پاکستان

حکومت مالی سال 2021 کا بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی

حکومت اور آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے لیے 49 کھرب 5 ارب روپے کے ریونیو ہدف پر اتفاق کیا تھا۔

تمام نگاہیں آج قومی اسمبلی پر مرکوز ہیں جہاں کورونا وائرس کے بحران کا سامنا کرنے والی حکومت آج مالی سال 2021-2020 کے لیے بجٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔

توقع ہے کہ وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر بجٹ پیش کریں گے جسے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور ریونیو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ’کورونا بجٹ‘ کا نام دیا ہے۔

اس سال کے بجٹ اجلاس کو محض رسمی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، دونوں اس مقصد پر رائے دہی کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

بجٹ ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ جب ملک کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پیدا ہونے والے صحت کے بحران کا سامنا ہے جس نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بات چیت کے بعد اس کو حتمی شکل دی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات کو روکے گی۔

مزید پڑھیں: حکومت-اپوزیشن معاہدے کے بعد بجٹ اجلاس کی کارروائی محض رسمی ہوگی

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کا اقتصادی سروے 2019۔20 پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اپنی تقریر کا ایک بڑا حصہ مصیبت زدہ معیشت کو وراثت میں حاصل کرنے اور اسے کورونا سے متاثر ہونے سے قبل بحالی کی راہ پر لانے کا کہہ کر گزارا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ معیشت پر پائے جانے والے درست اثرات کا اندازہ لگانا اب بھی بہت مشکل ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ واقعی اس کو سخت نقصان پہنچا ہے اور مختلف ادارے وبائی امراض کی شدت اور دورانیے کی بنیاد پر مختلف تخمینے لگارہے ہیں۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کا جارحانہ ٹیکس عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ دولت مند ہیں وہ اپنے ٹیکس واجبات ادا نہیں کریں گے۔

بجٹ سے امیدیں

سادگی اور کمر کسنا آئندہ بجٹ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہر ادارے کو اپنا حصہ ڈالنے اور قربانی دینے کی ضرورت ہوگی۔

مالی سال 2021 کے فنانس بل کے ساتھ حکومت کا مقصد دنیا کو ایک مضبوط پیغام دینا ہے کہ وہ ’سخت چیلنجز کے باوجود ذمہ دار ہیں‘ اور بین الاقوامی بہاؤ سے جو بھی مالیاتی خلا پیدا ہوگا اس کا استعمال کرے گی۔

حکومت اور آئی ایم ایف نے آئندہ سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے 49 کھرب 5 ارب روپے کے ریونیو ہدف پر اتفاق کیا تھا جس میں سے دفاع کے لیے مختص رقم 13 کھرب روپے ہوگی اور نمو میں تعاون کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام 650 ارب روپے سے زائد ہوگا۔

عوامی اخراجات میں کمی کرتے ہوئے، سبسڈیز کو نشانہ بنایا جائے گا اور اسے کم کیا جائے گا جس کے ساتھ ساتھ قرض کا کا اسٹرکچر بھی ترتیب دیا جائے گا اور امداد کے لیے نقد رقم کی فراہمی کو مالی دباؤ کو کم کرنے کے لیے مالی خلا سے پُر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: شرح سود میں اضافے کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہوئی

مالی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کے 9 فیصد کے قریب بتایا جارہا ہے۔

سال کے دوران کوئی نئی پوسٹس تشکیل نہیں دی جائے گا اور ناگزیر عہدوں کو پُر کرنے میں پوری احتیاط برتی جائے گی۔

عام طور پر چھ اور نو ماہ سے زیادہ عرصے تک خالی رہنے والی آسامیوں کے خاتمے پر غور کیا جائے گا۔

اسی طرح چند عہدوں اور وزارتوں کو صوبوں میں منتقل کیا جائے گا جن میں ہائیر ایجوکیشن اور بڑے شہروں کے اہم ہسپتال شامل ہیں۔

ایس او پیز پر عمل در آمد

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سماجی دوری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، حزب اختلاف اور حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ 86 ممبران (کل 342 ممبروں میں سے ایک چوتھائی حصہ)، 46 حکومت سے اور 40 اپوزیشن سے ایک وقت میں ایوان میں موجود ہوں گے۔

معاہدے کی شرائط جنہیں معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے گائیڈ لائنز کہا گیا ہے، بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسپیکر امبلی اسد قیصر کی ہدایت پر پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر ایوان میں پر پڑھ کر سنائی تھیں۔

مزید پڑھیں: بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 5.4 فیصد تک کی کمی

معاہدے کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ممبران اور عملے، جنہوں نے کورونا ٹیسٹ نہیں کروائے ہیں، کو اسمبلی ہال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، ایوان کی کارروائی 30 جون تک روزانہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے جاری رہے گی اور اپوزیشن بجٹ پر ووٹ ڈالنے کے روز کے علاوہ کورم کی نشاندہی نہیں کرے گی۔

نوید قمر نے کہا کہ پارٹیوں کے سربراہان ذمہ دار ہوں گے کہ وہ کسی خاص دن شرکت کرنے والے اراکین کی فہرستیں فراہم کریں اور صرف ان ممبران کو اس ایوان میں آنے کی اجازت ہوگی جن کے نام فہرستوں میں موجود ہوں گے۔

نوید قمر نے مزید نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ممبران کو حاضری کے لیے اسمبلی ہال میں آنے کی ضرورت نہیں ہوگی کیونکہ وہ مرکزی دروازے پر اپنی حاضری کو نشان زدہ کرسکتے ہیں جسے گیٹ نمبر ایک کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم اپوزیشن کی ایک اور جماعت، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس معاہدے کو ’غیر آئینی اور غیر قانونی' قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کیا جس کے بعد اس کے اراکین نے ڈائس کے سامنے اسپیکر کی جانب سے ایوان سے ان کی کرسیاں ہٹانے پر احتجاج کیا کیونکہ معاہدے کے تحت صرف 86 کرسیاں ایوان میں رکھی گئی تھیں۔

اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

ملک میں مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا اندیشہ

آئندہ مالی سال میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکان