٹرک اور ہیسکو نے طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کی عوام کی زندگی مشکل بنادی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن لگارہی ہے اور عوام سے اپنے گھروں میں رہنے کا کہہ رہی ہے اور دوسری طرف کے الیکٹرک اور حیسکو عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج حیدر آباد میں 40 ڈگری درجہ حرارت ہے اور عوام سڑکوں پر نکل کر ہیسکو کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔

اسامہ قادری کا کہنا تھا کہ ہم جب بھی وزیر توانائی عمر ایوب سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک ایک نجی ادارہ ہے اور اس کے معاملے میں بے اختیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک نے کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا ہے اور کہتی ہے کہ ہمیں فرنس آئل نہیں مل رہا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’حکومت کہاں ہے، کراچی اور حیدرآباد کی 3 کروڑ عوام کہاں جائے گی اگر حکومت ایک کمپنی کو کنٹرول نہیں کرسکتی تو؟‘

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ریلیف پہنچانے کے بجائے کے الیکٹرک صارفین سے اضافی وصولیاں کر رہی ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی کراچی کی عوام کو ریلیف پہنچانے میں ناکامی کی وجہ سے ہم ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کر رہے ہیں'۔

ایم کیو ایم کے اراکین کے واک آؤٹ کے بعد اسپیکر اسمبلی نے معاملے متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا۔

معاشی منظر نامے سے قومی سلامتی کے مسائل لاحق ہوچکے ہیں، احسن اقبال

قبل ازیں احسن اقبال نے کہا تھا کہ کسی بھی ریاست اور کسی بھی حکومت کی کامیابی کا دارومدار مضبوط سیاسی ڈھانچے، بہترین معیشت اور مضبوط دفاع پر ہے، اکیلے دفاع کے پہیئے پر کسی ریاست کے وجود کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔

قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر دفاع کا پہیہ ٹریکٹر کی طرح بڑا جبکہ تعلیم، صحت، انسانی تحفظ کا پہیہ چنگچی کی طرح چھوٹا رہے گا تو ایسا عدم توازن پیدا ہوگا جسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معیشت کی اس قدر زبوں حالی کا شکار ہوچکی ہے کہ خطے کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں معاشی منظر نامے سے قومی سلامتی کے مسائل لاحق ہوچکے ہیں۔

لہٰذا اس معیشت کو دوبارہ نمو میں لانے اور اقتصادی انجن چلانے کے لیے فوری طور پر قومی لائحہ عمل کی ضرورت ہے کیوں کہ کوئی فرد واحد کا ادارہ اس معیشت کو دوبارہ ڈگر پر نہیں لاسکتا اس کے لیے قومی یکجہتی اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'معیشت کی بربادی' پر احسن اقبال حکومت پر برس پڑے

اختلاف کے ساتھ مسابقت کرتے ہوئے اشتراک کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم انتشار کرتے جائیں گے اور تقسیم ہوتے جائیں گے تو ہمیں دشمن کی تباہی کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ ہم خود اپنے ہاتھوں تباہی کا سامان پیدا کررہے ہیں۔

حکومت کو اقتدار میں آئے 2 سال ہوگئے اور اندازہ ہورہا ہے کہاں جارہی ہے، آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت ساڑھے 5 فیصد کی رفتار سے ترقی کررہی تھی اور ہمارے 5 سالہ دورِ اقتدار میں ہر سال مجموعی ملکی پیداوار گزشتہ سال سے بڑھی، ترقی کا ایک تسلسل تھا جو ہم نے قائم کیا لیکن گزشتہ 2 سال سے یہ جی ڈی پی کریش کررہی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں اس معیشت کو سنبھالنے اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں 5 سال کا عرصہ لگا، آپ نے صرف 6 ماہ میں اسے فریکچر کردیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی اراکین کہتے ہیں کہ ہمیں 2 سال ہوئے ہیں حکومت میں آئے ہوئے ہم کیا کریں لیکن میں ان کو بتادوں کہ تعمیر اور تخریب میں فرق ہوتا ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ یہ (پی ٹی آئی والے) کہتے تھے کہ یہ معیشت دیوالیہ تھی لیکن جنوری 2018 میں عالمی بینک نے جنوبی ایشیا کی معیشت کی ترقی کے حوالے سے جو پیش گوئی کی اس میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 20-2019 میں 6 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

مزید پڑھیں: احسن اقبال کو چُپ رہنے اور پیچھے ہٹنے کے پیغامات دیے جاتے رہے، مریم اورنگزیب

احسن اقبال نے سوال کیا کہ کیا عالمی بینک کو نہیں معلوم تھا کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارا کتنا ہے؟ کیا عالمی بینک ہمارے قرضوں سے ناواقف تھے وہ 6 فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کس طرح کررہے تھے کیوں کہ اس ترقی کے پس پردہ ایک جذبہ تھا۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ معیشت اعداد و شمار سے نہیں چلتی اس کے لیے جذبہ اور اعتماد چاہیے ہوتا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایسا تحفہ تھا جو صدیوں میں کسی قوم کو ملتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کا مارکیٹ سینٹمنٹ مثبت ہوا جس نے پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا۔

احسن اقبال نے کہا کہ میں وزیر منصوبہ بندی تھا پوری دنیا کے سفیر آکر کہتے تھے کہ ہم کس طرح سی پیک میں شامل ہوسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان ایک مقناطیس بن گیا تھا اور دنیا کے سرمایہ کار قرض دینے نہیں سرمایہ کاری کے لیے آنا چاہتا تھا۔

لیکن اس جذبے کو اس طرح توڑا کہ ہمارے وزیراعطم نے دنیا بھر کی انویسمنٹ کانفرنسز میں کہا کہ ہم دیوالیہ ہوگئے، ہماری معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تو بتائیں کہ جب گھر کا سربراہ کہے کہ ہم دیوالیہ ہوگئے اس کے ساتھ کون کام کرے گا۔

احسن اقبال نے کہا کہ (سرمایہ کاری کے) اس جذبے کو صرف مسلم لیگ (ن) کی دشمنی میں تباہ کردیا گیا صرف مسلم لیگ (ن) کی کامیابیوں کو نیچے دکھانے کے لیے خاک میں ملایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 21-2020: سبسڈی بل میں 40 فیصد تک کٹوتی

انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تو لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں ان کا دعویٰ تھا کہ عمران خان آئے گا 3 ہزار ارب سالانہ کی چوری ختم کروائے گا تو اب 2 سال ہوگئے وہ 6 ہزار ارب کس کہ جیب میں جارہا ہے۔

بجٹ پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ایک بجٹ میں سب سے پہلا معیار اس کا حجم ہوتا ہے اور موجودہ بجٹ میں یہ بات باعثِ شرم ہے کہ پہلی سطر میں لکھا ہے کہ بجٹ کا حجم گزشتہ برس کے تخمینے سے 11 فیصد کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی بجٹ کا ٹوٹل آؤٹ لے گزشتہ برس سے سکڑا ہے جبکہ آبادی 2.4 فیصد سے بڑھ رہی ہے۔

ریونیو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس کے بجٹ میں 5 ہزار 555 ارب روپے کا ہدف تھا جس کے مقابلے میں صرف 3 ہزار 908 ارب روپے اکٹھا ہوئے اور آئندہ سال کے لیے 4 ہزار 963 ارب روپے رکھ دیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ برس بھی کہا تھا کہ یہ ہدف غیر حقیقی ہے اس کا حصول نا ممکن ہے اور ہماری پچھلے بجٹ کی ہر تقریر حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور حکومت کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان

احسن اقبال نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر کہہ رہا ہوں کہ حکومت نے ٹیکس ریونیو کا جو ہدف مقرر کیا اسے حاصل کرنا ممکن نہیں اور جو شرح نمو ہے وہ بھی حاصل نہیں کرسکتی اور آئندہ برس زیادہ سے زیادہ شرح نمو صفر یا 0.5 فیصد رہے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے شرح نمو 2 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے لیکن آئی ایم ایف نے اسے کم کر کے ایک فیصد کردیا لیکن مجھے ایک فیصد شرح نمو حاصل کرنے پر بھی شبہ ہے اور اگلے سال زیادہ سے زیادہ یہ صفر یا 0.5 فیصد تک شرح نمو حاصل کرسکیں گے۔

احسن اقبال نے مزید کہا کہ حکومتی اخراجات بے قابو ہیں موجودہ اخراجات پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں، حکومت اخراجات پر قابو نہیں پاسکی، ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں کرسکی تاریخ کے سب سے بڑے خسارے میں معیشت اور ماہرین کے مطابق اس سال خسارہ جی ڈی پی کا 10 فیصد ہونے والا ہے جو سرخ بتی جلانے کے لیے کافی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت اپنے اخراجات قابو نہیں کرسکی، ہم نے 5 سال میں 10 ہزار ارب کا قرض لیا اور اس حکومت نے پونے 2 سال میں 10 ہزار ارب روپے قرض لے لیا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب ہم نے قرضہ لیا تو بے تحاشہ ترقیاتی منصوبے بنائے یہ بتائیں کہ پونے 2 سالوں میں 10 ہزار ارب قرض لے کر کیا کیا ہے۔

احسن اقبال نے مزید کہا کہ اس بجٹ میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 2 ہزار 43 ارب روپے سے کم ہو کر 13 سو 24 ارب روپے ہوگیا ہے، جب ہم ترقیاتی بجٹ کم کرتے ہیں تو نمو ختم ہوجاتی ہے سرمایہ کاری کم اور اس سے معیشت کی بحالی نا ممکن ہوجاتی ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 21-2020: حکومت نے کراچی کے 3 ہسپتالوں کیلئے 14 ارب روپے مختص کردیے

انہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ ہماری کامیابی یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کردیا لیکن اگر آپ نے برآمدات اور براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے اور ترسیلات زر بڑھا کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کیا ہو تو میں آپ کو سلام کرتا ہوں لیکن آپ نے معیشت کو کھڑا کر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا۔

احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں ڈی انڈسٹرلائزیشن ہورہی ہے 2 سال کے عرصے میں اگر معیشت کو کھڑا کر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کیا گیا ہے تو یہ کارنامہ نہیں جرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کے ساتھ گورننس، ادارہ جاتی صلاحیت اور مناسب ماحول ضروری ہوتا ہے اس وقت ملک میں گورننس کا بدترین بحران ہے، پولیو، ڈینگی، ٹڈی دل، کورونا وائرس کسی ایک بحران میں حکومت کوئی سمت دینے میں کامیاب نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر 10 کروڑ روپے کا اسپرے وقت پر کردیا جاتا تو 8 ارب روپے کے نقصان سے بچا جاسکتا تھا لہٰذا حکومت کی انتظامی صلاحیت کھل کر سامنے آچکی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ ادارے متنازع ہورہے ہیں احتساب کا ادارہ مذاق بن چکا ہے جس کا پی ٹی آئی کی بی ٹیم بن کر اپوزیشن کو ہراساں کرنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں، اسی طرح الیکشن کمیشن پر بھی کسی کو اعتماد نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مالی سال 21-2020 کا وفاقی بجٹ

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کی اہلیہ درخواستیں دے رہی ہیں کہ جج کو جان کا خطرہ ہے تو میں عام آدمی کی کیا بات کروں، ہمارے اداروں کی بنیادیں ہل رہی ہیں، مضبوط ادارے ہی ترقی کی جانب لے کر جاتے ہیں جبکہ کمزور ادارے تباہی کی جانب راستہ دکھاتے ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ سرمایہ کار باہر جارہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سرمایہ کاری بھی کریں اور چوری کا سرٹیفکیٹ بھی لیں اور کوئی بھی افسر ایک روپے کی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں کیوں کہ جو خوف کا ماحول حکومت نے تشکیل دیا اس میں فیصلہ سازی مفلوج ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بجٹ خسارے کو بھول جائیں اس وقت لیڈر شپ، وژن، فیصلہ سازی، صلاحیت، کارکردگی اور اعتماد کا خسارہ درپیش ہے جب تک یہ دور نہیں ہوں گے حکومت کے تمام دعوے بے کار رہیں گے۔

احسن اقبال نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا کہ 5 سال سی پیک انفرا اسٹرکچر پر کیے گئے کام کا پھل ملتا، اس سال میں 9 ایس ای سیز تیار ہوجانے چاہیے جبکہ چینی سرمایہ کاری تیار تھی اور لوگوں کو روزگار ملتا لیکن حکومت ایک بھی ایس ای زی تیار نہیں کرسکی۔

ان کا کہنا کسی ریاست کو جبر سے نہیں چلا سکتے، خاص کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے بعد ایک جھوٹا اعتماد آگیا ہے کہ شاید ہم طاقت سے ہر چیز سے حل کرسکتے ہیں لیکن ہمیں قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے سیاسی تنازعات کے حل کر لیے سمجھنے، بات چیت اور مذاکرات کے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔

نسلی تعصب کے خلاف مظاہروں کے بعد ہٹائی گئی فلم ایچ بی او پر دوبارہ ریلیز

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

حکومت الجھن میں نہیں، 13 مارچ سے آج تک میرے کسی بیان میں تضاد نہیں، عمران خان