فیصلے میں جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ انصاف و قانون کے بارے میں عاجزانہ قانونی فہم کے ساتھ میں نے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ کی جانب سے لکھے گئے مجوزہ فیصلے کا انتہائی احترام کے ساتھ جائزہ لیا اور میں اپنے قابل بھائیوں کی اکثر آرا سے اختلاف کرتا ہوں۔
جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو مذکورہ تاریخ پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ جب یہ جرم کیا گیا، اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کے سوا کسی بھی فرد کے کسی بھی عمل پر آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوتا تھا۔
اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کو ہی سنگین غداری تصور کیا جاتا تھا۔
ساتھ ہی اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ 20 اپریل 2010 تک آئین کے آرٹیکل 6 کی تعریف میں آئین کی معطلی اور عبوری معطلی کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تھے اور انہیں سنگین غداری کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے ڈھائی سال بعد 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں متعارف کرایا گیا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سال 2010 میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد سنگین غداری کی تعریف اپڈیٹ کی گئی تھی۔
انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں جرم کے طور پر سنگین غداری کو بتایا گیا ہے لہٰذا اس کے مفہوم کو سمجھے بغیر یہ عدالت ایک شفاف فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔
جسٹس نذر اکبر کے مطابق اس وجہ سے استغاثہ کے دونوں قابل وکلا اور میرے دونوں قابل بھائیوں نے سنگین غداری کے الفاظ کی تعریف کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کے 10ویں ایڈیشن میں دیے گئے 'سنگین غداری' کے معنی پر انحصار کیا ہے۔
مزید کے لیے کلک کریں
پرویز مشرف نے عدالتی فیصلے پر کیا کہا؟ علاوہ ازیں 17 دسمبر کو دیے گئے مختصر عدالتی فیصلے پر سابق صدر کا ردعمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ ان کے خلاف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے کیس بنایا اور سنا گیا جس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا۔
عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پرویز مشرف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'خصوصی عدالت نے میرے خلاف آرٹیکل 6 کا جو فیصلہ سنایا وہ میں نے ٹی وی پر پہلی بار سنا، یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی کہ مدعا علیہ اور نہ اس کے وکیل کو اپنے دفاع میں بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں نے یہ تک کہا تھا کہ اگر کوئی خصوصی کمیشن تشکیل دیا جائے جو یہاں آئے تو میں اسے اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہوں، اس کو بھی نظر انداز کیا گیا۔'
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ 'میں اس فیصلے کو مشکوک اس لیے کہتا ہوں کہ اس کیس کی سماعت میں شروع سے آخر تک قانون کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا گیا، بلکہ یہ بھی کہوں گا کہ آئین کے مطابق اس کیس کو سننا ضروری نہیں ہے، اس کیس کو میرے خلاف صرف کچھ لوگوں کی ذاتی عداوت کی وجہ سے بنایا اور سنا گیا اور اس میں فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا اور ان لوگوں نے ہدف بنایا جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'قانون کا مایوس کن استعمال، فرد واحد کو نشانہ بنانا اور واقعات کا اپنی منشا کے مطابق چناؤ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔'
انہوں نے کہا تھا کہ 'میں پاکستان کا عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب کہا کہ وہ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور ہر شخص قانون کے لیے برابر ہوگا اس پر میں بھی یقین رکھتا ہوں، لیکن چیف جسٹس نے اپنے ارادے اور عزائم خود یہ کہہ کر ظاہر کر دیے کہ میں نے اس مقدمے کے چند فیصلوں کو یقینی بنایا۔'
ساتھ ہی سابق صدر نے کہا تھا کہ 'کیسے وہ جج جنہوں نے میرے دور میں اپنے لیے فوائد اٹھائے ہوں میرے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں، میں پاکستانی عوام اور مسلح افواج کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ملک کے لیے میری خدمات کو یاد رکھا، یہ میرے لیے سب سے بڑا تمغہ ہے اور میں اسے قبر میں ساتھ لے کر جاؤں گا۔'
انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد فیصلہ کروں گا، مجھے پاکستانی عدلیہ پر اعتماد ہے کہ وہ مجھے انصاف دے گی اور قانون کی بالادستی کو مدنظر رکھے گی
پاک فوج کا عدالتی فیصلے پر ردعمل ادھر آج جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے آج سامنے آنے والے تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات کو درست ثابت کردیا۔
میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کو بریفنگ دی—فائل فوٹو: بشکریہ آئی ایس پی آر
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر ہمیں خطرات کے بارے میں معلوم ہے تو ہمارے پاس اس کا ردعمل بھی موجود ہے، اگر ہم بیرونی حملوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں، اندرونی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں تو جو ملک دشمن قوتوں کا موجودہ ڈیزائن چل رہا ہے، اسے سمجھ کر اس کا بھی مقابلہ کریں گے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 17 دسمبر کے مختصر فیصلے پر جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا وہ آج تفصیلی فیصلے میں صحیح ثابت ہوئے ہیں، آج کا فیصلہ کسی بھی تہذیب اور اقدار سے بالاتر ہے اور چند لوگ آپس میں لڑوانا چاہتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ہم نے اس ملک کو استحکام دینے کے لیے بہت لمبا سفر کیا ہے اور عوام، اداروں اور افواج پاکستان نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، ہم اس استحکام کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ افواج پاکستان صرف ایک ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک خاندان ہے ہم عوام کی افواج ہیں اور جذبہ ایمانی کے بعد عوام کی حمایت سے مضبوط ہیں، ہم ملک کا دفاع بھی جانتے ہیں اور ادارے کی عزت اور وقار کا دفاع بھی بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کچھ دیر قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے تفصیلی بات چیت ہوئی، پرویز مشرف کے خلاف کیس کے فیصلے کے بعد افواج پاکستان کے کیا جذبات ہیں اور اس معاملے کو آگے لے کر کیسے چلنا ہے اس پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
قبل ازیں 17 دسمبر کے مختصر عدالتی فیصلے پر پاک فوج کا بھی سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلے پر افواج پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔
میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ میں فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'پرویز مشرف آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور صدر مملکت رہے اور 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی۔'
مختصر فیصلے پر اپنے ردعمل میں انہوں نے کہا تھا کہ 'جنرل (ر) پرویز مشرف نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور وہ کسی صورت میں بھی غدار نہیں ہو سکتے۔'
سنگین غداری کیس کا پس منظر خیال رہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 3 نومبر، 2007 کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا تھا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے تھے۔
اس دوران ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا تھا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے 'پی ٹی وی' پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں 'انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو' ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا تھا۔
بعد ازاں 2013 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو اسی سال 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔
پرویز مشرف کے خلاف 6 سال تک کیس چلا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو استغاثہ ٹیم کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی گئی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔
فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھی اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسی سال 20 جون کو مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے، جس کے بعد 30 جولائی 2018 کو سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
جس کے بعد اگست میں پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کو 20 اگست سے دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم ان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔
2 اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو 'بہادر کمانڈو' کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی تھی، جس کے بعد نومبر 2018 میں خصوصی عدالت نے مشرف کو حکم دیا تھا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی 2019 کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔
یکم اپریل 2019 کو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا تھا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر کی آگے بڑھائے۔
جون 2019 میں سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا جس کے بعد جولائی 2019 میں غداری کیس میں پروسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔