71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے، دفاعی بجٹ میں تقریباً 62 ارب روپے کا اضافہ تجویز تاہم تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔
قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کیں تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے ہوئے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔
بجٹ 21-2020 کے اہم نکات:
- دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
- وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے
- اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 136 ارب روپے لگایا گیا ہے
- مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز
- وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز
- سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز
- دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز
- نیا پاکستان ہاؤسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
- احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
- سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز
آئندہ مالی سال کا مکمل بجٹ یہاں پڑھیں۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا، ناقص پالیسیوں اور بد انتظامیوں کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جاپہنچا تھا۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب سے زائد کے نقصان کا سامنا تھا، اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرضے لیے گئے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔
بجٹ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 20-2019 کا آغاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے، جس کی وجہ سے مالی سال 19-2018 کے مقابلے میں 20-2019 میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔
انہوں نے کہا کہ مالی سال 20-2019 کے پہلے 9 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا، تجارتی خسارے میں 21 فیصد کمی کی گئی، اس کے علاوہ بجٹ خسارہ 5 فیصد کم کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرون قرضے کی ادائیگی کی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4 ارب ڈالر تھی، اس کے باوجود اس سال زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم سطح پر رہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 ہزار ارب روپے کا سود ادا کیا جو گزشتہ قرضوں پر دیا گیا، اس کے علاوہ بیرون سرمایہ کاری تقریباً دوگنی ہوگئی۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے ذریعے معاشی استحکام پیدا ہوا اس میں بجٹ اصلاحات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بند کیا گیا، اس کے علاوہ کوئی سپلمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی، ترقیاتی اخراجات میں حائل سرخ ٹیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 میں نیشنل ٹیرف پالیسی کی منظوری دی گئی، اس کے علاوہ میک ان پاکستان کے تحت پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کروایا گیا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پبلک فنانس منیجمنٹ اصلاحات شروع کیں، جس سے وفاقی حکومت کی مالی انتظامی معاملات میں بہتری آئی ہے۔
وزیر صنعت کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا آغاز کرکے ادائیگیوں کے نظام میں بہتری لائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کیے گئے، جس سے ان کی کارکردگی میں قابل قدر بہتری آئی، اس کے علاوہ کلیدی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا، این ایچ اے، پاکستان پوسٹ، کراچی پوسٹ جیسے اہم اداروں کی آمدن میں بالترتیب 70 فیصد، 50 فیصد اور 17 فیصد اضافہ کیا گیا اور ان کی استطاعت، کارکردگی اور شفافیت میں بہتری لائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لیے کاروبار میں آسانیوں کے انڈیکس کے لیے اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں پاکستان کاروبار میں آسانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے اور انشااللہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں ڈال دیا گیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا گیا، ہماری حکومت نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے زبردست کاوشیں کیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔
اس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کے لیے نیشنل ایف اے ٹی ایف کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے۔ جامع قسم کی ٹیکنیکل اور قانونی اصلاحات شروع کی گئی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتیجتاً ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلے میں ہم نے قابل ذکر پیشرفت کی ہے، ایک سال کے عرصے میں 14 نکات پر مکمل عمل کیا گیا اور 11 پر جزوی طور ر عملدرآمد کیا گیا ہے جبکہ دو شعبوں میں عملدرآمد کے لیے زبردست کوششیں کی جارہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ترقی پذٰیر ممالک کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے تو اسے انسانی صحت کے لیے مسئلہ سمجھا گیا، لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضرمات بھی سامنے آئے۔
حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بھی کورونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا اور اس نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوشیں اور محنت کی تھیں اس آفت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے، اس مشکل وقت میں عوام کی زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ایسے اقدامات اور فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔
انہوں نے کہا کہ طویل لاک ڈاؤن، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، مالی 20-2019 کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے:
- تقریباً تمام صنعتیں، کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔
- جی ڈی پی میں اندازاً 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر منفی 0.4 فیصد تک رہ گئی۔
- مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا وہ 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔
- ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے، وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا۔
- ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔
حماد اظہر نے کہا کہ حکومت اللہ کے کرم سے اس سماجی اور معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے، اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثرہ کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش و بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 1200 ارب روپے سے زائد کے ریلیف پیکج کی منظوری دی ہے، مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی ہے جو درج ذیل کاموں کے لیے مختص ہے:
- طبی آلات کی خریداری، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
- 150 ارب روپے ایک کروڑ 60 لاکھ کمزور اور غریب خاندانوں اور پناہ گاہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔
- 200 ارب یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں، کیش ملازمین اور کیش ٹرانسفر کے لیے مختص کیے گئے۔
- 50 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے مختص کیے گئے۔
- 100 ارب ایف بی آر اور وزارت تجارت کے لیے مختص ہیں تاکہ وہ برآمد کنندگان کو ری فنڈ کا اجرا کر سکیں۔
- 100 ارب روپے بجلی اور گیس کے مؤخر شدہ بلوں کے لیے مختص کیے گئے۔
- وزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت کم از کم 30 لاکھ کاروبار کے تین ماہ کے بل کی ادائیگی کے لیے 50 ارب روہے فراہم کیے گئے۔
- کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لیے 50 ارب کی رقم دی گئی۔
- 100 ارب روپے ایمرجنسی فنڈ کے لیے مختص ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ریلیف پیکج سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینا پڑیں، فنانس ڈویژن نے متعلقہ اداروں خصوصاً احساس، این ڈی ایم اے، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے فنڈ کا انتظام اور اجرا کیا، ہمیں اداروں کے ریلیف پیکج پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں بجا لائی گئی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کسانوں اور عام آدمی کا احساس کرتے ہوئے ریلیف کے اقدامات کیے جس کے لیے انہیں خوراک اور طبی ساز و سامان کی مد میں 15روبے کی ٹیکس کی چھوٹ دی، 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے، پیٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی لیٹر کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہم نے تعمیراتی شعبے کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے رعایتی ٹیکس متعارف کرا کر تاریخی مراعات بھی دی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
- فکس ٹیکس رجیم کو وضع کیا۔
- بلڈرز اور ڈیولپرز سوائے اسٹیل کے خریداروں کے ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی ہے تاکہ عوام کو سستے گھر میسر آسکیں۔
- آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔
- خاندان کے لیے ایک گھر پر کیپیٹل گین ٹیکس کی چھوٹ ہو گی۔
- سستی رہائش کی تعمیر پر 90 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دے گئی ہے۔
- تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے برے اثرات کے ازالے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی بہت سے اقدامات متعارف کرائے ہیں جس کے تحت پالیسی ریٹ میں 5.25 فیصد کی بڑی کمی کی گئی ہے جو 13.25 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گیا ہے، کاروبار کے پے رول لون میں تین ماہ کے لیے 96 ارب کی رقم 4 فیصد کم شرح سود پر فراہم کی گئی ہے تاکہ بے روزگاری سے بچا جا سکے۔
7 لاکھ 75 ہزار قرض دہندگان کو 491 ارب کے پرنسپل قرض کی ادائیگی ایک سال کے لیے مؤخر کر کے سہولت پہنچائی ہے اور 75 ارب کا قرض ری شیڈول کیا گیا ہے جبکہ افرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے بینکوں کو اضافی 800 ارب روپے قرض دینے کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے لیے قرض کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
بجٹ کے نمایاں خدوخال
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 21-2020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی، ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا، پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا، معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا، آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا، کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا، ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے، ٹیکسز میں غیر ضروری رد و بدل کے بغیر محصولات کی وصولی میں بہتری لانا، تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاؤسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی، معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے۔
حکومتی آمدن، اخراجات و خسارہ
انہوں نے کہا کہ کُل ریونیو کا تخمینہ 6 ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4 ہزار 963 روپے ہیں اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 136 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس منفی 0.5 فیصد ہوگا۔
حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 6 ہزار 345 ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ برس کے 6 ہزار 193 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی معاونت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس کے لیے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام متعلقہ اداروں کو پوورٹی ایلیویشن ڈویژن بنا کر اس میں ضم کردیا گیا ہے۔
حکومتی اہداف
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مالی سال 21-2020 کے دوران ان اہداف کے حصول کا فیصلہ کیا ہے:
- جی ڈی پی کی شرح نمو کو منفی 0.4 سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا۔
- کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائے گا۔
- مہنگائی کو 9.1 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد تک لایا جائے گا۔
- براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔
احساس پروگرام
انہوں نے کہا کہ اس غریب پرور پروگرام کے لیے پچھلے سال 187 ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں سماجی تحفظ کے بہت سے پروگرامز شامل ہیں جیسے بی آئی ایس پی، پاکستان بیت المال کے محکمے شامل ہیں، یہ مختص رقم حکومت کی منظور کردہ پالیسی کے مطابق شفاف انداز سے خرچ کی جائے گی۔
سبسڈیز
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ توانائی، خوراک اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لیے 180 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈیز کا رخ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تعمیراتی شعبہ
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کیے گئے، انہوں نے کہا کہ اخوت فاؤنڈیشن کی قرضِ حسنہ اسکیم کے ذریعے کم لاگت کے رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
خصوصی علاقہ جات، صوبوں کے لیے گرانٹس
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ خصوصی علاقوں آزاد جموں و کشمیر کے لیے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاس کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سندھ کو 19 ارب روپے اور بلوچستان کو 10 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ ان کے این ایف سی حصے سے زائد فراہم کی گئی ہیں۔
زرمبادلہ بڑھانے کے لیے اقدامات
حماد اظہر نے کہا کہ زرمبادلہ بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جس سے رقوم کی منتقلی بینکوں کے ذریعے بڑھانے کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مواصلات
حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو سستی ٹرانسپورٹ سروسز فراہم کرنے کے لیے پاکستان ریلوے کے لیے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
کامیاب نوجوان پروگرام
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کو ترقی پسند ملک بنانے کے لیے نوجوانوں کے کردار پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ کامیاب نوجوان پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے حکومت کا خصوصی پروگرام ہے جس کے کیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کے ہسپتال
وفاقی وزیر نے کہا کہ لاہور اور کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جن میں شیخ زید ہسپتال لاہور، جناح میڈیکل سینٹر کراچی اور دیگر 4 ہسپتال شامل ہیں۔
ای گورننس
انہوں نے کہا کہ ای گورننس کے ذریعے پبلک سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے جو وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے، وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔
فنکاروں کی مالی امداد اور بہبود
انہوں نے کہا کہ فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کی مالی امداد اور فلاح و بہبود کے لیے صدر پاکستان کی ہدایت پر حکومت نے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردی ہے۔
خصوصی فنڈز کا قیام
حماد اظہر نے کہا کہ مختلف اصلاحاتی پروگرامز کے لیے خصوصی فنڈز کا قیام کیا گیا ہے جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے وائبلیٹی گیپ فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کے لیے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
زراعت
وفاقی وزیر نے کہا کہ زرعی شعبے میں ریلیف پہنچانے کے لیے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
ترقیاتی بجٹ
انہوں نے کہا کہ حکومت کے وژن کے مطابق ترقیاتی ایجنڈے پر عملدرآمد جاری ہے تاکہ مستحکم معاشی شرح نمو کا حصول ممکن ہوسکے اور غربت میں کمی، بنیادی انفرا اسٹرکچر میں بہتری اور خوراک، پانی اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
حماد اظہر نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم ایک ہزار 324 ارب روپے ہے۔
پبلک سیکٹر ڈیولمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)
انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ترقیاتی مقاصد کو حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے جس کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبوں کی لاگت میں اضافے سے بچنے کے لیے جاری منصوبوں کے لیے 73 فیصد اور نئے منصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم مختص کی گی ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ سماجی شعبے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے لیے گزشتہ سال کے 206 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 249 ارب کردیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کی دفعات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے، اس حوالے سے بڑے شعبوں کے لیے مختص رقوم کی تفصیل درج ذیل ہے۔
کورونا اور دیگر آفات کی روک تھام
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے جس کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
توانائی اور بجلی
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کی توجہ توانائی کے توسیعی منصوبوں اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام بہتر بنانے اور گردشی قرضوں کو کم کرنے کی طرف مرکوز ہے، بجٹ میں خصوصی اکنامک زونز کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں اور غیرملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 80 ارب روپے مختص کیے ہیں، ان فنڈز کو خاص طور پر بجلی کی طلب اور پیداوار کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا ہے۔
آبی وسائل
انہوں نے کہا کہ پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، اس سال حکومت پانی سے متعلق منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس ضمن میں 69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ کثیرالمقاصد ڈیم بالخصوص دیامر بھاشا، مہمند اور داسو ڈیم کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل فراہم کیے گئے ہیں، ان منصوبوں سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے 30 ہزار سے زائد مواقع پیدا ہوں گے۔
قومی شاہراہیں اور ریلوے
انہوں نے کہا کہ صنعتی رابطوں، تجارت و کاروبار کے فروغ کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے، اس سلسلے میں 118 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ریلوے کے ایم ویل ون منصوبے اور دیگر منصوبوں کے لیے 24 ارب روپے جبکہ مواصلات کے دیگر منصوبوں کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
صحت
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں صحت کا شعبہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے اور بہتر طبی خدمات، وبائی بیماریوں کی روک تھام، طبی آلات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ کورونا کے علاج اور تدارک کے اقدامات کے علاوہ حکومت اپنی توجہ ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے کے لیے آئی سی ٹی سلوشن کی طرف مرکوز کررہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔
تعلیم
وفاقی وزیر نے کہا کہ تعلیم کے 83 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ برس کے 77 ارب 20 کروڑ روپے کے مقابلے میں 7.9 فیصد زیادہ ہے۔
یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام، امتحانات وضع کرنے، اسمارٹ اسکولوں کا قیام، مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی، جس کے لیے رقم مختص کردی گئی ہے اور ان اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مزید برآں ہائر ایجوکیشن ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وافر رقوم رکھی گئی ہے اس لیے ایچ ای سی کے لیے سال 20-2019 میں مختص کی گئی 60 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 64 ارب روپے کردی گئی ہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لیے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلا آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق اور ترقی کے لیے کام کیا جاسکتا، لہٰذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس حصول کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی
انہوں نے بتایا کہ امرجنگ ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اداروں کی صلاحیت اور گنجائش کو بڑھانا اشد ضرورت ہے، مزید برآں ای گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز، 5 جی سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل، الیکٹرانک، پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا اور آر این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔
موسمیاتی تبدیلی
بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر اور ماحول پر ظاہر ہونے والے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھی اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر بھی بہت سے اثرات ہیں جیسے غیر موسمی بارشیں، فصلوں کے پیداواری رجحان میں کمی اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں لہٰذا اس سال موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
خصوصی علاقہ جات
وفاقی بجٹ کی تقریر کے دوران حماد اظہر نے کہا کہ رواں برس بجٹ کے تحت مختص رقوم کے علاوہ حکومت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبوں کے لیے 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں مختلف منصوبوں کے ذریعے 48 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
پائیدار ترقی کے مقاصد
انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت ترقیاتی بجٹ میں 24 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔
تحفظ خوراک و زراعت (فوڈ سیکیورٹی)
بجٹ تقریر کے دوران حماد اظہر نے بتایا کہ تحفظ خوراک کے فروغ کے لیے ترقیاتی منصوبوں میں 12 ارب روپے کی رقم خرچ کی جائے گی۔
دیگر ترقیاتی پروگرام
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع میں ٹی ڈی پی کے انضام و انصرام کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے جبکہ افغانستان کی بحالی میں معاونت کے لیے 2 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
محصولات سے متعلق تجاویز
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11 فیصد ہے جو ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے، اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہم نے ایک اصلاحاتی عمل شروع کیا تھا جو ایک جامع حکمت عملی پر مشتمل تھا جس کے ذریعے رواں سال درج ذیل کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں:
- معاشی ترقی کا درآمد کی بنیاد پر انحصار اب اندرونی ذرائع سے حاصل کردہ آمدن کی ترقی سے تبدیل ہوگیا ہے۔
- تاریخی ری فنڈز ادا کیے گیے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 119 فیصد زیادہ ہیں۔
- پاکستان کی محدود ٹیکس بیس کو ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لاکر اور 6 ہزار 616 ریٹیل آؤٹ لیٹس پر پوائنٹ آف سیلز کی کامیاب تنصیب کے ذریعے مزید وسیع کیا گیا ہے، جسے اس سال دسمبر تک 15ہزار تک لے جانے کی کوشش ہے، کورونا کی وجہ سے عام دکانداروں کا کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے ہم نے پوائنٹ آف سیل پر سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے مزید کم کرکے 12 فیصد کرنے تجویز دی جس سے عام افراد اور دکانداروں کو کاروبار میں مدد ملے گی اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں آسانی ہوگی۔
- کورونا کی وجہ سے ہوٹل کی صنعت بہت متاثر ہوئی اس لیے اس صنعت پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 1.5 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد کرنے کی تجویز دی، یہ چھوٹ اپریل سے ستمبر تک 6 ماہ کے لیے دی جائے گی۔
- افراد اور تنخواہ دار طبقے کی سہولت کے لیے گوشوارہ کی موبائل اپیلی کیشن متعارف کروائی گئی جس سے انکم ٹیکس گوشواروں میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔
- ٹیکس جمع کروانے کا ایک خودکار نظام متعارف کروایا گیا۔
- اسمگلنگ اور قانونی عملدرآمد کی ایک کامیاب مہم چلائی گئی جس سے برآمد ہونے والی رقم میں 19سے 30 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے قبل کے عرصے میں محصولات اکٹھا کرنے کی شرح بھی قابل تعریف رہی، ڈومیسٹک ٹیکسز میں 27 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ضروری درآمدات کا خاتمہ کیا گیا۔
حماد اظہر نے کہا کہ اسی وجہ سے مالی سال 2020 کے لیے ایف بی آر محصولات وصولی کا ہدف جو شروع میں 5 ہزار 503 ارب روپے تھا، اسے درآمدات سکڑنے کے بعد 4 ہزار 801 کیا گیا تھا بعد ازاں کورونا کی وبا نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کورونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن اور معاشی سرگرمیاں کم ہونے کے باعث معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور بیروزگاری اور معاشی سست روی سے بچنے کے لیے وزیراعظم نے 12 سو ارب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث محصولات اکٹھا کرنے میں دشواری اور کمی کا سامنا کرنا پڑا جس کا تخمینہ تقریبا 900 ارب روپے ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث ایف بی آر کے ہدف میں کمی کی گئی اور اب یہ ہدف 3900 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران چھوٹے اور درمیانے تاجروں کے لیے فکسڈ مراعات کا پیکج متعارف کروایا گیا ہے، اس کے علاوہ تعمیراتی شعبے کے لیے ایک تاریخی پیکج متعارف کروایا گیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس پیکج کے بر وقت اطلاق سے توقع کی جارہی ہے کہ یہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے روزگار کے تحفظ، معاشی ترقی کی ترویج اور غیر مراعات یافتہ طبقے کو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت کم قیمت پر گھر فراہم کرے گا۔
حماد اظہر نے کہا کہ ہم نے ایسی پالیسیز تجویز کی ہیں جس سے معیشت کو دوبار ہ پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم نے بجٹ 21-2020 میں کاروبار کو ناکامی سے بچانے اور غریب عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ایسا بجٹ پیش کیا ہے جسے 'ریلیف بجٹ' کہا جاسکتا ہے، ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔
وفاقی وزیر نے کسٹمز ایکٹ 1969 میں تجویز کردہ تبدیلیاں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹ rebate کو کسی انسانی مداخلت کے بغیر برآمد کنندگان کے بینک اکاؤنٹس میں براہ راست منتقلی کرنے کے لیے خود کار بنایا جارہا ہے۔ یہ اسکیمز ایک دہائی بعد تبدیل کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس حکومت نے کسٹم ٹیرف میں اصلاحات کی جامع مشق کا آغاز کیا تھا اور خام مال پر مشتمل 1600 سے زائد ٹیرف لائنز کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ کیا، اب صنعتی شعبے کی لگائی جانے والی لاگت میں کمی کے لیے خام مال میں مکمل طور پر تمام کسٹم ڈیوٹیوں سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز کی جاری ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ان اشیا کی فہرست میں کیمیکلز، لیدر، ٹیکسٹائل، ربر، کھاد میں استعمال ہونے والا خام مال شامل ہے، ان ٹیرف لائنوں میں 20 ہزار کے قریب اشیا شامل ہیں جو مجموعی درآمدات کا 20 فیصد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خام مال اور ثانوی اشیا پر مشتمل 200 ٹیرف لائنز پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی ہے، ان اشیا میں بلیجنگ، ربر اور گھریلو اشیا کا خام مال شامل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مقامی انجینئرنگ کے شعبے کی حوصلہ افزائی کے لیے ہاٹ رولڈ کوائلزپر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو 12.5 فیصد سے کم کرکے 6 فیصد پر لانے کی تجویز کی جارہی ہے جس سے اسٹیل، پائپ، انڈر گراؤنڈ ٹینک، بوائلر کی صنعت کو فروغ ملے گا۔
حماد اظہر نے کہا کہ ماضی میں مختلف اشیا پر پروہیبیوٹو ریگولیٹری ڈیوٹی عائد تھی، جس سے درآمدات میں کمی لانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان میں سے کچھ چیزیں افغانستان منتقل ہوئیں اور بعدازاں اسمگلنگ کے ذریعے پاکستان واپس آئیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف اشیا مثلاً کپڑے سینیٹری ویئر، الیکٹروڈز، کمبلوں، پیڈ لاکس کو اسمگلنگ پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی کو کم کرنے کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ ضائع ہونے والے محصولات کو حاصل کیا جاسکے۔
حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کے غریب عوام کی صحت سے متعلق اخراجات کو کم کرنے کے لیے کورونا وائرس اور کینسر کی تشخیصی کٹس پر عائد تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز کو ختم کرنے کی تجویز دی جارہی ہے اور جینیاتی مسائل میں مبتلا بچوں کے خصوصی فوڈ سپلیمنٹس، پرہیزی غذا کو تمام درآمدی مرحلے پر تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپلیمنٹری فوڈ بنانے میں استعمال ہونے والے خام مال کو کسٹم ڈیوٹیز سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز دی جارہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسمگلنگ کی سزاؤں کو جامع بنانے اور کم سے کم سزا کا قانون متعارف کروانے کی تجویز دی جارہی ہے تاکہ کسٹم حکام اپنی مرضی سے اسمگلنگ میں ملوث شخص کو نہ چھوڑ سکیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ کسٹمز کے قانون میں ایڈوانس رولنگ کی شمولیت کی تجویز دی جارہی ہے جو عالمی سطح کے بہترین طریقہ کار کے مطابق ہے۔
انہوں نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005 کے حوالے سے تجاویز اور ریلیف اقدامات پیش کیے جو مندرجہ ذیل ہیں:
- غیر رجسٹرڈ شدہ افراد سے قومی شناختی کارڈ کی وصولی کی شرائط میں نرمی کرتے ہوئے بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
- وزات صحت کی تجویز پر طبی مقاصد کے لیے خصوصی پرہیزی غذا کی درآمد پر استثنیٰ کی تجویز پیش کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 کے چھٹے شیڈول میں ایک نیا سیریل صرف درآمد پر استثنیٰ کے لیے شامل کیا جارہا ہے۔
- کورونا وائرس سے متعلقہ صحت کے ساز و سامان کی درآمد پر استثنیٰ میں 3 ماہ کی توسیع کی تجویز پیش کی گئی۔
کاروبار میں آسانی سے متعلق تجاویز
وفاقی وزیر نے کاروبار میں آسانی سے متعلق مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں:
- ود ہولڈنگ ٹیکس رجیم کو آسان بنانے کے لیے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ 9 ود ہولڈنگ شقوں کو حذف کیا جائے اور ان میں شادی ہالوں اور تعلیمی اداروں میں ٹیکس گزار والدین کے بچوں کی فیس پر عائد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔
- غیر رہائشیوں پر 30 فیصد کی موجودہ شرح بہت زیادہ ہے لہٰذا بین الاقوامی معیار کے مطابق اسے درست کرنے کی ضرورت ہے، اقدامات سی پیک کے منصوبوں کی تعمیل میں مددگار ثابت ہوں گے۔
- کمرشل امپورٹرز اور مینوفیکچررز کو یکیسان مواقع فراہم کرنے کے لیے کیپیٹل گڈز کی امپورٹ میں ٹیکس کے بگاڑ سے بچنے کے لیے محصولات کی مزید وصولی اور چھوٹے اور درمیانے مینوفیکچررز کی سہولت کے لیے ایک بنیادی تبدیلی کی تجویز ہے، اس تجویز کے تحت درآمدات پر انکم ٹیکس کی شرح کوخام مال پر 5.5 سے کم کر کے 2فیصد اور مشینری پر ٹیکس 53.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد یا جا رہا ہے، اس کے ساتھ منسلک ایگزیمپشن سرٹیفکیٹ کا نظام بھی ختم کیا جارہا ہے۔
- کاروبار میں سہولت اور کاروبار کی لاگت میں کمی کرنے کے لیے سیکشن 21 (1) کی موجودہ حد کو 10 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار کیا جا رہا ہے جبکہ کاروبار میں ایک اکاؤنٹ ہیڈ میں حد 50 ہزار سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح کاروباری افراد کی سہولت کے لیے تنخواہ اور اجرت دینے کے لیے نقد رقم کی حد کو بڑھا کر 15ہزار سے 25 ہزار کیا جا رہا ہے۔
- بیرونی محصولات کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ تجویز ہے کہ ایک سال میں بیرونی ترسیلات زر کو بینک نکلوانے اور دوسرے بینک میں منتقل کرنے پر کسی قسم کا ٹیکس نہ لیا جائے۔
قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔
اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی۔
اس سال کے بجٹ اجلاس کو محض رسمی سمجھا جا رہا تھا کیونکہ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس مقصد پر رائے دہی کے لیے دباؤ نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئی تھیں۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 میں 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا اور اس سے قبل پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد محض 5 ماہ کے عرصے میں 2 منی بجٹ بھی پیش کیے تھے۔
مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے 'کورونا بجٹ' کا نام دیا گیا۔
رواں سال کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا جب ملک کو عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث صحت کے بحران کے سامنا ہے جس نے ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
مالی سال 20-2019
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا۔
گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا۔
قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی۔
قبل ازیں مالی سال 19-2018 میں 52 کھرب 46 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 53 ارب 85 ارب روپے ہوگئے تھے۔
اس سے قبل مالی سالی 17-2018 میں 47 کھرب 53 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 48 کھرب 57 ارب روپے ہوگئے تھے۔
17-2016 میں 43 کھرب 96 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا لیکن اخراجات 42 کھرب 56 ارب روپے رہے۔
مالی سال 16-2015 میں 40 کھرب 86 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اور اس سال بھی اخراجات بجٹ کے اندر رہتے ہوئے 40 کھرب 69 ارب رہے تھے۔
جی ڈی پی
اس سے قبل مالی سال 18-2017 میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر تھا، مالی سال 17-2016 میں 5.7 فیصد، 16-2015 میں 5.5 فیصد، 15-2014 میں 5.1 فیصد اور 14-2013 میں اس کا ہدف 4.4 فیصد رکھا گیا تھا۔
خیال رہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کے حصے پر نظر ڈالیں تو مالی سال 19-2018 کیلئے یہ 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ 0.8 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 3.46 فیصد رہا، 16-2015 میں 0.27 فیصد، 15-2014 میں 2.13 فیصد اور 14-2013 میں یہ 2.5 فیصد تھا۔
جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 8.1 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ منفی 0.3 فیصد رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 5 فیصد رہا، 16-2015 میں 5.8 فیصد، 15-2014 میں 5.2 فیصد اور 14-2013 میں یہ 4.53 فیصد تھا۔
جی ڈی پی میں اشیاء کی پیداوار کے شعبے کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 7.6 فیصد مقرر کیا گیا لیکن یہ 1.40 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 4.3 فیصد، 16-2015 میں 3 فیصد، 15-2014 میں 3.6 فیصد، 14-2013 میں 3.49 فیصد تھا۔
سروسز کے شعبے میں شرح نمو کی ترقی مالی سال 19-2018 کے لیے 6.5 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن یہ 4.71 رہی، 17-2016 میں عارضی طور پر 5.6 فیصد، 16-2015 میں 5.6 فیصد، 15-2014 میں 4.4 فیصد اور 14-2013 میں 4.46 فیصد رہی۔
گزشتہ بجٹس کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں ٹیکس ریونیو کی شرح 19-2018 میں 12.6 رہی، 17-2016 میں 8.5 فیصد، 16-2015 میں 12.6 فیصد، 15-2014 میں 11 فیصد اور 14-2013 میں یہ 10.2 فیصد رہی۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ
گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کےمشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے پروگرامز میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں۔
مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے جائیں اور ٹیکسز کا بھی جائزہ کے لر ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ مالی سال 20-2019 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 3.4 فیصد شرح نمو ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 22.9 فیصد رہی۔
انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔
مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ملکی آمدن میں 30 کھرب روپے کا نقصان ہوا۔
مجموعی سرکاری قرض جی ڈی پی کا 88 فیصد
قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔
قرض و واجبات مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کے 102.6 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض جی ڈی پی کے 84.4 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
گزشتہ روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض مثال کے طور پر اپریل میں آئی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔
افراط زر
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ (چی پی آئی) افراط زر 11.22 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 6.51 فیصد تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
ٹیکس مراعات سے 11 کھرب 49 ارب روپے کا نقصان ہوا
اقتصادی سروے 20-2019 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت گزشتہ سال کے 972 ارب 04 کروڑ کے مقابلے میں 18.25 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کھرب 49 ارب روپے ہوگئی۔انکم ٹیکس مراعات سال 2019۔20 میں بڑھ کر 378 ارب روپے ہوگئی جو گزشتہ سال میں 141 ارب 64 کروڑ روپے تھی 166.88 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
اس ٹیکس مراعات میں کل آمدنی سے 212.07 ارب روپے اور کاروباری افراد کو دیے گئے 104.498 ارب روپے شامل ہیں۔
سب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) ہیں۔
سیلز ٹیکس میں مراعات 2019-2020 میں کم ہوکر 518.8ارب روپے ہوگئی جو 2018-19 میں 597.7 ارب روپے تھی جو 13 فیصد کی کمی ظاہر کرتی ہے۔
ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ
اقتصادی سروے پاکستان مطابق ملک میں کورونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔
سروے میں کہا گیا کہ ’کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 5 کروڑ سے بڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے‘۔
پلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کوسٹ آف بیسک نیڈ (سی بی این) کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایا جس کے مطابق ماہانہ 3 ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہے، اس طریقہ کار کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔