نقطہ نظر

اولمپکس کی معطلی کا فیصلہ اور میرا دورہ ٹوکیو

میں نے ٹوکیو میں قیام کے دوران پورے شہر میں چلنے والی ٹیکسیوں، بسیں اور ٹرینوں پر اولمپکس 2020ء کے پوسٹر چسپاں دیکھے۔

دنیا اس وقت کورونا کے وبائی اثرات سے نبرد آزما ہے، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہیں اور انسانی میل جول محدود ہوچکا ہے۔ جبری فرصت (لاک ڈاؤن) کے ہاتھوں اکثریت اپنے گھروں تک محدود ہے۔

پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پوری دنیا ایک ساتھ کسی وبا سے متاثر ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں دنیا میں بہت تبدیلی آئی ہے، اور اب یہ تصور کیا جارہا ہے کہ کورونا سے پہلے اور اس کے بعد کی دنیا ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوجائے گی۔

جبری فرصت کے دنوں میں سوشل میڈیا پر گہما گہمی میں اضافہ ہوگیا ہے، ہر کوئی اپنے من پسند موضوع پر بات کر رہا ہے، ایک دوسرے سے تفصیلی تبادلہ خیال ہو رہا ہے اور ایک خاص چیز جو دیکھنے میں آئی، وہ یہ ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنی پرانی تصویریں، ویڈیوز اور ایسی یادوں کو شیئر کر رہے ہیں، جس کا تعلق اس فرد کی کسی نہ کسی متحرک سرگرمی سے ہے۔

جس طرح میں یہاں آپ کو اپنے ایک ایسے ہی خوشگوار سفر کی کہانی سنانے جا رہا ہوں، جس کا ایک اسٹاپ جاپان میں ہونے والے ٹوکیو اولمپکس 2020ء کا مرکزی دفتر بھی ہے۔

آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں اپنے دورہ جاپان کی بات کر رہا ہوں۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں یہاں آپ کو یہ یاد دلاتا چلوں کہ ہر 4 سال کے وقفے کے بعد اولمپکس کھیلوں کو منعقد کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا کے ممالک اس مقبول ترین کھیلوں کے میلے میں حصہ لیتے ہیں۔ اس ایونٹ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے فریق ممالک کے درمیان سخت مقابلے کے بعد جاکر کسی ایک خوش نصیب ملک کو میزبانی ملتی ہے۔

اولمپکس کی میزبانی حاصل کرنے کے بعد میزبان ملک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس قدر عمدہ انتظامات کرسکتا ہے، وہ کرے، کیونکہ اس طرح نہ صرف کھیلوں کی حد تک بلکہ اس کے لیے میزبان ملک کے جوش و جذبے کو بھی دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

2020ء کے اولمپکس کی میزبانی جاپان کے دارالحکومت اور دنیا کے مقبول ترین شہر ٹوکیو کے حصے میں آئی۔ اس سے پہلے جاپان کئی مرتبہ یہ میزبانی حاصل کرچکا ہے جس میں سرمائی اولمپک اور گرمائی اولمپک دونوں طرح کے اولمپکس شامل ہیں

پہلی مرتبہ 1964ء میں ٹوکیو، اس کے بعد بالترتیب 1972ء میں جاپانی شہر سپارو جبکہ 1998ء میں جاپانی شہر ناگانو میں اولمپکس کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ہوا تھا۔

جاپان کو چوتھی مرتبہ جبکہ ٹوکیو کو دوسری مرتبہ کھیلوں سے وابستہ دنیا بھر کے کھلاڑیوں اور شائقین کو اپنی خدمات فراہم کرنے کا موقع ملا تھا۔ 2016ء میں جب جاپان میزبانی کے امیدوار ممالک کی دوڑ میں شامل تھا، تب یہ اعزاز برازیل کو مل گیا، اور اس موقعے پر میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ جاپانیوں کے لیے موجودہ دور میں اس ایونٹ کی میزبانی کتنا جذباتی معاملہ ہے۔

میں بطور محقق جاپانی ثقافت و ادب پر ایک دہائی سے کام کر رہا ہوں اور کچھ عرصہ کراچی میں قائم قونصل خانہ جاپان سے بھی وابستہ رہا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب جاپان کے مدِمقابل برازیل کو اولمپکس کی میزبانی مل گئی تھی۔

جاپان میں کھیلوں کے شائقین کافی اداس تھے لیکن پھر جب 2020ء کے لیے جاپان میزبانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو جاپان کی خوشی دیدنی تھی۔ میں نے اپنے دفتر میں جاپانی دوستوں کی خوشی کا براہِ راست مشاہدہ کیا۔ جاپان کے عوام بھی خوشی سے نہال تھے، اور میرے لیے بھی یہ ایک بہت خوشی کا موقع تھا۔

چند ہی دنوں میں اس ایونٹ کا ایک دیوقامت پوسٹر بھی چھپ کر کراچی میں قائم جاپانی قونصل خانے پہنچ گیا، جس کو اندرونی عمارت کے داخلی حصے پر نمایاں جگہ لگا دیا گیا۔ وہ پوسٹر آج بھی کئی برسوں سے وہاں آویزاں ہے۔

میں اپنے علمی و مطالعاتی کاموں کے سلسلے میں 2 مرتبہ جاپان جاچکا ہوں۔ پہلی مرتبہ 2017ء جبکہ دوسری مرتبہ 2019ء میں گیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ کئی برسوں سے لگاتار جاپان اس کوشش میں تھا کہ اس کو پھر سے اولمپکس کھیلوں کی میزبانی کا موقع ملے، اور طویل مدتی ایونٹ قریب آنے پر جو ضروری اقدامات کرنے چاہئیں، یہ ملک وہ سارے کام کر رہا تھا، اس بات سے قطع نظر کہ کب اس کے حصے میں یہ اعزاز آئے گا۔ میزبانی حاصل کر لینے کے بعد تو پھر جاپانیوں کے جوش و جذبے میں مزید تیزی آگئی اور اس کے لیے ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا کام کرنے میں مصروف ہوگیا۔

2019ء میں ٹوکیو میں جتنے دن میرا قیام تھا، میں نے ان تیاریوں کا مشاہدہ خود بھی کیا۔ ایک ایسا ایونٹ، جس کے انعقاد میں ابھی ایک ڈیڑھ برس باقی تھا، لیکن جاپانی تو کئی برسوں سے اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کی خاطر محنت و مشقت میں محو تھے۔

ٹوکیو جیسے جدید شہر میں جہاں کھیلوں کے حوالے سے تمام معیاری سہولتیں پہلے سے موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے مزید انتظامات کیے جا رہے تھے۔

میں نے ٹوکیو ٹاور کی مہمان گیلری کا دورہ بھی کیا، جہاں سے پورے شہر کا دلفریب منظر دکھائی دیتا ہے۔ اسی منظرنامے میں بیک وقت کئی کھیلوں کے میدان دکھائی دیے جن میں کھلاڑی اپنی مشق میں مشغول تھے۔ اس سب کے باوجود ایک نیا اسٹیڈیم تیار کیا گیا، جس میں زیادہ تر لکڑی استعمال ہوئی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لکڑی سونامی سے تباہ شدہ جنگلوں سے لائی گئی اور اس کو قابلِ استعمال بنایا گیا۔

5 منزلہ یہ اسٹیڈیم 2020ء کے اولمپکس کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بغیر ڈرائیور کے گاڑی چلانے کے کامیاب تجربے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک سے آنے والے شرکا کے لیے ایک موبائل مسجد بھی تیار کی گئی ہے۔ اس طرح استقبال کی غرض سے ایسے روبوٹ بھی تیار کیے گئے ہیں، جو شرکا کو خوش آمدید کہیں گے۔ اس کے علاوہ ایک جہانِ دگر ہے، جس کی تفصیل کے لیے ایک اور بلاگ لکھنا پڑے ہوگا۔

پورے جاپان میں ٹوکیو اولمپکس کی آفیشل دکانیں کھولی گئی ہیں، جہاں اس ایونٹ سے متعلق بہت کچھ خریدا جاسکتا ہے۔ میں نے بھی ایسی ہی ایک آفیشل شاپ سے چند تحائف خریدے اور اپنے اس دورے کو یادگار بنانے کے لیے اولمپکس 2020ء کا یادگاری سکہ بھی خریدا، جس پر اسی وقت میرا نام اور اس دن کی تاریخ کنندہ کرکے مجھے دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جاپان ایک مہنگا ملک ہے اور ٹوکیو مہنگا ترین شہر، اس لیے پاکستانی روپوں کے عوض اس سکے کی قیمت کئی ہزار روپے تھی، بہرحال اس یادگاری کی خاطر یہ مالی بوجھ گراں نہ گزرا۔

میں ٹوکیو کے جس علاقے میں ٹھہرا تھا، اس کا نام 'شنجیکو' ہے اور یہ ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں بڑے بڑے سرکاری دفاتر، بڑی بڑی کمپنیوں کے دفاتر سمیت دنیا کے چند بڑے ریلوے جنکشن میں شامل ہونے والا شنجیکو ریلوے اسٹیشن بھی ہے، جہاں سے اندرونِ شہر اور پورے جاپان تک کا سفر کرنے کے لیے ٹرینیں ملتی ہیں۔

اولمپکس ایونٹ کرانے کی ذمہ داری 'ٹوکیو میٹروپولیٹن گورنمنٹ آفس' کے پاس ہے اور اس کا مرکزی دفتر بھی اسی علاقے میں ہے۔ یہ 2 بلندو بالا ستون والی عمارت ہے، جس کا تعارف میرے ایک پاکستانی دوست اور صحافی محمد زبیر نے مجھے دیا۔ میزبانی حاصل کرنے کے لیے جاپان کی تگ و دو پر روشنی ڈالی اور اسی عمارت کے انتہائی قریب واقع پاکستانی ہوٹل پر پاکستانی کھانوں سے میری تواضع بھی کی۔

میں نے ٹوکیو میں اپنے 10 روزہ قیام کے دوران پورے شہر میں چلنے والی ٹیکسیوں، بسیں اور ٹرینوں پر اولمپکس 2020ء کے پوسٹر چسپاں دیکھے، گزرگاہوں اور شاہراؤں پر جاپانی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے ہدایات والے شناختی بورڈز میں بھی اضافہ محسوس ہوا۔ جاپانی میڈیا میں بھی اس کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کی خبریں تواتر سے نشر ہو رہی تھیں، اخبارات بھی برابر لکھ رہے تھے، اس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایونٹ جاپان کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے۔

انہی دنوں دورانِ قیام عیدالفطر کا موقع بھی آیا، تو عید کے دن چونکہ مجھے فراغت تھی کام نہیں کرنا تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ اس دن کو کس طرح خاص بنایا جائے تو آخر میں طے یہ پایا کہ اسی جگہ پر کھانا کھایا جائے جہاں کچھ دن پہلے پاکستانی دوست کے ساتھ کھایا تھا، کیونکہ میں ہر روز تقریباً جاپانی کھانا ہی کھا رہا ہوتا تھا۔

اسی غرض سے شام کو ہوٹل سے باہر نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر آدھے گھنٹے کی مسافت پر شنجیکو اسٹیشن پہنچا اور پھر اپنے موبائل پر نیوی گیشن کی مدد سے اس ہوٹل کی طرف چل پڑا، لیکن حیرت انگیز طور پر ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد بھی ہوٹل نہ ملا۔

2 ڈھائی گھنٹے تک نیوی گیشن کی مدد سے ہوٹل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا مگر کوششیں بے سود رہیں۔ چلتے چلتے پاؤں شل ہوگئے اور ایک عمارت کے سامنے تھک ہار کر بیٹھ گیا، غور کرنے پر پتا چلا کہ میں 'ٹوکیو میٹروپولیٹن گورنمنٹ آفس' کی عمارت کے سامنے ہی ڈھیر ہوا ہوں۔ کچھ دیر اس عمارت کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ جاپان کے لیے اولمپکس2020ء کتنا اہم ایونٹ ہے۔

پھر مجھے یاد آگیا کہ اس عمارت سے کس طرح پاکستانی دوست مجھے اس ہوٹل تک لے کر گئے تھے، یوں میں نے اندازے سے جو راستہ اختیار کیا، بالکل ٹھیک منزل پر پہنچ گیا۔ اس لیے میں اولمپکس والی عمارت کا احسان نہیں بھول سکتا، جس نے میری عید خراب ہونے سے بچائی۔

اس دن میں نے اس پاکستانی ہوٹل 'پوٹھوہار' پر لذیذ کھانا کھایا، پاکستانیوں سے عید ملا، جو اس ہوٹل پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے خصوصی دودھ پتی بھی بنا کر پلائی، جس کے پیسے بھی نہیں لیے اور واپسی پر ایک شیف، جو بنگالی تھے، انہوں نے یہ پیشکش کی کہ 'واپسی پر میرے ساتھ اسٹیشن تک چلیں تاکہ آپ گم نہ ہوں اور وقت پر اپنے ہوٹل پہنچ سکیں، کیونکہ رات بہت ہوگئی ہے' اس طرح میری عید تمام ہوئی۔

کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات نے اس ایونٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ جاپانی اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن جب حالات ابتر ہوتے چلے گئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ کینیڈا نے اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے سے انکار کردیا اور یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا، جاپانی حکومت کی طرف سے ایونٹ کی معطلی کا اعلان کردیا گیا اور اب یہ اگلے سال پر منتقل ہوچکا ہے، یعنی اب یہ 2021ء میں جولائی کے مہینے سے شروع ہوگا، البتہ اس کا آفیشل نام اولمپکس 2020ء ہی رہے گا۔

اس سے کوئی انکار نہیں کہ ایونٹ کی معطلی سے جاپان کو خطیر مالی نقصان ہوا ہے لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اس سے کہیں زیادہ انہیں جذباتی نقصان پہنچا ہے۔ اب دعا ہے کہ دنیا کے حالات نارمل ہوجائیں تاکہ یہ ایونٹ اگلے سال وقت پر شروع ہوسکے، ٹوکیو کی رونقیں اپنے عروج کو پہنچیں اور فرطِ مسرت سے جاپانی دوستوں کے چہرے پھر سے چمک اٹھیں۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔