پاکستان

مشرف فیصلہ: 'قانون شکنی پر سب کے خلاف بلا امتیاز یکساں فیصلہ ہونا چاہیے'

سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کےخلاف فیصلہ اور اس میں استعمال ہونے والی زبان قابل مذمت ہے، وزیر آئی ٹی خالد مقبول صدیقی

وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کے پس منظر میں کہا ہے کہ ملک کو لوٹ کر اپنے حق میں قوانین بنا کر یا آئین میں ضرب لگا کر ملک کو نقصان پہنچانے کی 'سازش کرنے والے تمام طبقات اور زبان بولنے والوں کے خلاف ایک طرح کی سزا ہونی چاہیے'۔

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ملک میں کوئی بھی زبان بولنے والا ہو اور کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو، قانون شکنی پر یکساں فیصلہ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: سزا کے خلاف اپیل کیلئے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آنا ہوگا، سابق جج

انہوں نے کہا کہ سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ اور خاص طور پر اس میں استعمال کی جانے والی زبان انتہائی قابل اعتراض، قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 'اس طرح کی زبان کے استعمال سے ہم سب کے جذبات مجروح ہوئے ہیں'۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 'یہ پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے تصور کو مجروح کرتی نظر آتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم اداروں کے درمیان کشیدگی، غلط فہمی اور تلخی کے امکان کو اداروں کے درمیان تصادم کے قریب تصور کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے پاکستان کے استحکام اور جمہوریت کے لیے سود مند نہیں ہے'۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان جمہوریت کو ہی (تمام مسائل) کا آخری حل سمجھتی ہے جس پر چل کر ملک اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے بعد 3 رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی آمر کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم دیا۔

واضح رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں، جہاں انہیں طبیعت ناسازی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں‘

گزشتہ روز دیے گئے فیصلے پر پرویز مشرف کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے، تاہم اگر عدالت عظمیٰ بھی خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجرم کی سزا کو معاف کرسکیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔