آئی ایم ایف سے اخراجات منجمد کرنے، 49 کھرب کے ریونیو ہدف پر اتفاق
اسلام آباد: حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بجٹ 2021 میں وفاقی حکومت کے اخراجات اور حجم منجمد ہونے سے متعلق اتفاق ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے 12 جون کو وفاقی بجٹ کا اعلان کیا جائے گا اور یہ فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ منگل(9 جون) کو رات گئے حکومت کی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ بجٹ سے متعلق حتمی مذاکرات ہوئے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں کفایت شعاری اور سخت اقدامات پر توجہ مرکوز رہے گی جس کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہر سیکشن کی جانب سے کردار ادا کیا جائے گا اور قربانی دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: حکومت اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف میں بڑا فرق
اس کے ساتھ ہی ذرائع نے کہا کہ حکومت دنیا کو 21-2020 کے بجٹ کے ذریعے دنیا کو ٹھوس پیغام دے گی کہ وہ کئی چیلنجز کے باوجود مالی طور پر ذمہ دار ہے اور بین الاقوامی بہاؤ کے ذریعے جو بھی مالی جگہ دستیاب ہوگی اسے سمجھداری سے استعمال کرے گی۔
لہٰذا حکومت اعلان کرے گی کہ بجٹ میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر کے اخراجات رواں برس منجمد رہیں گے اور ان کا درست استعمال کیا جائے گا۔
مذاکرات کی بنیاد پر اس بات کے 90فیصد امکانات ہیں کہ تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں حکومت میں ہر سطح پر تنخوہواں، پنشنز اور دیگر اخراجات میں وسیع فرق کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
درحقیقت آئی ایم ایف نے تنخواہوں اور پنشن سے متعلق بلز میں ریشنلائزیشن کا مطالبہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں دونوں فریقین نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے 49 کھرب 50 ارب روپے کے ریونیو ہدف پر اتفاق کیا ہے جبکہ دفاع کے لیے 13 کھرب روپے کے اندر رقم مختص کی جائے گی۔
اس کے ساتھ ہی ترقی کے امکانات کی حمایت کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 650 ارب روپے رکھے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی معیشت خطرات کا شکار، اگلے سال تک بحالی کا امکان نہیں، عالمی بینک
مزید یہ کہ حل کے طور پر وفاقی حکومت کے ملازمین کے سیکریٹریٹ الاؤنس میں تھوڑے سے اضافے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ وہ لوگ جو خصوصی مراعات اور الاؤنسز حاصل کررہے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
اس کا مطلب ہے کہ قومی احتساب بیورو، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ریگولیٹری اداروں، خودمختار اداروں اور کارپوریشنز، وزیراعظم آفس، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر تنخواہوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔
علاوہ ازیں صوبائی حکومت کے ملازمین کی تنخواہیں، الاؤنسز اور مراعات اس وقت وفاقی ملازمین سے زیادہ ہیں لیکن اگر وفاقی حکومت سب کی تنخواہ میں اضافے کی اجازت دے تو صوبائی حکومت بھی ایسا کرتی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کے غیر ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا ٹھوس موقف بھی اپنایا اور وہ ایسا چاہتے بھی ہیں۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان پہلے ہی تمام اداروں اور صوبوں کو ملازمین کی تنخواہوں میں فرق ختم کرنے کی ہدایت کرچکے ہیں اور انہیں بتایا تھا کہ یہ بجٹ سخت اقدامات کا واضح اشارہ ہوگا۔
معاشی ریکوری سے متعلق، تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ ستمبر 2020 میں آئی ایم ایف کے ساتھ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
سول اخراجات میں سخت کمی، سبسڈیز میں کمی کی جائی گی، قرضے کو اسمارٹلی اسٹرکچر کیا جائے گا ور مالی دباؤ کو دور کرنے کے لیے ریلیف کے لیے کیش کی تقسیم اور فسکل اسپیس کو متحرک کیا جائے گا جبکہ مالی خسارہ جی ڈی پی کا 9 فیصد طے کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں رواں برس کوئی نئی آسامیاں نہیں نکالی جائیں گے اور ناگزیر آسامیوں پر بھرتی میں احتیاط کی جائے گی، 6 اور 9 ماہ سے خالی آسامیوں کے خاتمے پر غور کیا جائے گا۔
اسی طرح وزارتیں اور آسامیوں کی تفویض کردہ ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کی جائیں گی جس میں اعلیٰ تعلیم اور بڑے شہروں کے بڑے ہسپتال شامل ہیں۔
یہ خبر 10 جون، 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی